Haji Ismail (member) Rest in Peace
حاجی اسماعیلؒ، آخری صدی کے لوگ
۔۔۔۔
کل حاجی اسماعیل ممبر، خوشاب میں وفات پاگئے۔ حکومت نے کہا اُنہیں ’’کورونا‘‘ تھا اور اُن کی وفات کورونا سے ہوئی، اِس لیے اُنہیں کورونا کے پروٹوکول کے ساتھ دفنایا گیا۔ لیکن میرا دِل گواہی دیتا ہے کہ اُنہیں کورونا نہیں تھا اوراُن کے ساتھ حکومت نے صریحاً زیادتی کی ہے۔ آپ چاہیں تو حاجی اسماعیل کو میرے ماموں یا چچا کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہمارے ’’خونی رشتہ دار‘‘ نہیں تھے بلکہ حقیقی رشتہ دار تھے۔ میں جس محلے میں پیدا ہوا اور جہاں میں نے اپنا بچپن اور جوانی گزاری، اُس محلے کے بزرگوں میں حاجی اسماعیل سب سے نمایاں نام تھے۔ وہ اتنی بار بلدیہ کے الیکشن جیتے کہ بالآخر اُن کا نام ہی ’’اسماعیل ممبر‘‘ پڑگیا۔ خوش مزاج، خوش خِصال، ہنس مُکھ، صاف سُتھرے، پانچ وقت کے نمازی، باقاعدگی کے ساتھ تلاوت کے عادی، چھوٹوں کےساتھ شفقت، بڑوں کے ساتھ احترام، غریبوں کے ہمدرد، بیواؤں کی خفیہ مدد کرنے والے، دیانتدار، محنتی، متحرک اورنہایت نیک طینت انسان تھے۔
کچھ دن پہلے خبر آئی کہ حاجی اسماعیل کو سانس کی تکلیف کی وجہ سے خوشاب کے کسی ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں کے ڈاکٹروں نے کورونا وائرس کے شک میں اُنہیں لاہور بھیج دیا۔ لاہور میں حاجی اسماعیل کا منجھلا بیٹا ڈاکٹرعقیل ہوتا ہے۔ ڈاکٹرعقیل میرا براہِ شاگرد بھی ہے۔ نائنتھ اور ٹینتھ کی سائنس کے مضامین، انگلش اور پھر ایف ایس سی میں ڈاکٹر بننے کی تیاریوں کے زمانے تک، عقیل مجھ سے براہِ راست وقتاً فوقتاً ٹیوشن ٹائپ وقت لیتا رہا ہے۔عقیل بے پناہ ذہین اور لائق تھا اس لیے خوشاب کی تاریخ کے ریکارڈ توڑ نمبروں کےساتھ میٹرک اور پھر ایف ایس سی کرنے کے بعد وہ ڈاکٹربننے چلا گیا۔ عقیل اب ہارٹ سپیشلسٹ ہے اور لاہور کے ہی کسی بڑے ہسپتال میں سرکاری ڈاکٹر ہے۔ چنانچہ حاجی صاحب کو جب ڈاکٹروں نے لاہور روانہ کیا تو وہاں عقیل اپنے والد کی خدمت اور علاج کے لیے پہلے سے موجودتھا۔
حاجی اسماعیل کو تو لاہور بھیج دیا گیا لیکن پیچھے اُن کے خاندان پر گویا وقت بھاری پڑگیا۔ حکومت نے خوشاب میں ہمارے پورے محلے کو کوارنٹین کردیا۔ میرے والدین اور بھائی بھابھیاں ، اب بھی اسی محلے میں ہمارے آبائی گھر کے اندر گویا مکمل طورقید کاٹ کررہے ہیں۔ حاجی صاحب کی فیملی کو قرنطنیہ میں مکمل آئیسولیشن کے ساتھ رکھنے اور آس پاس کے علاقے میں پوری احتیاط کرنے کے معاملے میں ضلعی حکومت نے جو چابکدستی دکھائی اس کا جواب نہیں۔ اب تک بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور مسلسل ایک ایک شخص کا کورونا ٹیسٹ کیا جارہاہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔
خیر! حاجی صاحب پرسوں رات اپنے گھروالوں سے ٹھیک ٹھاک باتیں کرتے رہے۔ڈاکٹرعقیل چونکہ ہارٹ سپیشلسٹ ہیں اورمتعدی امراض کے ڈاکٹر نہیں ہے اس لیے، سنی سنائی خبر یہ ہے کہ ڈاکٹرعقیل کو ان کے والد کی نرسنگ کی اجازت نہ مل سکی۔ بہرحال ابھی تو عقیل صدمے میں ہے، جونہی وہ کچھ سنبھلتا ہے، میں خود عقیل سے بات کرونگا۔ کیونکہ میں نے ابھی تک عقیل کو تعزیت کی کال نہیں کی اور نہ ہی مجھ میں ہمّت ہے۔ بہرحال سنی سنائی کے مطابق پرسوں رات توحاجی اسماعیل صاحب نے گھروالوں سے فون پر بات کی اور پھر کل صبح ڈاکٹرعقیل کو کال موصول ہوئی کہ آپ کے والد کی وفات ہوگئی ہے۔ کورونا وائرس سے وفات پانے والوں میں ایک اور اضافے کی خبر نشر ہوئی اور ضلعی حکومت نے اعلان کردیا کہ حاجی صاحب کی تدفین کورونا وائرس کے پروٹوکول کے تحت ہوگی۔ یعنی جنازے میں لوگوں کو شریک ہونے سے منع کردیا گیا۔ اُنہیں ایک باکس میں لایا گیا اور بہت مختصر سی تعداد میں لوگوں نے حاجی صاحب کا جنازہ پڑھا اور پھر انہیں خاموشی کے ساتھ سپردِ خاک کردیا گیا۔ حاجی صاحب کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں بلند مقامات عطافرمائے۔ آپ کو جس سادگی سے دفنایا گیا، آپ کی زندگی بھی ایسی ہی سادگی میں گزری تھی۔
