فزکس کی ٹائم تھیوریز کی مذہبیت، سائنس کے لیے لمحہ فکریہ
آئن سٹائن سے بہت پہلے کی بات ہے جب سائنس یہ مانتی تھی کہ کائنات قدیم ہے۔ ٹائم ایبسولیوٹ (مطلق) ہے۔ سپیس (مطلق) ایبسولیوٹ ہے۔ اُس وقت سامی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کے ماننے والے سائنس کی اِس بات سے انکاری تھے اور کبھی کسی مذہبی نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ سائنس کا کائنات کے بارے میں یہ ماننا کہ ’’کائنات قدیم ہے، ازل سے ہے، زمانہ مطلق ہے، مکان مطلق ہے‘‘ وغیرہ کو محض اس لیے تسلیم کر لیا جائے کہ یہ سائنس کہہ رہی ہے۔ اس موضوع پر،فلسفی لائبنز اور بابائے سائنس نیوٹن کے درمیان کتنے ہی مناظرے ہوئے جن میں لائبنز کا مؤقف سامی مذاہب والوں جیسا تھا کہ
’’کائنات کی ایک خاص وقت میں ابتدأ ہوئی اور یہ کبھی ختم بھی ہوسکتی ہے‘‘
اور نیوٹن جسے ہم بجا طور پر بابائے مادیات بھی کہہ سکتے ہیں، کا یہ مؤقف تھا کہ ’’کائنات قدیم ہے، یہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہیگی اور زمان و مکاں مطلق یعنی ایبسولیوٹ ہیں‘‘۔ نیوٹن اور لائبنز کے مباحث فزکس اور فلسفہ کے طلبہ کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ خاص طور پر نیوٹن کا بالٹی والا تجربہ (Bucket Experiment) بہت مشہور ہے، جس کے بعد کہتے ہیں کہ لائبنز بحث ہارگیا تھا اور نیوٹن کا مکانِ مطلق ثابت ہوگیاتھا۔
ویسے ایک بات ہے، ڈیکارٹ کا مشہور تھاٹ ایکسپری منٹ جس میں وہ کائنات کا ہر تصور مفقود کرکے ’’میں سوچتاہوں سو میں ہوں‘‘ کا نتیجہ اخذ کرتاہے، خلا (سپیس) کے تصور کو ذہن سے غائب کردینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسی تجربے میں وہ خود کو ایک آئینے کے سامنے غائب (Invisible) تصورکرنے میں کامیاب ہوجاتاہے اور یہ خیال قائم کرتاہےکہ ’’باڈی‘‘ کے بغیر’’ مائنڈ‘‘ کا تصور ممکن ہے لیکن’’ مائینڈ‘‘ کےبغیر ’’باڈی‘‘ کا تصور ممکن نہیں۔ وہ اس تھاٹ ایکسپریمنٹ کو مزید وسیع تناظر میں اس طرح انجام دیتاہے کہ پوری کائنات کو ،بشمول اپنے جسم، حتیٰ کہ سَر اور دماغ کو بھی غائب تصورکرتاہے۔ تب وہ اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ ’’تمام تصورات‘‘ کے خاتمے کے بعد ایک تصورباقی رہتاہے اور وہ یہ ہے کہ،
’’میں ایک سوچتی ہوئی ہستی ہوں‘‘
میں نے جب کبھی بھی ڈیکارٹ کے اِس تجربے کو آزمایا، ہمیشہ کالی کالی خلا کا ایک تصور بھی میری نام نہاد ’’مطلق مَیں‘‘ (Absolute I) کے تصور کے ساتھ موجود رہا۔ میں نے اس الجھن کی تصدیق کے لیے دوسرے لوگوں کو ڈیکارٹ کا تھاٹ ایکسپری منٹ بار بار پرفارم کے لیے کہا اور ہمیشہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ’’تاریک سپیس‘‘ کا تصوربہرصورت موجود رہتاہے۔ ہم ایک پتھر سے لے کر ایک ہاتھی تک ، اپنے ہاتھوں پیروں سے لے کر سر اور پھر دماغ تک، سیارۂ زمین سے لے کر ساری کائنات کے ہر ہر آبجیکٹ تک ہر ہر تصور کو ہم باری باری غائب ہوتاہوا دیکھ سکتے ہیں۔لیکن ہم جب مادی اشیأ کو غائب (Disappeared) دیکھتے ہیں تو ، جہاں وہ تھیں، یعنی تاریک خلا، وہ جگہ تصور سے نکالی نہیں جاسکتی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سپیس ہمارے منطقی فہم کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے ذہن (مائینڈ) کا لازمی حصہ ہے۔غالباً بالکل ویسے، جیسے ’’مَیں‘‘ کا تصور ہمارے ذہن کا لازمی حصہ ہے ، ویسے ہی خلا (سپیس) بھی ذہن کا لازمی حصہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو سپیس کا مطلق ہونا اور بھی زیادہ مشکوک ہوجاتاہے اور یہ فقط ہمارے ذہن کی ایک کمی یا بیماری کے درجے کی چیز رہ جاتی ہے، کیونکہ ہمیں ’’مَیں‘‘ کے تصور کا بھی خالصتاً موضوعی تجربہ حاصل ہوتا ہے ۔ معروض میں، ’’میری مَیں‘‘ کا کوئی ثبو ت موجود نہیں۔
خیر! نیوٹن نے لائبنز کو بکٹ ایکسپری منٹ پرفارم کرکے دکھایا۔ یہ تجربہ کچھ اِس طرح ہے، آپ ایک بالٹی لیں۔ اس کو پانی سے آدھا بھر لیں۔پھر اسے ایک رسی کی مدد سےکسی چھت کےساتھ لٹکا دیں۔ اب بالٹی کو گھمانا شروع کریں۔ رسی میں بل آنا شروع ہوجائینگے۔ کچھ دیر بعد رَسی تَن جائینگی۔ تب آرام سے بالٹی کو چھوڑ دیں۔ رسی کے بل فوراً کھلنا شروع ہوجائینگے۔ بالٹی بھی گھومنے لگ جائیگی۔ بالٹی میں موجود پانی مقعر (Concave)شکل اختیار کرلے گا۔ یعنی پانی درمیان سے نیچے کی طرف دب جائیگا اور کناروں سے اوپر کو اُٹھ جائیگا۔ کچھ دیر بعد جب بالٹی کی گردش رُک جائیگی تب بھی پانی کی شکل برقرار رہے گی۔ نیوٹن سوال کرتاہے کہ پانی کی گردش کس شئے کے ساتھ ریلیٹو(Relative) ہے؟ آپ کچھ دیر سوچ کر جواب دینگے کہ ، پانی ہمارے ساتھ ریلیٹو ہے۔ یعنی بیرونی چیزوں کے ساتھ۔ تب نیوٹن آپ سے مکرر سوال کریگا کہ اگر آپ اسی بالٹی کو دُور بہت دُور ایسے تاریک خلاؤں میں تصور کریں جہاں لاکھوں میل تک کوئی ایک چھوٹا سا پتھر بھی نہ ہو ، تب اسی گھومتے ہوئے پانی کی حرکت کس شئے سے ریلیٹو ہوگی؟ کیونکہ اگر کسی شئے کے ساتھ ریلیٹو نہ ہو تو ہم یہ نہیں بتاسکتے کہ پانی گھوم رہا ہے۔ اگر ریلیٹو ہوگی تو ہم بتاسکینگے کہ پانی گھوم رہاہے۔
