ابھی تک انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔۔۔ادریس آزاد
ابھی تک انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔۔۔ادریس آزاد
10 مارچ 2020
سچ تو یہ ہے کہ ابھی تک انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ میں استعارۃً نہیں کہہ رہا بلکہ معنوی طور پر میری مراد ہی یہی ہے۔ یعنی مُصلّیوں، چُوڑھوں، بستی والوں، موروں، کیہَلوں، پکھی واسوں، مسلم شیخوں، فقیروں، فٹ پاتھ پر سونے والوں، شہرکےمضافات میں چھولداریوں تلے سونے والوں، کے قبائل پاکستان میں بھی ان گنت ہیں۔ یہ قبائل دنیا کے ہرملک میں ایسی آبادیاں بلکہ مورثوں کے کُنڈ یعنی جِین پول ہیں، جنہیں ابھی تک اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔
ہم اعلیٰ انسانی اقدار کے مبلغ ہوسکتے ہیں۔ ہم بنیادی انسانی حقوق کے رکھوالے بھی ہوسکتے ہیں۔ ہم ایسے پسے ہوئے طبقات کی حقیقی آزادی کے لیے عملاً لڑتے بھی ہونگے، قربانیاں بھی دیتے ہونگے۔ لیکن یقین جانیے! ہم اُن کو اپنے جیسا انسان نہیں مانتے۔ ہم ان کے بچوں کے ساتھ اپنے بچوں کا کھیلنا گوارہ نہیں کرسکتے۔ اگرسکول میں ایک چُوڑھے یا مصلّی کا بچہ پڑھتاہو تو ہم اپنے بچے کو اس کی صحبت سے منع کرتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ کھانا نہیں کھاسکتے۔ ہم ان کے استعمال کیے ہوئے برتن کو استعمال نہیں کرسکتے۔ وہ ہمیں ملنے آئیں تو زمین پر بیٹھتے ہیں، ہم انہیں کرسی پر بیٹھنے کا نہیں کہہ سکتے۔ وہ صرف غریب نہیں ہیں۔ وہ کالے ہیں؛ وہ میلے ہیں؛ وہ بہت زیادہ دُبلے ہیں؛ ان کی آنکھوں میں پیلاہٹ ہے؛ ان کے بالوں میں کنگھی نہیں ہے؛ ان کی پینٹ یا دھوتی پھٹی ہوئی اور میلی کچیلیی ہے؛ ہم ان کی عادات اور رسوم کو دِل سے برا جانتے ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر اُنہیں بولنا نہیں آتا۔ وہ اُجڈ ہیں، جاہل ہیں، ان پڑھ ہیں۔ الغرض وہ ہرلحاظ سے حقیر ہیں۔ سترسال میں شاید کسی ایک بھی شہری نے اپنے بچوں کا رشتہ ان گھٹیا ’’نا انسانوں‘‘ سے نہ کیا ہو۔
نظریۂ ارتقأ کے قوانین کی رُو سے دیکھا جائے تو بحیثیتِ مجموعی ان کے جینز بالکل یونہی ڈھل چکے ہیں جیسے کہ وہ اب ہیں۔ ان میں کوئی ایکسٹرا ذہین، غیرمعمولی طور پر پڑھا لکھا، اعلیٰ مہارتوں کا حامل، غیر معمولی انسان یا یوں کہا جائے کہ کوئی نابغہ پیدا ہوجانا ناممکن کے قریب بعید ہے۔
یہ قبائل معاشرے کے لیے عموماً بے ضرر بلکہ کسی حد تک مفید بھی ہوتے ہیں۔ آج تک کوئی ایسا واقعہ نوٹ نہیں کیا گیا جس کے مطابق ان اقوام نے کوئی انقلابی تحریک اُٹھانے کی کوشش کی ہو۔ یہ صدیوں سے اسی حال میں جیتے آرہے ہیں۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان میں سے ہیرو یا قائد بن سکتاہے۔ اس لیے ان کے حق میں کبھی کوئی انقلاب ممکن بھی کیسے ہوسکتاہے؟
جب تک ہم اپنے آس پاس جیتے جاگتے، دو ٹانگوں پر چلنے والے، ہماری طرح باتیں کرنے والے انسانوں کو اپنے جیسا درجہ دینے کے اہل نہیں ہیں منطقی اعتبار سے ہم خود بھی انسان کہلانے کے حقدار نہیں۔ باقی رہی بات کہ ہم حقوقِ انسانی کے علمبردار ہیں اور ہم نے یہ این جی او بنائی ہوئی ہے اور وہ جلوس نکالا ہوا ہے تو سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے فقط اپنی ہی نسل کے لیے کررکھا ہے۔ وہ ’’ناانسان‘‘ جو ابھی ارتقا کے درجے میں کتوں، بلّوں اور بندروں کے درجے پر ہیں، ان کے لیے کسی تحریک کا خیال بھی ذہن میں لانا ہمارے لیے ناممکن ہے۔
کسی شاعر نے کہا تھا،
کلفاں والے شملے سوچی پئے گئے نیں
اوکھیاں گلاں کر گیا پُت مصلّیاں دا
لیکن میرے بھائی! مصلیاں دے پُت اوکھیاں گلاں کرتے ہوتے تو اب تک ہم ان انسانی قبائل کو یوں ارذل المخلوقات کے طور پر نہ دیکھ رہے ہوتے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے ہمارا شدید مذہبی ہونا بھی ہماری کبھی مدد نہیں کرسکا۔ یہ وہ مسئلہ ہے جسے ہم اپنے ماحول کا حصہ سمجھتے ہیں۔ جسے ہم عین فطری اور سماجی حقیقت سمجھتے ہیں۔ وہ ہمیں روز کہیں نہ کہیں دکھائی دے جاتے ہیں لیکن ہمارے لیے ان کے پاس سے گزرنا ایسا معمول کا کام ہے جیسے کسی بھی کھمبے کے پاس سے گزرجانا۔
ادریس آزاد