دودھ کی طرح دھلی سفید قمیص اورسفید شلوار میں ملبوس، گورے رنگ کے یہ دھان پان سے بزرگ ہمارے پورے علاقے کی شان تھے۔ اُن کی عمر میرے اندازے کے مطابق سترسال کے قریب ہوگی۔ وہ ایک اچھے خاندان کے نہایت سلجھے ہوئے اور نستعلیق انسان تھے۔ حاجی صاحب، ہلکے پھلکے جسم میں ایک بھاری بھرکم کردار تھے۔ان کی پوری زندگی ایک سبق کی تلقین ہے کہ انسان ہاتھ پیر آلودہ کیے بغیر بھی سیاست میں رہ سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ الیکشن لڑتے تھے اور ہمیشہ ہی جیت جاتے تھے لیکن بلدیہ کے خزانو ں پراُنہوں نے کبھی بھی بُری نظرنہ ڈالی تھی۔لوگوں کے کام آتے، اُن کے ساتھ پیدل چلےجاتے، دور دور تک، اورایسے علاقوں میں، جہاں اُن کا کوئی ووٹر نہ ہوتا، خود جاکر لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کام کرواتے اور کبھی بھی انہوں نے حرام کے پیسے کی طرف نظراُٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔
میرے مرحوم جگری دوست محمد خان خنیال کے سگے ماموں تھے، اس لیے میں بھی حاجی صاحب کو ماموں اسماعیل ہی کہا کرتا تھا۔ میری ان کے ساتھ کچھ خاص محفل نہیں تھی، بس راہ چلتے کی سلام دعا ہی تھی لیکن میں نے ہمیشہ ان کی نظروں میں اپنے لیے محبت کے جذبات ہی محسوس کیے۔
سانس کی تکلیف تو اُنہیں گزشتہ کچھ سالوں سے تھی اور کبھی کبھار بڑھ بھی جاتی تھی۔ وہ عام طورپر ڈاکٹر کے پاس آتے جاتے رہتے تھے۔ لیکن بُرا ہو اِس کورونا کا، اس بار جب وہ سانس کی تکلیف کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس گئےتو ڈاکٹروں نے بغیر ٹیسٹ کیے اُنہیں کورونا کا مشکوک مریض بنا کرآگے روانہ کردیا۔ لاہور میں البتہ ان کا کورونا پازیٹِو یعنی کنفرم کا رزلٹ آگیا، لیکن حیرت تو اس بات کی ہے کہ ان کے گھروالوں میں سب کے ٹیسٹ کلیئر آگئے۔ کسی کو بھی کورونا نہیں ہے۔ پھر آخری رات وہ باتیں بھی ٹھیک ٹھاک کررہے تھے۔ وینٹیلیٹر میں ہوتے تو کیسے کہتے گھروالوں سے کہ ’’ میں اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں‘‘؟ پھر نہ تو کوئی بخار تھا اُنہیں اور نہ ہی کورونا کی دیگر علامات۔ بس یہی سمجھ نہیں آرہی کہ ایک تو کورونا پازیٹوکیوں آیا اُن کا، جبکہ پورے محلے میں ابھی تک دوسرا کیس نہیں نکلا۔ اور دوسری یہ با ت کہ آخری رات ٹھیک ٹھاک گفتگوکرنے کے بعد اگلی صبح وہ کورونا سے کیسے وفات پاگئے؟ لیکن چونکہ میں میڈیکل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اس لیے میں صرف اپنے اشکال کا ہی اظہارکرسکتاہوں۔ حتمی رائے تو ظاہر ہے ڈاکٹرعقیل کی ہی ہوگی۔ بس منتظر ہوں کہ وہ سنبھل لے تو کال کرونگا۔
حاجی اسماعیل ؒ جیسے لوگ، آخری صدی کے لوگ ہیں۔ میں بیسویں صدی کو آخری صدی کہا کرتاہو ں کیونکہ اکیسوی صدی تو ورچول ہے یعنی حقیقی نہیں ہے۔ کچھ ہی اور عرصہ، موبائل اور انٹرنیٹ کا یہی حال رہا تو لوگ اپنے آپ کوپہچاننا بھی بھول جائیں گے۔ حاجی اسماعیل ان چیزوں سے دُور تھے۔ زیادہ سے زیادہ موبائل تھا اُن کے پاس اور نمازروزہ، تلاوت تراویح یا لوگوں کی خدمت ہی ان کا سارا رہن سہن تھا۔ بس اب آخری صدی کے لوگ بھی مرتے جارہے ہیں۔ اور اس کورونا نے تو زیادہ تر آخری صدی کے لوگوں کو ہی چُن چُن کر نشانہ بنانا شروع کررکھا ہے۔ خدا جانے یہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔اللہ تعالیٰ حاجی صاحب کو جنت الفردوس میں اپنے پاس، اپنی خاص محبت اور رحمت کے سائے میں جگہ دے۔ آمین۔
ادریس آزاد