میرے دادا جان مرحوم، مولانا اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ (ایک تعارف)
ایک شخص جس نے مجھے سب سے زیادہ پیاردیا، میرے دادا جان مرحوم ہیں۔ ابّا جی مارتے تھے، دادا جی بچاتے تھے۔ مجھے دیکھ کر اُن کے چہرے پر بہار آجایا کرتی تھی۔ جس دن فوت ہوئے، امی کو ایک جانب اشارے سے متوجہ کرتے ہوئے کہا، ’’میری چارپائی وہاں ڈال دو!‘‘۔ امی نے جواب دیا، ’’وہاں تو دھوپ آجائے گی‘‘۔ کہنے لگے، ’’نہیں، آج ادریس نے آنا ہے نا۔ تو جب وہ گھر میں داخل ہوگا، تو تم سب سے پہلے مَیں اُسے دیکھونگا‘‘۔ لیکن افسوس اُس ویک اینڈ پر میں گھر نہ آیا لاہور چلا گیا وہ میری راہ تکتے رہ گئے۔ مجھے لاہور پہنچ کر دادا جان کی وفات کی خبر ملی اور فوراً واپس آنا پڑا اور یوں اُس انسان کو الوداع نہ کہہ سکا جس کی محبت اور تربیت کے گہرے نقوش میری زندگی اور تقدیر پر ہیں۔
مولانا اسماعیلؒ واحد ’’مولوی‘‘ ہیں جنہیں میں نے دیکھا کہ وہ انسان کی بے پناہ قدر کرتے تھے۔ ان کے پورے عہد میں ،ہمارے شہر خوشاب میں، کبھی شیعہ سنی یا بریلوی دیوبندی فساد برپا نہ ہوا۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا زکریاؒ کے خاص شاگردوں میں سے تھے بایں ہمہ مدنی طرزِ فکر کے ’’حیاتی دیوبندی‘‘ تھےلیکن مجال ہے کہ ان کے زمانہ میں کبھی کوئی مذہبی فتنہ سماعت سے گزرا ہو۔ چاروں سلاسل کے خلیفہ تھے لیکن کبھی کسی شخص کو بیعت نہ کیا۔ خدا جانے ایسا کیوں تھا۔ کبھی معلوم نہ ہوسکا۔ میں نے خود دیکھا، ہمارے گھر عیسائی خواتین آتی تھیں اور دادا جان سے پانی دم کروا کر لے جاتی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے فقہی مسائل میں بالکل نہ الجھتے تھے۔ میری پھپھو کی شادی میں عورتیں بیٹھی گارہی تھیں تو ان کے ساتھ مل کر ماہیے پڑھنے لگ گئے۔ میں پرویز صاحب کی کتابیں پڑھتا تھا تو میرے ساتھ بڑی شفقت سے بحث کرتے۔ مقام ِ حدیث پر ہم دادا پوتے میں کتنی بحثیں ہوئیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ مجھے لاجواب کردیتے تھے۔ ایک دن فرمانے لگے، ’’حدیث بیان کرنے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہی تو دیا ہے رسول ِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو‘‘۔ میں چونکا۔ میں نے پوچھا، ’’وہ کیسے؟‘‘۔ کہنے لگے، ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’فحدِث‘‘ ، پس حدیث بیان کر!‘‘۔ میں ششدر رہ گیا۔ دادا جان نے مجھے عربی صرف و نحو پڑھائی اور مجھے اُن کا پڑھایا ہوا ایک ایک لفظ آج بھی یاد ہے۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اُنہیں ’’امام النحو‘‘ کا لقب دیا تھا جو آج بھی اُن کی لوح ِ مزار پر درج ہے۔