کہتے ہیں، اس سوال کے بعد لائبنز خاموش ہوگیا تھا۔ بعد میں اِس تجربے میں کئی نقائص نکالے گئے جو دیگر لوگوں کا کام ہے۔ نیوٹن نے اَٹھارویں صدی میں وفات پائی اور اسکے نظریات کو جس اعتقادی سطح کی حتمیت حاصل رہی اُس سے کسی اہل ِ علم کو انکار نہیں۔ نیوٹن کی مطلق اور قدیم کائنات کا زور 1905 تک رہا، جب آئن سٹائن نے آکر قدیم کائنات کا تصور ختم کردیا۔آئن سٹائن نے زمان و مکاں کے مطلق ہونے کا تصور تو درکنار، سِرے سے زمان و مکاں کے ایسے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا جو متفقہ ہو۔ اُس نےزمان و مکاں کو شاہد اور ناظر تک محدود کردیا۔ کائنات کا ایک آغاز ہے یعنی بگ بینگ، اور کائنات ایک دن ختم ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ، یہ سب نظریات بیسویں صدی کے اوائل میں سائنس نے تسلیم کیے۔
سامی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والوں نے ہمیشہ کائنات کو قدیم تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ کائنات خدا کے کُن کہنے سے بنی ہے۔ وقت مطلق نہیں ہے۔ کائنات وقت کے ایک خاص لمحے میں بنائی گئی ہے اور مکانی فاصلے حقیقت میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ مذہب کا یہ نظریہ سائنس کو چُبھتا تھا یعنی آج کے تناظر میں دیکھاجائے تو سامی مذاہب اور خصوصاً اسلام کا نظریۂ آفرینش اُس وقت بھی جدید ترین تصور پیش کررہا تھا جبکہ سائنس قدامت پسندانہ خیالات کی حامل تھی۔ یہ مسلمانوں کے عالی دماغ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے کائنات کے قدیم اور حادث ہونے کے مباحث کو عہدِ حاضر جیسی مقبولیت عطا کی اور اپنے وقت میں تمام اکیڈمکس کے علمی موضوعات کا مرکزبنادیا۔
غرض قران کا یہ نظریہ کہ کائنات ایک خاص وقت میں بنائی گئی اور یہ ایک خاص وقت میں ختم بھی ہوجائے گی ، نہ صرف اُس وقت کے سائنسی نظریہ کے مقابلے میں جدید تھا بلکہ آج بھی ویسے کا ویسا ہی تازہ اور طاقتورہے۔ قران ایک ایسی عجب کتاب ہے کہ بعض آیات تو فی الواقعہ وقت سے بہت پہلے کھلم کھلا پیش گوئی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جن کے ثبوت بعد میں ہم دیکھتے ہیں تو انگشت بدندان رہ جاتے ہیں۔ مثلاً قرانِ پاک میں ایک آیت ہے، ’’ستاروں کے محل وقوع کی قسم! اگر تم جان لو کہ یہ کیا ہے تو تم بے اختیار پکار اُٹھو کہ اللہ نے بہت عظیم قسم کھائی ہے‘‘
’’بوڈز لا‘‘ میں جب ستاروں کا محل وقوع پہلی بار معلوم ہوا یا ، بعد میں ریڈ اور بلیو شفٹ نے دُور دُور کی کہکشاؤں کا ایک ایک میل کے حساب سے فاصلہ بتادیا تو کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ ایک ایسی ہستی بھی ہے جو ستاروں کے محل ِ وقوع کی قسم کھاتی ہے اور چیلنج کرکے کہتی ہے کہ ’’وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ۔
ہم نے تو سنا ہے کہ اُس دور میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ستارے اور سیّارے دراصل زمین کی طرح کےبڑے بڑے اجسام ہیں۔ ہم نے تو سناہے کہ لوگ انہیں جھلمل کرتے چھوٹے چھوٹے سلمی ستارے سمجھتے تھے یا یہ مانتے تھے کہ یہ جنّتیں ہوسکتی ہیں، دوزخیں ہوسکتی ہیں،، دیوتا، دیویاں ، عالم ِ امثال کے اجزأ، ملائکہ وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے تو سنا ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ان میں کچھ ستارے ہمارے سورج کی طرح ہیں، پھر ان کے سیارے بھی ہیں۔ تو پھر قران نے ایسی باتیں کس طرح کردیں؟ مثلاً
لَا ٱلشَّمۡسُ يَنۢبَغِى لَهَآ أَن تُدۡرِكَ ٱلۡقَمَرَ وَلَا ٱلَّيۡلُ سَابِقُ ٱلنَّہَارِۚ وَكُلٌّ۬ فِى فَلَكٍ۬ يَسۡبَحُونَ (٤٠) وَءَايَةٌ۬ لَّهُمۡ أَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّيَّتَہُمۡ فِى ٱلۡفُلۡكِ ٱلۡمَشۡحُونِ (٤١) وَخَلَقۡنَا لَهُم مِّن مِّثۡلِهِۦ مَا يَرۡكَبُونَ
(٤٢) نہ سورج کی مجال ہے وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے اور ہر ایک، ایک آسمان میں تیرتا پھرتا ہے (۴۰) اور ان کے لیے یہ بھی نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو فُلکِ مشحون (بھری کشتی ) میں سوار کیا (۴۱) اور اُن کے لیے اسی طرح کی اور بھی (کشتیاں) بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں (۴۲)
