اقبال کے ’’تصورروحانی جمہوریت‘‘ کی تفہیم سے پہلے کچھ تیاری

جمہوریت کا پہلا اورآخری دعویٰ عوام کی حکومت کا ہے۔ مزید تشریح پوچھی جائے تو کہا جاتاہے، عوامی نمائندوں کی حکومت۔ اس کے بعد پھر تشریح پوچھی جائےتو بتایا جاتاہے کہ وہ نمائندے جنہیں عوام خود منتخب کرے۔

لیکن عوام اُن نمائندوں کو منتخب کرتےہیں جو عوام کے سامنے بطور آپشن پیش کیے جاتے ہیں نہ کہ عوام کا انتخاب آزادانہ ہوتاہے۔ یہاں سے، یعنی شروع میں ہی بنیادی اور پہلا اُصول فسخ کردیا جاتاہے۔ اب ایسی کوئی صورت کہ عوام کے سامنے بزعم خود نمائندگی کے اُمیدواروں کے آپشنز نہ ہوں اور پھر بھی وہ نمائندے منتخب کریں، کیسے ممکن ہے؟ مثلاً فرض کرتے ہیں کہ جب عوام کے سامنے نمائندگی کے اُمیدوارموجود نہ ہونگے تو عوام اپنے لیے نمائندے کیسے منتخب کرینگے؟ ہم فرض کرتے ہیں کہ ایسے عوام اپنے آس پاس موجود ممکنہ نمائندوں کے نام بتائیں گے۔ جیسے کسی گروہ سے پوچھا جائے کہ تم کس کو اپنا سردار بنانا چاہتے ہو اور اس گروہ کے تمام لوگ مختلف لوگوں کے نام بولیں۔ ایسی صورت میں کئی نام سامنے آئیں گے جوایک اُمیدوار کی حیثیت سے بطورآپشن موجود نہیں تھے۔ ایسے ناموں سے اُن ناموں کو الگ کیا جاسکتاہے جن کے حق میں زیادہ لوگ ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ریاست ایسی جمہوریت نافذ کرتی ہے تو وہاں کے بااثر لوگ ایسی جمہوریت پر بھی اثرانداز کیونکر نہ ہونگے؟ وہ ضرور لوگوں کو مجبور کرینگے کہ کس کس کا نام منتخب کریں۔ چنانچہ صورتحال لوٹ کر پھر وہی ہوجائےگی جس کے ڈر سے یہ طریقہ اختیار کرنے کا سوچا جائےگا۔ ایسی کوئی صورت کہ لوگ جس سے محبت کرتے ہوں اپنی مرضی اور آزادی سے اُس کا نام پیش کریں بظاہر ممکن نہیں ہے۔ ہرصورت میں طاقتور اپنی دھونس اور دھاندلی جما کر رکھے گا۔ لیکن فرض کریں کہ ایسی کوئی صورت ممکن ہوتی تو وہ کماحقہُ وہی جمہوریت ہوتی جسے بعض چیدہ چیدہ لوگ اقبال کا تصورجمہوریت یا رُوحانی جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں۔ کیونکہ اس کی بنیاد پر انتخاب بربنائے محبت ہوگا نہ کہ بربنائے ضرورت۔

علامہ اقبال نے جمہوریت پر جتنے بھی اعتراضات کیے وہ لفظ بلفظ صداقت تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ عام عوام سے، حکومت کرنے والے چند لوگوں کی بابت یہ سوال کیا جائے کہ آیا وہ کس کو اپنا حاکم بنانا چاہتے ہیں اور عام عوام کسی طاقتور کے اثر کے بغیر ٹھیک ٹھیک جواب دے سکیں۔ عام عوام کا جواب ہرصورت میں طاقتور کے منشأ کے تابع ہوگا۔ اقبال جمہوریت کو آزادی کی نیلم پری تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اسے شہنشاہیت اور آمریت کا ہتھکنڈہ شمار کرتے ہیں۔ لیکن اتنے شدید اعتراضات کے باوجود اقبال ’’روحانی جمہوریت‘‘ کے نام سے ایک عجیب و غریب سا تصور پیش کرتے ہیں۔ اقبال کی رُوحانی جمہوریت کی بنیاد توحید اور رسالت پر ہونے کی وجہ سے، اُس میں نمائندگی کا حقدار فقط انہیں کو سمجھا جاسکتاہے جن کے ساتھ لوگوں کو محبت ہو۔ جیسے رسالتمآب کے ساتھ اُمت کی محبت ہے تو وہ اللہ کے دربار میں ہمارے لیڈر ہیں۔ اور جیسے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لیڈر اللہ خود ہے۔ بالکل ایسے عوام کا جو لیڈر ہو، لوگوں کو اُس سے محبت ہو۔ لوگ اسے چاہتے ہوں۔ لوگ فرطِ محبت میں اس کی اطاعت کرتے ہوں۔

ایسے محبوب کی تلاش جمہوریت کے ذریعے آسان اِس لیے نہیں ہے کہ جمہوریت کی ہرصورت میں عوام کے سامنے چند آپشنز ہوتے ہیں۔ عوام پابند ہوتے ہیں کہ اُنہیں آپشنز میں سے کسی ایک کو منتخب کریں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ عوام کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ جس کو جی چاہے منتخب کرلیں۔ ایسی کوئی ترکیب قائم کرنا ناممکن تو نہیں ہے لیکن ناممکن کے قریب مشکل ہے۔ آسان ترین طریقۂ جمہوریت تو وہی ہے جو آج بھی ہرکہیں رائج ہے۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ طریقہ نہایت ناقص ہے جس کے نتیجے میں ہمیشہ ناقص اور نااہل لوگ ہی سامنے آکر حکومت بنائیں گے۔

