امکانات کے شمار کی صلاحیت یا صاحبِ تکوینیات۔۔۔۔۔ادریس آزاد
امکانات کے شمار کی صلاحیت یا صاحبِ تکوینیات۔۔۔۔۔ادریس آزاد
19 اپریل 2020
لفظ "کُن” ، کائنتات، تکوین ، تکوینیات، کون (و مکاں) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ ایک ہی مادے سے برآمد ہوتے ہیں۔ روایتی تصوف میں ایک اصطلاح ہے، "صاحبِ تکوینیات”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ایسا سالک جس کو اشیأ کی حالت میں تبدیلی لانے پر قدرت حاصل ہو۔ روایتی تصوف میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ صاحبان ِ تکوینیات کو تکوینیات میں دخل ہے۔ یعنی وہ چاہیں تو بارش ان کے حکم پر برسے، چاہیں تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ فلمی اداکار جب نئے نئے فلموں میں آتے ہیں تو ان کے چہرے اور شخصیت عامیانہ سے ہوتے ہیں، لیکن کئی سال بعد وہ بالکل ویسے ہوجاتے ہیں جیسا کہ لوگ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ وقت نے نہیں، ناظرین کی چاہت نے اُن کی شخصیت کو تبدیل کردیا۔
یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے۔ امکانات کی دنیا کو ہم شطرنج کی مثال سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ شطرنج کھیلنے والے جانتے ہیں کہ ہر چال کے سامنے کتنے امکانات ہوتے ہیں۔ شطرنج ہمیشہ وہی جیتتا ہے جو اُن امکانات کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنے حیطۂ ادراک میں ترتیب دینے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ اِسی طرح ہرہر انسانی عمل کے سامنے امکانات کا لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے۔ جدید فزکس میں اِسے پراببلٹی لائنز یا ٹائم لائنز کہا جاتاہے۔ کسی عمل کے وقت، کوئی انسان اپنے سامنے موجود امکانات کی جس قدر زیادہ گنتی کرلیتا ہے وہ دنیا کی شطرنج میں اُسی قدر زیادہ جیتتا ہے۔
امکانات کے شمار کی صلاحیت ہی کسی انسان کو خاص بناتی ہے۔ خاص الخاص۔ پیش گوئی کی صلاحیت دوسرے الفاظ میں امکانات کے شمار کی صلاحیت ہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ امکانات کی موجودگی میں جس امکان پر صاحبِ عمل راضی ہوتا ہے وہ مشہود ہوجاتا ہے۔ یہ عمل چونکہ بتدریج ہوتا ہے اور اُن لمحات کا دورانیہ چونکہ نہایت مختصر ہوتا ہے جو ہزاروں میں سے ایک امکان کے چناؤ کے لیے دستیاب ہوتے ہیں فلہٰذا ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوپاتا کہ ہم نے کب ایک جہان سے دوسرے جہان کا سفر کرلیا۔
ہزاروں، لاکھوں امکانات میں سے ہر ایک، ایک نئے جہان کا دروازہ ہے۔ جس قدر امکانات ہیں، اُسی قدر نئے نئے جہان ہیں۔ جب کوئی انسان کسی ایک امکان کا چناؤ کررہا ہوتا ہے تو وہ وقت کو روک لیتا ہے۔ وقت کے رکنے کی یہ تبدیلی نہ اُسے محسوس ہوتی ہے اور نہ دوسروں کو ہوسکتی ہے کہ وہ اُس کا اپنا جہان ہے، دوسرے محض کٹھ پتلیاں ہیں۔ تب وہ وقت کو روک کر اپنی استعداد کے مطابق زیادہ سے زیادہ امکانات کے ساتھ شعوری یا فوق الشعوری سفر کرتا ہے، جو عام سفر کی طرح زمان و مکاں میں سفر ہے۔ ہر ہر امکان کے ساتھ کچھ آگے تک سفر کرکے وہ بار بار واپس لوٹتا ہے اور بالآخر کسی ایک امکان کا چناؤ کرتا ہے۔ تب تک وقت رُکا رہتا ہے۔ جونہی وہ چناؤ کرکے عمل شروع کرتا ہے، وقت پھر سے چل پڑتا ہے۔اگر وہ اُس امکان کا چناؤ نہ کرتا جس کا کہ اُس نے کیا، بلکہ کسی اور امکان کا چناؤ کرتا تو وہ اُسی امکان سے پیدا ہونے والے نئے جہان میں چلا جاتا۔
یہ دنیا ہم نے خود بنائی ہے۔ہم اپنی مرضی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی سے مرتے ہین۔ہم اپنی مرضی سے دُکھ درد حتیٰ کہ بیماریوں کا چناؤ کرتے ہیں۔ہم اپنی مرضی سے اپنے دوستوں اور دشمنوں کی شکلیں تخلیق کرتے ہیں۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے شہر جیسے ہوجاتے ہیں، یہ ہم خود کرتے ہیں۔عالم ِ مشہودات میں موجود ہرچیز حتیٰ کہ دوسرے لوگ بھی ہماری اپنی تخلیق ہیں۔ ہم نہ ہی معروض میں موجود کوئی عارض ِ فطرت ہیں اور نہ ہی کسی موضوع میں موجود کوئی تصور۔ ہم سوچتے ہیں، اس لیے ہم نہیں ہیں بلکہ ہم "کرتے” ہیں اس لیے ہم ہیں۔ جسے انسان کہتے ہیں، اس کا دوسرا نام اختیار ہے۔
ہوتا ایسا ہی ہے، لیکن ایسا ہوتا ہے، اس کے علم الیقین سے حق الیقین زیادہ قرین امکان ہے۔چونکہ ایسا ہوتا ہے، یہ جان لینا خطرناک ہے اس لیے فطرت اِسے آسانی کے ساتھ جاننے نہیں دیتی اور تیقن ِ انسانی میں بوقتِ ضرورت نقب لگاتی رہتی ہے۔لیکن اگر کوئی شعور فطرت کو مات دینے میں کامیاب ہوتا اور یہ جان لیتا ہے کہ وہ جو چاہے ویسا ہوجاتا ہے تو وہ جس ذہنی حالت میں پہنچ جاتا ہے اُسے اصطلاحاً یقین کہا جاتا ہے۔جس کے بعد سے وہ نئے نئے جہان اپنی مرضی سے تخلیق کرنے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قادر ہوجاتاہے۔
کھینچ لاتی ہے سمندر سے جزیرے سرِآب
جب مری آنکھ کو منظر کی تمنّا ہوجائے
ادریس آزاد