اس سے زیادہ واضح الفاظ میں کیسے بتایا جائے کہ زمین کے علاوہ بھی سیارے ہیں، جن پر ہماری نسل کے لوگ سوار ہیں ؟ مزید یہ کہ کل کو ایسے سیارے بھی ہونگے جہاں ہماری اولادیں آباد ہونگی؟ کیا یہ بات قران نے پندرہ سوسال پہلے نہیں بتائی؟ 2023 میں پہلا انسانی مِشن مریخ پر جارہاہے۔ اس منصوبے پر کئی سالوں سے کام ہورہاہے۔ یہ ایسا مِشن ہے جو مریخ کو آباد کرنے کی غرض سے بھیجا جارہاہے۔ مشن کا نام ہے ’’مارس ون، ون وے مِشن‘‘ جس کا مطلب ہے کہ وہاں جو لوگ جارہے ہیں وہ کبھی واپس نہ آنے کے لیے جائینگے۔ جب ناسا نے درخواستیں مانگیں تو دنیا بھر سے چھ ہزار لوگوں نے درخواستیں بھیجیں، جن میں سے صرف سو لوگوں کو منتخب کیا گیا۔ ان میں سے بھی صرف دو جوڑے جائینگے، لیکن تربیّت سوکے سو لوگوں کو دی جارہی ہے۔یہ لوگ وہاں جاکر شیشے کی ایک عمارت بنا کر اُس میں رہینگے۔ شیشے کی اس عمارت میں پودے اُگائے جائینگے اور یوں اس میں آکسیجن ہوگی۔
ذراسوچیں تو! دوہزار تئیس ہم سے کتنی دُور ہے؟ آج دوہزار سترہ ہے۔ یعنی کُل چھ سال بعد ۔ مریخ پر جانے والوں کے دورانِ سفر کُل سات ماہ صرف ہونگے۔ یہ اتنا ہی سفر ہے جتنا ارسطو کے زمانہ میں بخارا سے بغداد تک کا ہوگا۔ یعنی آج سے آٹھ سال بعد ہم مریخ کے نئے باشندوں کی ویڈیوز دیکھ رہے ہونگے کہ وہ کس طرح مریخ پر رہ رہے ہیں۔ اگر ایک بار یہ مِشن کامیاب ہوگیا تو یقیناً جلد ہی دوسرا مشن بھیجا جائیگا ، پھر تیسرا اور مریخ پر ہی کیا موقوف ۔ مِشن پر مشن نکلیں گے اور ایک سے ایک عمدہ سیارہ دریافت کرکے انسان اُسے آباد کردینگے۔ تب اگر کوئی مسلمان یہ آیت پڑھے گا کہ، نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے اور ہر ایک، ایک آسمان میں تیرتا پھرتا ہے (۴۰) اور ان کے لیے یہ بھی نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو فُلکِ مشحون (بھری کشتی) میں سوار کیا (۴۱) اور اُن کے لیے اسی طرح کی اور بھی (کشتیاں) بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں (۴۲) تو کیا تب بھی یہ کہا جائیگا کہ سائنس نے ایک کارنامہ سرانجام دیا، جبکہ مذہب نے اُس کی پیش گوئی کا سہرا اپنے سر باندھ لیا؟
جب اسلام یہ سب کچھ بتا رہا تھا سائنس کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔ اسلام نے حسّی تجربے سے نفرت کرنے والی دنیا کو ، جسے اقبال نے، ’’خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر‘‘ کہا ہے، اِس کائنات کی تسخیر کے کام پر آمادہ کیا۔ ستاروں کی چالوں سے فال نکالنے والی دنیا کو اس مایا جال سے نکالا اور ستاروں کی تسخیر پر آمادہ کیا۔ معراجِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لیے اقبال نے ہمیشہ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے بیان کے ساتھ ساتھ انسانی عظمت کے بیان کے طور پر بھی لیا ہے،
عشق کی اِک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
یہی نہیں بلکہ اسلام کی اس شہ پر کہ ’’اگر تم کائنات کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ! لیکن تم نکل نہ سکوگے ، ہاں اگر تمہارے پاس بہت زیادہ توانائی ہو تو نکل سکتے ہو‘‘ (قران)
اسی بنا پر اقبال نے ہرمؤمن کے لیے معراج کی شرط لازم قرار دے دی،
مؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
گویا فتویٰ صادر کردیا کہ جو معراج نہیں کرپاتا وہ مؤمن ہی نہیں۔ اب ذرا پھر سے سابقہ مضمون کے ساتھ اس تمام کنسٹرکشن کو جوڑیے! مذہب اتنا ماڈرن تھا اور سائنس کی قدامت پسندی مذہب کو ہرگز قبول نہیں تھی۔چاہے وہ سائنس نیوٹن جیسے جیّد سائنسدان کی طرف سے وارد ہوئی اور ایک دنیا نے اسے مان لیا لیکن مذہب اور خاص طور پر اسلام نے بالکل نہ مانا۔
پھر جب سائنس نے مذہب کے نظریات کو بالآخر ۱۹۰۵ میں قبول کرلیا تو کسی ایک بھی مذہبی نے یہ الزام نہیں لگایا، ’’میاں! شرم کرو! تم لوگ تو سائنسدان ہو۔ یہ تو ہمارے نظریات ہیں۔ تم لوگ ہمارے خیالات کی تائید کررہے ہو۔ اب کل کو اگر ہم نے یہ کہا کہ سائنسدانوں نے بھی مذہبی خیالات کی تائید کردی ہے تو پھر تم شور مچاؤگے کہ مذہبی لوگ سائنسی ترقی کو اپنی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ دیکھ لو! تم لوگوں نے وہی بات مان لی ہے جو ہم اِتنی صدیوں سے کہتے آرہے ہیں‘‘
یقین جانیے! کسی مذہبی نے سائنسدانوں کو ایسا طعنہ نہیں دیا۔ اس کے برعکس مذہبی لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ ’’چلو! دیر آید درست آید‘‘ یا ’’صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے‘‘۔ لیکن وائے حسرت کہ آج دنیا بھر میں ایسی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے کہ
’’سائنس جب بھی کوئی نئی بات دریافت کرتی ہے تو مذہب اُس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش شروع کردیتاہے‘‘