جب میں بہت چھوٹا تھا تو مجھے اپنے شانے پر کسی گھڑسوار کی طرح بٹھا کر بازار، اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ وہ گھر کا سامان خود خریدتے تھے۔ چھوٹی موٹی سبزی سے لے کر بچوں کو جوتے دلانے تک، سب کام۔ حالانکہ ہمارے مدرسے میں بہت سے طالب علم تھے لیکن میں نے دادا جان کو ہمیشہ خود بازار جاتے دیکھا، جب تک وہ اپنے پاؤں پر چل سکتے تھے۔
غربت میں وقت گزارنا دادا جان کا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو دادا جان بہت خوش ہوجاتے ۔ امی لڑتی تھیں۔ دادا جان ہنستے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے، ’’آج کے دن کا حساب کتاب تو ہوگیا نا۔ ایک دن کے حساب سے تو جان چھوٹی‘‘۔
کوئی معتقد کوئی اچھی چیز تحفتاً دے جاتا تو کچھ دن چھپا کر رکھے رکھتے اور پھر جب تحفہ دینے والے کو وہ چیز بھول جاتی تو بکسے سے نکال کر کسی نہ کسی طالب علم کو دے دیتے۔ آج تو مدارس کا نظام ہی کچھ اور ہے، لیکن دادا جی کے زمانے میں بڑا دیسی سا سسٹم ہوتا تھا۔ ساری کتابیں خود پڑھاتے تھے۔ ابواب الصرف سے لے کر مشکوٰۃ تک۔ سارا سارا دن پڑھاتے اور ساری ساری رات پڑھتے۔ اس پر مستزاد پانچ وقت کی امامت اور جمعہ کا خطبہ اور مہمانوں سے ملنا، طلبہ کی مکمل دیکھ بھال۔ اگر کوئی طالب علم ذرا سا بیمار ہے تو اسے خود ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا، بار بار اُسے دیکھنے کے لیے آنا غرض ان کی مصروفیت ہمیشہ ان کی مشغولیت میں حارج رہی لیکن پھر بھی وہ مزید پڑھنے اور پڑھتے رہنے کے لیے اتنا وقت نکال لیتے کہ یوں لگتا دادا جی کو کتابیں پڑھنے کے سوا کوئی کام ہی نہیں۔
دادا جان 1926 میں خوشاب آئے تھے۔ جائے پیدائش ٹانک کے نواح میں ایک بستی ’’چدھرڑ‘‘ ہے۔ مولوی اسماعیلؒ نے مڈل کا امتحان پاس کیا تو خاندان کے بزرگ جمع ہوگئے کہ دیکھو حافظ ابراہیم، بچے کے مستقبل کے لیے کیا فیصلہ کرتاہے۔ دو طرح کے ووٹ تھے۔ پٹواری بنانا ہے یا عالم ِ دین بنانا ہے۔ ووٹ برابر ہوگئے تو فیصلہ دشوار ہوگیا۔ آخر کو پرچیاں ڈالی گئیں اور تینوں بار قرعہ ’’عالم ِ دین‘‘ کے حق میں نکلا سو دادا جان کو ’’واں بھچراں‘‘ بھیج دیا گیا جہاں اس وقت اپنے عہد کے ایک بڑے عالم، مولانا حسین علیؒ تدریس فرماتے تھے۔
1926 میں جب مظاہرالعلوم سہارن پور سے فارغ التحصیل ہوکر اپنے استاذ مولانا مفتی شفیعؒ (سرگودھا والے) کی معیت میں خوشاب آئے تو اُستاد نے حکم دیا کہ آپ خوشاب میں ہی رُک جائیں۔ خوشاب شہر کے آخری سرے ۔۔۔۔۔یعنی دریائے جہلم کے عین کنارے، جسے آج بھی ’’کدھی‘‘ کہتے ہیں کو دادا جان نے آباد کیا۔ ایک چھوٹی سی مسجد جسے ’’میاں بگڑ والی مسجد‘‘ کہا جاتا تھا دادا جی کے دورِ شباب کا مقام ِ تفکر ہے۔ پاس ہی دریا تھا۔ دریا پر پتن تھا۔ پتن اُس پُل کو کہتے ہیں جو کشتیوں پر لکڑی کے پھٹے ڈال کر بنایا گیا ہو۔ پتن سے لوگ پرلے پار شاہ پور شہر جایا کرتے تھے اور آگے سرگودھا اور لاہور۔ مسجد کے آس پاس ہندوؤں اور مسلمانوں کے اکا دکا گھر تھے۔ ہندو، سِکھ، عیسائی، مسلمان، سب ہی دادا جان کے پاس اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجنے لگے اور یوں پہلے دن سے ہی رواداری مولوی اسماعیلؒ کی گھُٹی میں پڑگئی۔ تقسیم کے وقت دادا جی نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے قہر و غضب سے بچایا اور ہجرت میں مدد کی۔ اسی طرح مہاجرین کو سنبھالنے میں پیش پیش رہے۔