لیکن پھر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ جو طریقہ رائج ہے وہی فی الاصل بعینہ یہی تھا جس کا ہم مطالبہ کررہے ہیں۔ یعنی لوگ کسی کو اپنی مرضی سے چُن سکتے تھے۔ بس اِس بات کا علم لوگوں کو نہیں تھا۔ لوگ سمجھتے رہے کہ الیکشن تو فقط الیکشن والے دن ہوتاہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں تھی۔ سب سے پہلے تو لوگوں سے اس وقت پوچھا گیا تھا جب کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے گئے تھے۔ اُس وقت آس پاس کے لوگوں نے ہی اپنا اُمیدوار نامزد کیا تھا۔ اور تب اپنا اُمیدوار نامزد کرتے وقت وہ پوری طرح آزاد تھے۔ اُن کے سامنے تمام آپشنز کھلے تھے۔ اس وقت وہ اپنی محبت کی بنا پر اپنا اُمیدوار نامزد کرسکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔ بلکہ کسی اور سے نفرت کی بنا پر اپنا اُمیدوار منتخب کیا۔ حالانکہ سوال یہ تھا ہی نہیں کہ آپ کو کس سے نفرت ہے؟ سوال یہ تھا کہ آپ کو کس سے محبت ہے۔

اقبال کے تصورِ روحانی جمہوریت کی اساس ’’قائد کی محبت‘‘ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا تصورِ روحانی جمہوریت پوری طرح رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر استوارہے۔ یعنی آپ کا قائد آپ کی ضرورت نہ ہو بلکہ آپ کی محبت ہو۔ایسا قائد کہاں سے ملےگاجس سے آپ کو محبت ہو۔ایسا قائد ہربستی کا اپنا ہوگا۔ پھر وہ سب قائدین مل کر ایسے قائد ِ اعلیٰ کو ذمہ داری سونپیں گے جس سے اُنہیں محبت ہوگی۔ تب تمام قائدینِ اعلیٰ ایسے قائدِ اعظم کو ذمہ داری سونپیں گے جن سے اُنہیں محبت ہوگی۔ چنانچہ یہ قائد وہی نمائندہ ہوگا جسے آپ اپنی بستی میں اپنی محبت کی وجہ سے چُنیں گے۔ عین ممکن ہے کہ وہ آپ کی محبت کے باوجود سامنے آنے سے انکار کردے۔ حضرت علی کرّم اللہ وجہُ کا ایک قول ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ وہ شخص جو اپنے آپ کو خود سرداری کے لیے پیش کرے، وہ اچھا یا مخلص سردار نہیں ہوسکتا۔ سو ہوسکتاہے کہ آپ کا قائد سامنے آنے سے انکار کردے۔ لیکن اگر اُمیدوار کا چناؤ محبت کی بجائے ضرورت کی بنا پر ہوگا تو ایک نہیں کئی طاقتورلوگ خود بخود سامنے آجائیں گے اوردعویٰ کریں گے کہ وہ سرداری کرنے کے اہل ہیں۔ جب اُمیدوار کا انتخاب ضرورت کی بنا پر ہوگا تو ہروہ شخص اُمیدوار بن جائےگا جس کے ساتھ آپ کی ضروریات اور مجبوریاں پھنسی ہوئی ہیں۔

الغرض جو اہم ترین نکتہ ہے وہ یہ ہے،

لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے حکومت اور لوگوں کے لیے حکومت تب ہی ممکن ہے جب لوگ خود فیصلہ کرنے والے ہوں کہ کس کو لیڈر بنانا ہے۔ نہ کہ لوگوں کے سامنے بعض اِداروں، جماعتوں یا تنظیموں کے محدود ہرکارے ہوں اور لوگوں کو اُنہی میں سے انتخاب کرنا ہو۔ یہ تو یوں ہوا کہ گویا ہم نے اپنے نمائندے منتخب نہیں کیے بلکہ ہمیں گھڑے گھڑائے، بنے بنائے ہرکارے دِکھا کر کہا گیا کہ یہ ہیں آپ کے لیے ممکنہ نمائندے اور اب اِنہی میں سے چُنیے اپنے حکمران۔ یہ کوئی جمہوریت نہیں۔ یہ فقط دھوکا اور بیچارے سادہ اور معصوم شہری کے خلاف طاقتور کی سازش ہے۔

لیکن لوگوں کو ایسا شخص کہاں ملے گاجس سے اُنہیں محبت ہو؟ ایسا شخص تلاش کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ حکومت کو حکمرانی کی بجائے ’’خدمت‘‘ میں بدل دو!۔ ایسی حکومت جس میں منتخب ہونے والوں کو لوگوں کی صحیح معنوں میں خدمت کرنی پڑے، کسی طاقتور کی خواہش نہیں ہوسکتی۔ ہرطاقتور خود مخدوم بننا چاہتاہے۔ وہ اپنے سے کم تر اور غریب لوگوں کو اپنا مخدوم نہیں بناسکتا۔ وہ عام لوگوں کی خدمت کرنے میں عار محسوس کرتاہے۔ اگر کسی طرح حکومت کو خدمتِ محض میں بدل دیا جائے تو خود بخود صرف وہی لوگ حکمران بنا کریں گے جنہیں خدمت کی عادت ہے اور اسی عادت کی وجہ سے اُن کی طبیعتوں میں عاجزی ہے اور اُنہی سے لوگوں کو محبت بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن کیا حکومت کو حکمرانی کی بجائے فقط خدمت تک محدود کیا جاسکتاہے؟ اس مطالعہ پر مشتمل مضمون ابھی باقی ہے۔

ادریس آزاد
۲۸ جولائی ۲۰۱۹

۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: ’’اقبال کے تصورِ روحانی جمہوریت‘‘ پر یہ تحریر ابھی جاری ہے