گزشتہ دنوں جب ’’جی ویو‘‘ کی دریافت کا اعلان ہوا اور مذہبی لوگوں نے اس لیے خوشی کا اظہار کیا کہ اس سے ’’سپیس ٹائم فیبرک‘‘ کا حتمی ثبوت مل گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مذہب کے وہ تمام نظریات جو صدیوں قبل سپیس ٹائم کے فولڈ ہوجانے کے بارے میں ہیں وہ فی الواقعہ درست ہیں اور جیسے بگ بینگ کو تسلیم کرتے ہوئے سائنسدانوں نے اپنے قدیم جاھلانہ تصور کو ترک کردیا ،ممکن ہے اب یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ وقت اور خلا لچکدار ہیں، سائنسدان اِس مرتبہ ندیدے لوگوں والی ڈھٹائی نہ کریں اور کھلے دل سے مان لیں کہ
’’بھئی! مذہب بیچارہ تو ہمیں صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے کہتا آرہا ہے کہ سپیس ٹائم فولڈ ہوسکتی ہے۔ ہم ہی تھے کہ ڈٹے ہوئے تھے اور مذہب کی ہربات کا انکارکرتےتھے‘‘
محترم قارئین! آپ نے بھی فیس بک پر اور عام زندگی میں ایسے گرم دماغ نوجوانوں سے ملاقات کی ہوگی جن کی طبیعت شدت پسند مذہبیوں سے ملتی جلتی ہے اور جو چھُوٹتے ہی سب سے پہلے مذہب کو گالی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اِس مذہب کی ایسی تیسی، جو کوئی سائنسی ایجاد یا دریافت ہوتی ہے ، یہ فوراً اپنی بائیبل اور قران اُٹھا کر آجاتاہے کہ، یہ دیکھو! یہ دیکھو! یہ بات تو ہمارے ہاں پہلے سے لکھی ہوئی تھی‘‘
یہ نہایت متشدد، غیر سائنسی لوگ ہیں۔ انہیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ مذہب نے بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے کبھی سائنس کی کسی بات کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ
’’یہ ہمارے ہاں پہلے سے لکھی ہوئی تھی‘‘
ہمیشہ مخالفت ہی کی۔ ظاہر ہے یہ مخالفت اور بھی طویل رہتی ، بلکہ اب تک باقی رہتی اگر سائنس بالآخر یہ قبول نہ کرلیتی کہ مذہب صدیوں سے جو کہتا آرہا تھا وہی درست ہے۔ یہ دوست ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ سائنس نے بالآخر مذہب کی بات قبول کرلی نہ کہ مذہب نے سائنس کی۔
واقعۂ معراج مسلمانوں کے پاس پندرہ سو سال سے موجود ہے۔ واقعہ معراج کے علاوہ بھی سپیس ٹائم فولڈ ہونے کے کئی واقعات ہیں۔ جن میں اصحاب ِ کھف کا واقعہ، حضرت عزیز علیہ السلام کا واقعہ وغیرہ اسلامی عقائد کا حصہ ہیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی سپیس ٹائم فولڈ ہوجانے کے بے شمار واقعات کا ذکر ہے۔
’’صرف سامی مذاہب ہی نہیں ، سناتن دھرم جس کو ہم ھندو مت کہتے ہیں اس میں بھی ٹائم اینڈ سپیس ٹریول کا ذکر ملتا ہے ۔ ھندو دھرم کے مطابق تین ازمنہ ہیں ۔ بھوت کال ، ورتمان اور بھاوِش کال ، مہابھارت کے ساتھ ساتھ ھندوؤں کے چار میں سے تین ویدوں ( رِگ وید ، سام وید اور یجُر وید ــــــ چوتھا وید اتھروا وید ہے جو مختلف تاریک شکتیوں کو جگانے کے لئے جاپے جانے والے شلوکوں پر مبنی ہے) میں ٹائم ٹریول کا ذکر اس شدت سے کیا گیا ہے کہ ٹائم ٹریول سے متعلق اشلوکوں کو ویدوں سے نکال دیا جائے تو ان شلوکوں کے بغیر اگلی بات بالکل بلائنڈ ہو جائے گی ۔ اس کے بعد زرتشتیوں کی مقدس کتاب یاشنا میں پہلے باب کا 46 واں بند ’’اوستا‘‘ کے متعلق ہے جس میں زرتشت زمانہ ماقبل تاریخ میں جا کر اہورا مزدا کے ساتھ مل کر کچھ ایڈجسٹمنٹس کر کے زمانہءحال میں واپس آتے ہیں ۔ بدھ مت کی مقدس کتاب تری پتیکا میں بدھ کے 1000 نوری سال کے سفر کا روشنی کی رفتار پر سفر کرنے کا قصہ بیان کیا گیا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ ان تمام بڑے مذاہب میں کسی بھی مشین یا اوزار کے استعمال کا ذکر نہیں ہے سوائے اسلام میں برّاق کی سواری کے ، چلیں یہاں ایک منطقی بات تو کی گئی کہ آقا کریم ﷺ نے ایک سواری کو استعمال کیا ، مگر عقل انسانی دلیل مانگتی ہے کہ وہ سواری جسے براق کہا گیا وہ ایک معجزاتی سواری ہے یا اصل میں بھی کہیں موجود ہے ؟ ‘‘
غرض سپیس ٹائم فولڈ ہوجانے کی تصدیق سائنس نے اب کی ہے، لیکن یہ خیال صدیوں سے موجود ہے۔ جب تک مذہب اصرار کرتا رہا کہ ہاں ایسا ہوسکتا ہے، ہاں مکان اور زمانہ سمٹ جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ تب تک سائنس نے تسلیم نہ کیا۔ اور نہ ہی کبھی سائنس اِس طرف آنے والی تھی۔ وما کادُو! یفعلون۔ کیونکہ سائنس پر نیوٹن کے مطلق مکان (Absolute Time)اور مطلق زمانے (Absolute Time) کا راج تھا۔
’’ارتھر ایڈنگٹن‘‘ نے جب رائل سوسائٹی آف سائنسز کے سائنسدانوں کے سامنے آئن سٹائن کے ’سپیسٹائم فیبرک‘ کا ماڈل رکھا تو وہ بھڑک اُٹھے، غصے میں آگئے۔ سب کا ایک ہی مؤقف تھا کہ
’’تم نیوٹن!!!! ہمارے عظیم نیوٹن کے نظریہ کا انکار کرتے ہو؟؟ لاحول ولا قوۃَ۔ یہ تو سراسربلاسفیمی ہوگی‘‘
ارتھر اڈنگٹن کی زندگی پر بننے والی فلم میں دکھایا گیا ہے اُس نے بالآخر یہ کہہ کر فنڈز منظورکروائے،
’’جرمن ہمارے دشمن ہیں۔ نیوٹن کی گریوٹی انگریزوں کا سرمایہ ہے۔ اگر میں نے ایک جرمن سائنسدان کو غلط ثابت کردیا تو جنگ کے اِن نازک دنوں میں جرمنوں کے لیے یہ ایک کاری ضرب ہوگی‘‘