معروف شیعہ عالم، استاذالعلمأ ملک اعجازحسین مدظلہ جو حیات ہیں اور شروع سے ہی خوشاب میں مقیم ہیں، آج بھی مولوی اسماعیلؒ کا ذکر دوستانہ جذبے سے کرتے ہیں۔ اسی طرح بریلویوں کے ساتھ رواداری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ کسی کا جنازہ پڑھانے کے لیے ’’درباربادشاہاں‘‘ کے قبرستان گئے۔ جنازہ ختم ہوا تو مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا۔ دربار کی مسجد تو بریلویوں کی تھی جب کہ دادا جان کے ساتھ آنے والے لوگ جو فقط جنازہ پڑھنے آئے تھے سارے دیوبندی مسلک سے تھے۔ سب نے سوچا مولانا اسماعیل صاحب الگ جماعت کروائیں گے۔ یہی بات بریلوی امام مسجد نے بھی سوچ لی تھی۔ چنانچہ جب دادا جان وضو کررہے تھے، امام مسجد نے تکبیر شروع کروادی۔ دادا جان نے ایک لڑکے کو دوڑایا کہ ’’مولانا سے کہیں، ایک منٹ انتظار کرلیں تو بڑی مہربانی ہوگی‘‘۔ امام مسجد ششدر رہ گیا۔ جب مولانا اسماعیلؒ وضو کرکے بریلویوں کی مسجد میں پہلی صف کے مقتدی بننے لگے تو امام مسجد مولانا عطا رسولؒ پیچھے ہٹ آئے۔ کہنے لگے، ’’مولوی صاحب میں آپ کے جذبے کو داد دیتاہوں اور آپ کے احترام میں، امام کی جائے نماز خالی کرتاہوں۔ آپ امامت کروائیے! میں آپ کی اقتدأ میں نماز پڑھونگا!‘‘ اس واقعہ میں، میں جتنی داد اپنے دادا جان کو دیتاہوں، اُس سے زیادہ دادا مولانا عطارسولؒ کو دیتاہوں جنہوں نے بڑے پن کا جواب بڑے پن کے ساتھ دیا۔
دادا جان بے بدل عالم دین تھے۔ دُور دُور سے طلبہ آتے اور خوشاب کی کدھی والی مسجد میں قیام کرتے۔ دادا جی سے کتابیں پڑھتے اور صلح و رواداری سیکھ کر لوٹتے۔ دادا جان کے شاگردوں میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے سابق صدر ڈاکٹر ظہور احمد ازہر ، مولانا قاضی عبدالکریم مرحوم (کلاچی)، مولانا اختر(دہلی)، مولانا صادق سنگوراکوی(سرگودھا)، مفتی احمد سعید (سرگودھا) مولانا یٰسین اور دیگر بہت سے ایسے نام ہیں جو مجھے اِس وقت یاد نہیں، جنہوں نے واپس جاکر اپنے شہروں اور بستیوں میں اُسی رواداری کے ساتھ سلسلہ تدریس جاری رکھا اور پائے کے بزرگوں میں شمار ہوئے۔
مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے گھر بڑے بڑے لوگ آیا کرتے تھے۔ ایک بار مولانا مفتی محمودؒ نے مجھے گود میں بٹھا لیا تھا اور میں کافی دیر اُن کی گود میں بیٹھا رہاتھا۔ نوابزادہ نصراللہ، اشرف خان (سربراہ خاکسار تحریک)، میاں طفیل (سابق امیر جماعتِ اسلامی)، مولانا شاہ احمد نُورانی، ملک قاسم(اس وقت کی مسلم لیک کے سربراہ)، مولانا اسعد مدنیؒ اور اِسی طرح کے بعض بہت بڑے ناموں سے میں اپنے بچپن میں اپنے گھر پر ہی ملا ہوں۔
