یورپین کوئل کتنی سیانی ہے
یورپین کوئل کمال پرندہ ہے۔ اپنا گھونسلہ نہیں بناتی بلکہ اپنا انڈہ دوسرے پرندوں کے گھونسلہ میں جاکر دیتی ہے۔ چڑیاؤں، فاختاؤں، کبوتروں، اور ایسے ہی چھوٹے بڑےپرندوں کے گھونسلوں میں تاکہ اُس کے انڈے محفوظ رہیں۔
پھر کیا ہوتاہے کہ یورپین کوئل کے انڈے لازمی طور پر اُس گھونسلے میں موجود دوسرے انڈوں سے پہلے تیار ہوجاتے ہیں اور کوئل کا ننھا بچہ انڈے سے نکلتے ہی پہلا کام یہ کرتاہے کہ اپنے آس پاس رکھے دوسرے انڈوں کو دھکے مار مار کر گھونسلے سےباہر پھینک دیتا ہے۔ وہ اپنی پُشت سے انڈے کو دھکیلتاہے اور ایک ایک کرکے بقیہ سارے انڈے گھونسلے سے نیچے پھینک دیتاہے۔
یورپین کوئل کے انڈوں میں ایک عجیب و غریب خاصیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ جس گھونسلے میں دیے جائیں، اُس گھونسلے میں موجود انڈوں جیسی شکل و شباہت اور رنگت اختیار کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک کوئل نے چڑیا کے گھونسلے میں انڈہ دیاہے تو اس کا انڈہ چڑیا کے انڈوں جیسی شکل و صورت اور رنگت اختیار کرلیگا تاکہ چڑیا کو پتہ نہ چلے کہ اس کے انڈوں میں کسی نے اجنبی انڈہ شامل کردیا ہے۔ یہ نہایت عجیب و غریب فیچر ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے ریسرچر نے بے پناہ محنت کی۔ اور بالآخر کوئل کی اِس جادُو گری کا اندازہ اِس طرح لگایا گیا کہ دراصل بظاہر ایک طرح کی نظر آنے والی کوئلیں فی الواقعہ ایک دوسرے سے تھوڑی سی مختلف ہیں۔ مختلف اس طرح کہ مثلاً جو کوئلیں چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں وہ الگ ہیں اور جو کوئلیں فاختاؤں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں وہ الگ،علیٰ ھٰذالقیاس۔
سو ہوتا یہ ہےکہ جو کوئلیں چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں اُن کو جینٹک کوڈنگ کے ذریعے یہ شعور ملا ہے کہ وہ چڑیوں کے انڈوں جیسے انڈے دیں اور جو کوئلیں فاختاؤں کے انڈوں جیسے انڈے دیتی ہیں اُن کے جینٹک کوڈ میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ وہ جب بھی اور جہاں بھی انڈہ دیں تو فاختاؤں کے انڈوں جیسا انڈہ دیں۔ یہ شعور انہیں جینز کے ذریعے کیسے ملتاہے؟ ریسرچرز نے سب سے پہلے یہ نوٹ کیا کہ ہر مادہ کوئل جب جنم لیتی ہے تو وہ جس گھونسلے میں جنم لیتی ہے، جب بڑی ہوکر خود ماں بننے لگتی ہے تو اُسی قسم کے گھونسلے میں ہی انڈہ دینے کی اہل ہوتی ہے۔ اس بات کا پتہ بھی انہیں اپنے جینز کی وجہ سے چلتاہے کہ انہوں نے چڑیوں یا فاختاؤں کے گھونسلے کیسے ڈھونڈنے ہیں۔ یعنی صدیوں سے ایک کام کرتے کرتے اب ان کے جینز میں داخل ہوگیاہے کہ چڑیوں ار فاختاؤں کے گھونسلوں کو الگ الگ پہنچانیں اور ان میں جاکر انڈہ دیں۔
اس راز کا پتہ چلا تو ریسرچرز انگشت بدندان رہ گئے۔ انہوں نےسوچا کہ آخر ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ نوع تو خالصتاً ایک ہی ہو لیکن پھر بھی ان میں تقسیم کی جاسکے کہ فلاں تو چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دینے والی کوئلیں ہیں اورفُلاں فاختاؤں کے گھونسلوں میں انڈے دینے والی۔ تب مزید تحقیات پر یہ راز یوں کھلا کہ جیسے انسانوں میں نَر (میل) کے کروموسوم کو ایکس وائی کروموسوم کہتے ہیں اور مادہ کے کروموسومز کو ایکس ایکس کروموسوم کہتے ہیں یورپین کوئل میں اس کے برعکس ہے اور مادہ کوئل میں ایکس وائی کروموسوم جبکہ نَر کوئل میں ایکس ایکس کروموسوم پائےجاتے ہیں۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ وائی کروموسوم کا حامل ہونے کی بدولت ماداؤں کی نسلوں کو اپنے اجداد کے جینز سے متوارث ہدایات منتقل ہوتی ہیں جبکہ ایکس ایکس کروموسوم میں وہ ہدایات نہیں جاتیں اور یوں ایک ہی نوع اس لیے قائم رہتی ہے کہ نَر کوئل تو ہرحال میں ایکس ایکس کروموسوم والا ہونے کی وجہ سے کبھی بھی اپنے اجداد کے جینز سے وہ ہدایات نہیں لیتا جو اس کو اپنی نوع میں ایک الگ ذات کی کوئل کا نر بنادے جبکہ مادہ کوئل ایکس وائی کروموسوم کی وجہ سے الگ الگ گروہوں کی شکل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چونکہ کائنات کی کوئی شئے پرفکیٹ نہیں اس لیے مادہ کوئلوں سے کبھی کبھار غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ یعنی ایک کوئل جس نے چڑیا کے گھونسلے میں انڈہ دینا تھا وہ غلطی سے فاختہ کے گھونسلے میں انڈہ دے دیتی ہے۔ اس سے فطرت نے ایک اور مقصد پورا کرناہوتاہے۔ ان غلطیوں کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ مادہ کوئلوں کے نئے نئے گروہ تیار ہوتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت کا پتہ اس طرح چلا کہ ماداؤں کے ایک گروہ کے انڈے بہروپ دھارنے کی قدرے کم قابلیت رکھتے ہیں تو کسی اور گروہ کے انڈے قدرے زیادہ قابلیت رکھتے ہیں۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جینز پر تفکر ہوا تو معلوم ہوا کہ کچھ نئے نئےوائی کروموسوم سے ہدایات لینے کے کام پر شروع ہوئے ہیں اور کچھ بہت پرانے لگے ہوئے ہیں اور یہ سب اُن غلطیوں کی وجہ سے ممکن ہوتاہے جو بعض ماداؤں سے سرزد ہوتی ہیں۔