یہ کہہ کر ایڈنگٹن نے فنڈز لیے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ آئن سٹائن کی گریوٹی میں جان ہے اور یہ فِکر سچ ثابت ہوجانی ہے، اور وہی ہوا۔ ایڈنگٹن نے افریقہ جاکر سورج گرہن کے دوران روشنی کی شعاعوں کا سورج کے گریوٹی ویل (Gravity Well) میں مُڑنا دریافت کرلیا۔اور یوں ایک انگریز سائنسدان کے تجربے کی وجہ سے ایک جرمن سائنسدان جیت گیا۔ تب سے نیوٹن کی گریوٹی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر دنیائے سائنس نے آئن سٹائن کی گریوٹی کو اختیار کرلیا۔ دنیا یکلخت بدلنے لگ گئی۔ کائنات کی قدامت، زمان و مکاں کا مطلق ہونا یہ سب نظریات ، قدیم سائنس بن گئے۔جبکہ مذہب کے ساتھ ملتی جلتی باتیں کرنے والی نئی سائنس ماڈرن سائنس بن کر راج کرنے لگی۔
ناسا کے زیرِ انتظام ایک مشین (شِپ) بنانے کی کوشش کی جارہے ہی جس کا نام ہے، ’’سپیسٹائم ورپ ڈرائیو‘‘۔ یہ شِپ سپیسٹائم میں فولڈ پیدا کردے گی، جس سے سپیسٹائم میں روشنی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیزسفر ممکن ہوسکے گا۔ چونکہ گریوٹیشنل ویو کی اپنی رفتار ہی روشنی کے برابر ہے اس لیے اس شِپ کا سفر آئن سٹائن کے قانون کی وائلیشن بھی نہ کریگا کہ کوئی شئے روشنی کی رفتار پر یا اس سے زیادہ پر سفر نہیں کرسکتی اور یہ شِپ روشنی کی رفتار سے کئی گنا زیادہ رفتار پر سفر بھی کریگی ۔ ’’سپیس ٹائم ورپ ڈرائیو‘‘ خود سپیسٹائم کی موج پر سوار ہو کر چلےگی اس لیے قانون کی وائیلیشن نہیں ہوسکتی۔اس کو ’’الکُو بیرے ڈرائیو‘‘ بھی کہتے ہیں۔ الکُوبیرے (Alcubierre) اُس سائنسدان کا نام ہے جس نے اس مشین کو ڈیزائن کیا۔
اگر یہ شِپ کامیابی سے بنا لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ’’البراق‘‘ کی قدرے کمزور قسم وجود میں آجائے گی۔ اِسی طرح ’’رونالڈ میلیٹ‘‘ (Ronald Mallett) تھیوریٹکل فزکس کے ایک امریکی پروفیسر سالہال سے ایسی ٹائم مشین بنانے میں مصروف ہیں جو روشنی کی رفتار سے زیادہ پر سفر کرے گی۔ ان کا طریقہ نہایت سادہ ہے اور منطقی اعتبار سے قابل ِ عمل بھی۔ رونالڈ میلیٹ سپیس ٹائم فیبرک میں بھنور پید اکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ رونالڈ کے تجربہ کو سمجھنے کے لیے آپ ایک مثال پر غور کریں، آپ کے سامنے چائے کا ایک بھرا ہوا کپ پڑاہے۔ آپ چائے کے کپ میں چمچ گھمانا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں چائے گھومنا شروع ہوجائے گی اور آپ دیکھیں گے کہ کپ میں موجود چائے میں ایک ننھا سا بھنور پیدا ہونا شروع ہوجائے گا۔آپ اگر چمچ کو اور تیز گھمائیں تو بھنور گہرا ہوجائے گا اور بَکِٹ ایکسپری منٹ والی بالٹی کی طرح چائے بھی مقعر (Concave) شکل اختیار کرلے گی۔ اب اگر آپ چنے کا ایک دانہ چائے کے کپ میں پھینک دیں تو کیا ہوگا؟ آپ کو چنے کا دانہ تیزی کے ساتھ گھومتا ہوا نظر آئے گا۔ اور آپ دیکھیں گے کہ چنا اُس گہرے بھنور کے چکر کاٹ رہاہوگا جسے وقتی طورپر آپ بلیک ہول سمجھ سکتے ہیں۔ خود سٹیفن ہاکنگ کے بقول فطرت میں بنی بنائی ٹائم مشین صرف بلیک ہولز ہی ہیں۔ چائے میں پیدا ہونے والے اس بھنور کو سپیسٹائم پر کام کرنے والے سائنسدانوں مثلاً سٹیفن ہاکنگ یا رونالڈ وغیرہ جیسے لوگوں کی طرف سے ’’و رم ہول‘‘ (Wormhole)کا نام دیا جاتاہے، یعنی کینچوے کا سوراخ۔ خیر! آپ اپنے چائے کے کپ میں چنے کے ایک دانے کی تیز گردش دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو یقیناً یہی محسوس ہوگا کہ اصل میں دانہ گھوم رہاہے۔ لیکن آپ جانتے کہ دانہ نہیں گھوم رہا بلکہ چائے گھوم رہی ہے۔ یہ چائے سپیسٹائم فیبرک ہے ۔ اگر سپیس ٹائم فیبرک کو اِسی طرح گھما دیا جائے تو اس میں سفر کرتے ہوئے آبجیکٹس کی رفتار بھی سپیس ٹائم فیبرک کی موج کی رفتار کے برابر ہوجائے گی جو مسافر کے لیے روشنی کی رفتار ہوگی لیکن اس کے ناظر کے لیے روشنی کی رفتار سے کئی گنا زیادہ۔ رونالڈ کی ٹائم مشین میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اُسے ’’الکُبیرے‘‘ کی ورپ ڈرائیو کی طرح بے پناہ توانائی کی ضرورت نہیں ہے۔ رونالڈ روشنی کی شعاعوں کو کام میں لارہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع کو مختلف طریقوں سے منعکس یا منعطف کرکے ہم اس کے مومینٹم میں تبدیلی لاسکتے ہیں جس سےروشنی کی شعاع کی فریکوئنسی بڑھ جاتی ہے یا کم ہوجاتی ہے۔ رونالڈ نے بے شمار آئینوں اور شیشوں کی مدد سے بار بار روشنی کی شعاعوں کی فریکوئنسیاں بدلی ہیں۔ اس طرح وہ روشنی کی شعاعوں کے ذریعے ہی ایسی طاقت حاصل کرنا چاہتاہے جو سپیس ٹائم فیبرک میں بھونچال پیدا کردے۔