دادا جی جب 1926 میں سہارن پور (انڈیا) سے عالم بن کر لوٹے تو اس وقت وہ عالم ِ دین تو تھے لیکن حافظ ِ قران نہ تھے۔ لیکن دادا جان قرانِ پاک کی اتنی زیادہ تلاوت کیا کرتے تھے کہ ایک سال رمضان میں جن حافظ صاحب نے منزل سنانا تھی وہ اچانک بیمار پڑگئے۔ اہل ِ محلہ نے دادا جان سے کہا کہ آپ ہی تراویح پڑھا دیں، بے شک صرف آخری پارے کی سُورتیں ہی پڑھادیں۔ یہ غالباً 1948 کا واقعہ ہے۔ دادا جان نے کہا، ’’اچھا میں کوشش کرتاہوں کہ پورا قران سنا سکوں‘‘۔ محلے کے بزرگ بتایا کرتے تھے کہ اس سال مولوی اسماعیلؒ نے پورا قران تراویح میں پڑھا اور سامع نے ایک بھی غلطی پر نہ ٹوکا۔ اور پھر آئندہ ہمیشہ خود ہی تراویح میں قران سنایا کرتے تھے، وفات سے دو تین سال پہلے تک۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ مجھے زندگی میں سب سے زیادہ پیار اپنے دادا سے ملا۔ وہ میرے لیے استاد بھی تھے، دوست بھی اور دادا بھی۔ مجھے دیکھ کر کبھی کبھار رو پڑتے اور سرائیکی کا ایک جملہ بولتے، ’’جڈاں ڈندھ ہَن تاں چنے کوئی ناہن، ہُن چنے ہِن تاں ڈندھ کوئی نِن‘‘ (جب دانت تھے تو چنے نہیں تھے اب چنے ہیں تو دانت نہیں ہیں)۔ پھر بھی انہوں نے مجھے کئی کتابیں پڑھائیں۔ صرف و ںحو اور ابتدائی منطق کے علاوہ قدوری تک میں نے دادا جی سے پڑھی۔ حالانکہ میں ساتھ کے ساتھ سکول بھی جاتا تھا۔ نویں جماعت میں سائنس کا مضمون لیا تو دادا جی کے ساتھ بہت شغل لگتا تھا۔ میں اکثر انہیں سائنس کی باتیں بتاتا اور وہ متجسس ہوکر مزید پوچھتے، مزید پوچھتے اور پھر حیران ہوکر میری باتیں سنتے رہتے۔ اس قدر تجسس کا مظاہرہ کرتے کہ مجھے سائنس اور بھی زیادہ دلچسپی اور محنت کے ساتھ پڑھنا پڑجاتی تھی۔ ابا مجھے بہت ڈانٹتے تھے، بلکہ چھٹی ساتویں جماعت تک تو مارتے پیٹتے بھی رہے۔ ابا اور دادا جی کی اکثر میرے معاملے پر لڑائی ہوجاتی۔ ابا خاموش ہوجاتے اور بس مجھے دُور دُور سے ہی گھورنے پر اکتفا کرتے۔
دادا جی بی بی سی بہت سنتے تھے۔ جب تک زندہ رہے میری آنکھ ہمیشہ بی بی سی کی صبح والی خبروں کے ساز پر کھلی۔ ان دنوں بی بی سی ریڈیو پر صبح صبح سِدھو بھائی آیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی نے پوچھا، ’’سِدھو بھائی! عراق کے صدر کا نام کیا ہے؟‘‘۔ سدھو بھائی نے جواب دیا، ’’الصدر العراق‘‘۔ یہ بات مجھے آدھی کھلی آنکھوں کے ساتھ یاد ہے۔ میں اُسی وقت جاگا کرتا تھا۔ میرے لیے اپنے سرہانے تلے کھانے کی چیزیں چھپا کر رکھتے تو میری بہنیں اُن سے لڑ جاتی۔
(سوچ رہاہوں اس طرح ٹائپ کرتا گیا تو کہاں ختم ہونے والا ہے یہ قصہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )