ڈاکٹر جاوید اقبال کا جنازہ: ایک تاریخی واقعہ۔۔۔۔ادریس آزاد
(یہ مضمون 14 مئی 2018 کو مضامین ڈاٹ کام پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ مضامین ڈاٹ کام کے شکریہ کے ساتھ یہا ں شائع کیا جا رہا ہے)
ڈاکٹرجاوید اقبال کا جنازہ جناب معین نظامی نے پڑھایا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت معین نظامی نہایت صالح انسان، درویش مسلمان اور صاحب دل، عمل و نظر ہیں لیکن بظاہر آپ کے چہرہ مبارک پر داڑھی اور مونچھیں نہیں ہیں۔ اور یوں یہ جنازہ ایک تاریخی واقعہ کی حیثیت اختیار کرجاتاہے۔ ڈاکٹرجاوید اقبال پر ہمیشہ لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ آپ اپنے والد یعنی علامہ اقبال کی اس طرح قدر نہیں کرتے جس طرح ایک بیٹے کو کرنا چاہیے۔
لیکن یہ اعتراض کرنے والوں نے ہمیشہ اس حقیقت کو نظرانداز کیا کہ جاوید اقبال نے دیار عشق میں اپنا الگ مقام پیدا کیا اور اپنے لیے نیا زمانہ اور نئے صبح شام پیدا کرکے دکھائے۔ ان کےلیے اپنا الگ مقام پیدا کرنا جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ کٹھن تھا کیونکہ والد کا نام علامہ اقبال ہے۔
پشتو کا ایک محاورہ ہے،
“اِستَر سَڑی شہ ، اِستَر سَڑی زوئے مہ شہ”
بڑے آدمی بنو! لیکن بڑے آدمی کے بیٹے نہ بننا!
اس کا مطلب یہ ہےکہ بڑے آدمی کا بیٹاہونا ایک نہایت مشکل کام ہے۔بڑے آدمی کا بیٹا اپنے باپ کے چراغ تلے خود اندھیروں میں رہ جاتاہے۔ اور باپ اقبال جیسا ہو تو ڈاکٹرجاوید اقبال کے لیے اپنی انفرادی زندگی کی ایک ایک سانس لینا بھی کتنا دشوار ہوتاہوگا اس کا اندازہ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
لیکن ڈاکٹر جاوید اقبال نے اکانوے سال کی زندگی پائی اور ہر پل سانس کی اس دشواری کا سامنا کرتے رہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسا کرنے کی نصیحت خود انہیں والد نے ہی فرمائی تھی۔ ہم اُن نصیحتوں سے صرف نظر بھی کرلیں جو اقبال نے براہِ راست جاوید اقبال کو کیں، تب بھی اقبال کی تمام تر تعلیمات کا مدعا خود یہی رہا ہے کہ “پدر پرستی” ، قبیلہ پرستی، خاندان پرستی۔۔۔۔۔ قبیح عمل ہے۔
اقبال نے تمام عمر پرستش کی اِس قسم کے خلاف جنگ لڑی۔ جسے ہم اقبالین نیشنلزم کی حتمی شکل میں بالآخر دیکھتے ہیں۔
چنانچہ جاوید اقبال کا “پدرپرستی” نہ کرنے کا یہ رویہ جس سے عام لوگ واقف ہیں اپنی ماہیت میں اقبالین افکار پر عمل پیرا ہونا ہی تھا۔ یعنی انہوں نے فی الحقیقت اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت اور پہچان بنائی اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا یہ ایک نہایت مشکل کام تھا۔ ممکن ہے وہ اقبال کے بیٹے نہ ہوتے تو شاید نہ کرپاتے۔
حضرت معین نظامی کا نمازِ جنازہ کی امامت کروانا گویا ڈاکٹرجاوید اقبال کی طرف سے مر کر بھی روایت شکنی کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔
ڈاکٹرجاوید اقبال کا جنازہ تاریخی واقعہ اس لیے ہے کہ میں اسے مسلم نشاۃِ ثانیہ کی نوید کے طور پر دیکھتاہوں۔ کیونکہ جس شخصیت کا جنازہ پڑھایا گیا وہ نہ صرف یہ کہ فرزند ِ اقبال ہے اور ایک دنیا کے لیے یہ جنازہ خود اقبال کے ہی افکار و اعمال کا تسلسل ہے بلکہ وہ خود ایک منفرد شخصیت کے طور پر اپنا بے پناہ اور بھرپور حوالہ رکھتے ہیں۔
ان دونوں حیثیتوں نے اس جنازے کو روایت شکنی کا صرف ایک معمولی واقعہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے صدیوں کا نقیب بنادیا۔
چارسوسال سے جن اندھیروں کے ہم قیدی ہیں ان میں اُمید کی ایک ایسی کرن کے طورپر اِس جنازے کے عمل کو دیکھا جاسکتاہے جو دنیا کے متحرک اور فعال ترین مذہب اسلام کی اندرونی فعالیت پر جمی صدیوں پرانی کائی کو کھرچ کر پھینکنے کا آغاز ہے۔
کہنے کو یہ کہا جاسکتاہے کہ مصر میں ہزاروں مشہور لوگوں کے جنازے بے رِیش امام پڑھاتے ہیں سو یہ جنازہ بھی کچھ منفرد نہیں اور اس لیے اسے مسلم نشاۃِ ثانیہ میں ایک بڑے کنٹریبیوشن کے طور پر دیکھنا درست نہ ہوگا۔
لیکن درحقیقت پاکستان اور مصر کا فرق ذہن میں ہو تو یہ اندازہ لگانے کے لیے کسی گہری بصیرت کی ضرورت نہیں کہ شریعت اسلامی میں عمل ِ اجتہاد کے دوبارہ سے کھولنے کی استطاعت بھی فقط پاکستان کے ہی پاس ہے۔ کبھی نہ کبھی تو ہونا تھا کہ قراردادِ مقاصد کے زیر اثر اغوا کرلیا گیا پاکستان اپنے بنیادی مِشن کی طرف واپس لوٹتا۔
حضرت معین نظامی خاندان ِ اقبال کے بہت قریبی دوست ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس فوتیدگی پر ان سے تعزیت کی جاتی لیکن اس واقعہ کی وجہ سے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
بلاشبہ ڈاکٹرجاوید اقبال اور ان کے خاندان نے یہ ثابت کردیا کہ اسلام ملا کے گھر کی لونڈی نہیں اور یوں یہ محض کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ ایک اصول ہے اور ایسا بنیادی اصول ہے جو عقل کو عمل کے راستے سے روشنی دکھاتا اور اس کی رہنمائی کرتاہے۔