الکُوبیرے کی ورپ ڈرائیو ہو یا رونالڈ کی ’’چائے کے کپ‘‘ والی مشین ، دونوں کے ذکر سے میرا مدعا یہ ہے کہ، سائنسی دنیا کے لوگ روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر کرنے والی مشینیں بنانے میں مصروف ہیں۔ گویا وہ خیال کہ روشنی کی رفتار کا حصول انسان کے لیے ناممکن ہے اور اس لیے اِن کا ذکر ہی بند کیا جائے، غلط ثابت ہورہاہے۔ روشنی کی شعاع سے زیادہ رفتار کے تصور کا ذکر میرے اِس مضمون کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اس طرح کہ، عموماً سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کے ٹائم ڈائلیشن کا ذکر کرتے ہوئے مجھے یہ سوال سننے کو ملتاہے کہ ،
واقعۂ معراج میں جس طرح کا ٹائم ڈائیلیشن واقع ہوا ہے وہ تو سپیشل تھیوری کے ڈائلیشن سے اُلٹ ہے۔ آئن سٹائن کے ٹائم ڈائلیشن میں دوجُڑواں بھائیوں کا پیراڈاکس مشہور ہے۔ دو جڑواں بھائیوں میں سے ایک روشنی کی رفتار کے قریب کی رفتار سے خلا میں چلا جاتاہے جبکہ دوسرا بھائی زمین پر رہ جاتاہے۔ جب پہلا بھائی ایک سال بعد خلاسے واپس آتاہے تو دوسرا بھائی سوسال کا ہوچکاہے۔ اگر سپیشل تھیوری کا ڈائیلیشن یہ ہے تو پھر واقعۂ معراج کا ڈائیلیشن واقعی اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ معراج میں رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ وقت گزارا ہے ، اگرچہ آپ کے جسم پر مرورِ زمانی کے آثار نہیں تھےلیکن پھر بھی، آپ نے ایک لمبا عرصہ گزارا ہے جبکہ زمین پر لوگوں کا ایک پل بھی نہیں گزرا۔ سو واقعہ معراج ٹوِن پیراڈکس یا آئن سٹائن کے ٹائم ڈائلیشن کے اُلٹ ہے۔
یہ وضاحت کرنے کے بعد سوال کرنے والا یہ پوچھتاہے کہ پھر معراج مصطفیٰ کے واقعہ کو سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کے ٹائم ڈائلیشن سے ثابت کرنا کیونکر درست ہوسکتاہے؟ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ روشنی کی رفتار کے قریب تک سفر کرنے سے ٹوِن پیراڈکس واقعہ ہوگا۔ روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر کرنے سے ٹائم ڈائلیشن کی نوعیت بدل جائیگی۔ خود سٹیفن ہاکنگ کے بقول ماضی میں جانے کے لیے روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر کرنا ضروری ہے، اس لیے ماضی میں سفر ممکن نہیں۔
میں اکثر کہا کرتاہوں کہ قران میں رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’نورٌ علی نُور‘‘ کے الفاظ بطور خاص استعمال ہوئے ہیں۔ میں ذاتی طور پر نورٌ علی نُور کو روشنی ضرب روشنی کے مترادف سمجھتاہوں۔ یا روشنی کی رفتار ضرب روشنی کی رفتار۔ یہ وہ مقام ہے جس پر مادہ توانائی میں بدل جاتاہے۔ اس مقام پر ٹائم ڈائلیشن کی نوعیت اور قسم کیا ہوگی میں کوئی اندازہ لگانے کے قابل نہیں ہوں البتہ معراج کا ٹائم ڈائلیشن سپیسٹائم کے ڈائلیشن کے الٹ ہوکر بھی کیسے سمجھ میں آسکتاہے اس کے لیے میرے پاس ایک اینالوجی ہے۔
البراق بالکل ویسے ہے جیسے ایک بہت بڑی سُوئی کا تصور۔ یہاں سُوئی سے مراد گھڑی والی سُوئی ہے۔ جسے انگلش میں ’’ہینڈ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سُوئی اتنی بڑی ہے کہ اِس کا ایک سِرا زمین پر ہے اور دوسرا سرا دُور بہت دُور خلاؤں تک چلا گیا ہے۔ بالکل ویسے جیسے آج کل ’’سپیس ٹائم ایلیویٹر‘‘ کے تصور پر، بے شمارلوگ خود ناسا کی آشیرواد کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اُس ایلیویٹر سے بھی لمبی سُوئی ہے یہ، جو ہم اپنے تھاٹ ایکسپری منٹ میں سوچ رہے ہیں۔ اگر اس سُوئی کو ذرا سی بھی حرکت دی جائے تو کیا ہوگا؟ اِس کا جو سرا زمین پر ہے وہ ایک سیکنڈ میں فقط ایک انچ سفر طے کریگا اور اِس کا دوسرا سرا جو دُور خلاؤں میں موجود ہے وہ لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ اُسی ایک سیکنڈ میں طے کرلیگا۔
یہ فقط ایک ’’تاثر‘‘ سمجھانے کی کوشش ہے۔ اس سُوئی کا فزکس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایسی کوئی سُوئی ٹائم مشین کا متبادل نہیں ہوسکتی کیونکہ سُوئی کے ہر نقطے پر الگ الگ ریڈی اَس پیدا ہورہاہے اور اس لیے ایک نقطہ دوسرے پر متصل ہے نہ کہ منفصل۔ اگر منفصل ہوتا تو راز کھُل جاتا کہ زمینی سرا آسمانی سرے تک، انفارمیشن کو فی الاصل توانائی کو اُس رفتار کے ساتھ نہیں پہنچا رہا جسے ہم روشنی کی رفتار سے زیادہ سمجھ رہے ہیں۔ یہ بات ایک ٹرین کے ڈبوں کی طرح ہے۔ اگر پچھلے ڈبے کو زور سے دھکا لگے تو پہلے ڈبے تک اس کا اثر فوری نہیں پہنچتا۔ انفارمیشن کو جتنا وقت درکار ہے وہ اُتنا ہی وقت لیتی ہے۔ اس لیے اپنے سائنسدان دوستوں کے لیے مکررعرض کرتاہوں کہ میری یہ مثال ٹائم ڈائلیشن کے لیے نہیں بلکہ ایک تاثر سمجھانے کے لیے ہے۔ وہ تاثر جس میں زمین پر رہتے لوگوں کا وقت نہ گزرے جبکہ البرّاق کا مسافر سالہاسال گزارکر لوٹ آئے اور ویسے کا ویسا رہے، یعنی بُوڑھا نہ ہو۔
کارل ساگان نے اپنی مشہورکتاب’’کاسموس‘‘ میں جو اندازے بتائے ہیں ان کے مطابق اگر انسان روشنی کی رفتار کا ایک بٹا دس حاصل کرلے تو اکیس سال کے عرصہ میں وہ ہماری کہکشاں(ملکی وے) کے وسط سے چکرلگا کر واپس زمین پر آجائیگا لیکن اس وقت تک زمین پر ہزاروں سال گزرچکے ہونگے۔ اور وہ شخص انچاس سال میں پوری کائنات کا چکر لگا کر واپس زمین پر آسکتاہے۔ لیکن اس وقت تک زمین فنا ہوچکی ہوگی۔ یہ سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی والا ٹائم ڈائلیشن ہے۔ اس طرح کا ٹائم ڈائلیشن مذہب کے متعدد واقعات میں ملتاہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور اصحاب کھفؓ کا ٹائم ڈائلیشن سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کا ٹائم ڈائلیشن ہے۔ اس کے برعکس معراج کا ٹائم ڈائلیشن بالکل مختلف ہے۔ واقعۂ معراج میں جس طرح کا ٹائم ڈائلیشن ہوا ہے یہ کئی جہانوں کے دروازے کھول رہاہے جن میں سب سے اہم ’’مستقبل سے گزرنے‘‘ کا نظریہ ہے۔ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ معراج کے دوران سالہال گزارے ہیں اور احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ماضی کی بجائے مستقبل میں سفرکرتے ہوئے آگے بڑھے ہیں کیونکہ آپ نے جنت میں اُن لوگوں کو دیکھاہے جو ابھی زمین پر موجود تھے اور بقید ِ حیات تھے، جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل دیکھا ہے۔ آپ نے بہت آگے تک کا مستقبل دیکھاہے اور یقیناً سارے مستقبل کو عبور کرکے آپ
’’ابدی حال‘‘
کے دروازے پر پہنچے ہیں جسے سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتاہے۔ایک حدیث کے مطابق خدا خود زمانہ ہے، چنانچہ آپ سدرۃ المنتہیٰ کے بعد ’’حال‘‘ میں داخل ہوئے ہیں۔ اصلی حال، خالص حال ، ابدی حال۔ اسی لیے فلسفی، خدا کے ٹائم کو ’’پیورٹائم‘‘ قراردیتے ہیں، جو خود حال ہے لیکن اس سے کتنے ہی بِگ بینگز کے پھول کھلتے اور نئی نئی کائناتوں کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ جو خود ہرطرح کے دورانیے سے پاک ہے لیکن اسی حال کے نقطۂ مرکزی سے مستقبل اور ماضی تخلیق ہوتے ہیں۔ ان بے شمار جہانوں میں اس کی شان مختلف ہے۔ ہر کائنات اُس کے اُسی ایک پَل میں ایسے موجود ہے جیسے روشنی کی موج میں ایک فوٹان۔ وہ حال ہے، یعنی ماضی اور مستقبل کا نقطۂ اتصال۔ وہ دائم ہے لیکن غیر فعال نہیں۔ کُلَّ یومٍ ھو فی شان کے مصداق وہ اپنے زمانے میں دائم رہتے ہوئے بھی ایک سکینڈ کے دس کی طاقت مائنس بتیسویں حصے میں کائناتوں کی کائناتیں تخلیق کرسکتاہے اور کرررہاہے۔ رسول اطہر صلی اللہ وعلیہ وسلم، اُس حال میں داخل ہوئے۔ آپ کے لیے مستقبل سے گزر کرنا لازمی تھا ، اگرچہ معمولی کام تھا۔ چنانچہ آپ مستقبل سے گزرے۔ آپ ساتویں صدی عیسویں، آٹھویں صدی عیسوی، نوی، دسویں، گیارہویں، بارہویں ، علی ھذالقیاس، ہرصدی سے گزرے۔ آپ دوہزار سولہ سے گزرے۔ آپ کا گزر ہرصدی کے ہرسال کے ہردن میں سے تھا۔ آپ ہردن کو نارمل انسانوں کی طرح گزارتے ہوئے گزرے۔ آپ نے اپنے عہد کے سامنے بچھا سارا مستقبل دیکھا۔ آپ قیامت تک کے حال سے واقف ہوگئے۔ آپ نےکائنات کے خاتمے کے بعد کا مستقبل دیکھا۔ غرض وہ مقام جہاں سب سے طاقتور فرشتے کے پر جلتے تھے، جسے ہر ہر بِگ بینگ کے ابتدائی ذرّے کی سپر پوزیشن کو کولیپس کرنے والے شاہد (آبزرور) کا مقام کہا جانا چاہیے۔ وہ مقام جہاں لامتناہی ڈائمیشنز میں بیک وقت رہنے والا سب سے بڑا ذہن (ذاتِ حق) موجود ہے۔وہ مقام جو ابدی حال ہے اور جہاں سے کروڑوں نئے نئے بگ بینگز کے شگوفے پھوٹتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بھی پہنچے۔ یہ سارا سفر مکمل کرکے واپس لوٹے تو ابھی دروازے کی کُنڈی ویسے کی ویسے ہِل رہی تھی۔ پانی ویسے کا ویسے بہہ رہا تھا۔
یہ سپیشل تھیوری آف ریلیوٹی کا ٹائم ڈائلیشن نہیں ہے۔ یہ فقط سپیس ٹائم فیبرک کا’’فولڈ‘‘ نہیں ہے۔ یہ روشنی ضرب روشنی کی رفتار کا مقام ہے۔ یہ کسی ایک بگ بینگ سے بنائی گئی کائنات کا مکمل سفر نہیں جو انچاس سال میں کوئی بھی انسان کرسکتاہے۔ جب کبھی بھی واقعۂ معراج کا ذکر ایسے احباب کے سامنے ہو جو سائنسی طرز فکر کو ہرشئے پر ترجیح دیتے ہیں تو ان کا پہلا اور آخری سوال ایک ہی ہوتاہے کہ کسی انسان کے پاس بغیر مشین یا ٹیکنالوجی کے اتنی زیادہ توانائی کیسے آسکتی ہے کہ وہ روشنی کی رفتار ہی حاصل کرسکے کجا کے نُورٌ علی نُور کی رفتار کا حاصل کرنا ۔ لیکن حقیقت میں یہ وہ مقام ہے جہاں سائنس سے زیادہ فلسفہ ، نفسیات او رپیراسکالوجی کا جہان شروع ہوتاہے۔ عام طور پر اکیڈمکس کے نزدیک پیراسائیکالوجی ہومیو پتھک کی طرح بے بنیاد چیز ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ سائیکالوجی میں انسان کی علمی کاوشیں ابھی کسی کوپرنیکن انقلاب کی منتظر و محتاج ہیں ۔ جبکہ پیرا سائیکالوجی کا تو نام ہی جادوگروں جیسا ہے۔ کسی انسان کے پاس مشین کے بغیر اتنی توانائی کہاں سے آسکتی ہے کہ وہ معراج جیسی طاقت حاصل کرلے؟ اس سوال کا جواب ہے،
استحکام ِ خودی سے
یہی وہ استحکام ِ خودی ہے جس کا استعمال کرکے نیٹشے اپنے رجعتِ ابدی سے پیدا ہونے حَبْس کو توڑتا ، ایک سپرمین کو تخلیق کرتا اور کائنات کو اسکے سامنے بے بس قراردینے کے لیے تیار ہوجاتاہے۔ استحکام ِ خودی کا نظریہ فزکس، حیاتیات اور شعور کی سائنس کو یکجا کرکے توانائی کے مراکز تک رسائی حاصل کرنے کا نام ہے۔ جب یورینیم کا ایٹم ، پھاڑا نہیں گیا تھا تب تک انسان کو معلوم نہیں تھا کہ محض ایک چمچ مادہ سے اتنی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے جو لاکھوں کی آبادی کے شہروں کو آن ِ واحد میں تباہ کردے۔ ایٹم کے نیوکلیس کی یہ عظیم ترین توانائی کل تک غیب تھی۔ آج ہمارے قابوں میں ہے۔ ہم فزکس کے مطالعہ کے دوران جانتے ہیں کہ توانائی کی کچھ ایسی قسمیں بھی ہیں جن کا راز ابھی تک صرف اور صرف راز ہے۔ جیسا کہ کائنات کی تہتر فیصد توانائی کو ’’ڈارک انرجی‘‘ کہا جاتاہے اور اس کی کسی بھی صفت سے انسان ابھی تک واقف نہیں کہ ڈارک انرجی کیا ہے اور کیسی ہے؟ اسی طرح اینٹی میٹر کہاں ملیگا؟ جس کا ایک گرام اگر ہمارے پاس ہو تو ہم ایک کار کے ذریعے خط اُستوأ پر سفر کرتے ہوئے زمین کے دس ہزار چکر لگا سکتے ہیں یا اپالو ففٹین جیسا ایک راکٹ خلا میں بھیج سکتے ہیں۔
یا انفلشین کے وقت اتنی توانائی کہاں سے آئی؟ جس نے ایک نہایت باریک ذرّے سے جو یقیناً خود بھی سپرپوزیشن پر ہوگا، ایک سیکنڈ کے دس کی طاقت مائنس بتیسویں حصے میں کائنات کا سارا مادہ پیدا کردیا؟
یا کشش ثقل کی عظیم ترین توانائی کہاں غائب ہو جاتی ہے کہ جب محسوس کرنے لگو تو ایک تنکے برابر نہیں اور دُور سے دیکھو تو اس نے پوری کائنات کو پکڑ رکھاہے۔
یا ڈارک میٹر کیا ہے اور اس کے پارٹکلز کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض توانائی اور ریڈی ایشنز کی ابھی لامحدود قسمیں اَن ایکسپلورڈ ہیں۔ سو جیسے اِن توانائیوں کے راز پنہاں ہیں ویسے اور بھی کچھ توانائیاں ہیں جو ابھی تک فزکس اور نفسیات کی نظروں سے بالکل پوشیدہ ہیں۔ ان میں سے بعض ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں ہم بھی اوراہل ِ سائنس بھی تجسس کا ایک شائبہ سا رکھتے ہیں لیکن جانتا کوئی نہیں کہ وہ کیا ہے۔ مثلاً ، اگر دو پالتوجانور چند سال ایک دوسرے کے ساتھ رہیں تو وہ ایک دوسرے کی شناخت کیسے مقررکرلیتے ہیں؟ اگر اُن میں سے ایک کو دور بھیج دیا جائے اورپھر کچھ سال کے بعد واپس لایا جائے تو وہ پھر سے ایک دوسرے کو کیسے پہنچان لیتے ہیں؟ اس سے بھی بڑھ کر جو فی الواقعہ توانائی ہے وہ ’’درندوں اور سبزی خوروں‘‘ کے تعلق میں دیکھی گئی ہے۔ اِسے ہم اپنے طور پر ’’پریڈیٹرزٹیلی پیتھی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ جب ایک درندہ رات کی تاریکی میں بھی اپنے شکار کو عقب سے گھورتاہے تو اس کا شکار بے چین ہوجاتاہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح جان جاتاہے کہ اس کی جان خطرے میں ہے۔ کُتے اچانک خلا میں کسی طرف منہ کرکے بھونکنے لگ جاتے ہیں یا کسی ان دیکھی چیز کو دیکھ کر چارپائی کے نیچے چھُپ جاتے ہیں۔ کتنی ہی ایسی نامعلوم توانائیاں ہیں جنہیں ابھی تک سائنسی دنیا سے نظر التفات نہ مل سکی۔ اگر یورینیم کا ایک چمچ یکلخت توانائی کے بارے میں ہمارا کانسیپٹ تبدیل کرسکتاہے تو پھر ہم آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی بہت سی توانائیاں ہمارے لیے ڈارک انرجیز ہیں۔ اور ان میں سے کوئی بھی بھوت پریت کی طرح غیر منطقی نہیں بلکہ بگ بیگ والے پہلے ذرّے میں کہیں سے آجانے والی توانائی جیسی لاجک سے آراستہ ہیں۔
رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کا رہن سہن، کھانا پینا، کردار کی پختگی،صداقت، امانت ، تکالیف کو سہنا اور دوسروں کے لیے عمر بھر تگ و دو، ایسے عناصر ہیں جن سے بقول قران، رومیؒ اور اقبالؒ ایسی ہی توانائیاں حاصل ہوتی ہیں جن کی پیمائش شاید فزکس کے بس میں ہی نہ ہو لیکن جو بقول قران ’’سلطان‘‘ کی قوت ہیں اور جن کی مدد سے ہم کائنات کے کناروں سے نکل کر صاحب ِ لولاک بن سکتے ہیں۔ یہ یقیناً نفسیات کی ڈومین ہوسکتی ہے لیکن نفسیات ابھی بچی ہے۔ انسان کو کتنے رازوں کا مجموعہ بنایا گیا ہے اس پر تو کبھی کسی نے نگاہ ہی نہیں کی۔ کائنات میں کتنے راز ہیں ابھی تک انسان اِس مخمصے کو سلجھانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ بالکل دوسال کے بچے والی حرکت ہے جو تتلی کو سمجھنا چاہتاہے، اپنی ذات کی پرواہ کیے بغیر۔
جی چاہتاہے ابھی اور لکھوں تاکہ سپرپوزیشن والی بات تشنہ نہ رہ جائے تاکہ واقعۂ معراج کو فقط سپیشل اور جنرل تھیوری کی روشنی میں ہی نہیں بلکہ کوانٹم انٹینگلمنٹ اور سپرپوزیشن کی روشنی میں بھی ڈسکس کیاجائے۔لیکن مضمون پہلے ہی اتنا لمبا ہوگیاہے کہ سوچ رہاہوں سارا پوسٹ کروں یا آدھا؟