پرویز ہود بھائی، ماہرِ فزکس یا ڈاکنزم کے پرچارک – ادریس آزاد
پرویز ہود بھائی، ماہرِ فزکس یا ڈاکنزم کے پرچارک – ادریس آزاد
15 مئی 2017 (یہ مضمون "دلیل ” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ دلیل کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)
گزشتہ برس میں نے پرویز ہود بھائی کا ایک انٹرویو پڑھا جو انگریزی میں شائع ہوا تھا۔ انٹرویو کے بعض مقامات پر مجھے حیرت کے جھٹکے لگے۔ شاک اتنا زیادہ تھا کہ اُسی وقت اُس مضمون کو ترجمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جھٹکے اگرچہ بہت سے تھے، لیکن اُن میں تین ایسے تھےجنہوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر پرویز ہود بھائی کیوں کر فزکس کے بجائے مذہب، بالخصوص اسلام کو ہمیشہ ہدف بناتے آئے ہیں۔
پہلا جھٹکا یہ جان کر لگا کہ ہود بھائی ایک اسماعیلی گھرانے میں پیدا ہوئے اور بقول اُن کے، وہ بچپن میں ہی مسلمان تو ہوگئے لیکن پندرہ سال کی عمر تک برنارڈ شا اور برٹرینڈ رسل کو پڑھنے کے بعد وہ مذہب بیزارہوگئے۔ انہوں نے اپنے مذہب کے بارے جو کچھ بتایا، وہ خاصا تفصیلی ہے، اس لیے میں پورے انٹرویو کا لنک مضمون کے آخر میں پیش کر رہا ہوں جبکہ یہاں فقط چند سطور پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ انٹرویو کا آغاز انہوں نے اِن جملوں سے کیا،
’’میں ایک اسماعیلی فیملی میں پیدا ہوا۔ میرے نانا حیدرآباد کے نواح میں ایک جگہ سے تعلق رکھتے تھے، جسے اب سلطان آباد کہا جاتا ہے۔ وہ (پرنس کریم) آغا خان کے ساتھ بہت مخلص تھے۔ گاؤں میں اُن کے پاس خاصی زیادہ زمین تھی۔ انہوں نے وہ ساری زمین ’’آغاخان‘‘ کو ڈونیٹ کردی اور اس طرح خود ’’وارث‘‘ بن گئے۔ میرے دادا بھی بہت زیادہ مذہبی آدمی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں اسماعلیوں کا پہلا ’’جماعت خانہ‘‘ میرے دادا نے اپنی ذاتی رقم سے بنوایا تھا، جس کے نتیجے میں ’’سلطان محمودشاہ‘‘ نے انہیں، ’’مُکھی‘‘ (سردار) کا لقب دیا‘‘
پھر انٹرویو کے مذہب والے حصے کا اختتام اِن جملوں سے کیا،
’’ اس طرح میں اسماعیلیت سے ’’پراپر اسلام‘‘ کی طرف آیا اور میں نے مسجد میں جانا شروع کر دیا۔ چودہ سال کی عمر تک میں اسلامی تعلیمات میں مکمل شامل رہا۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے، میں نے ’’برناڈ شا‘‘ کے ڈرامے پڑھنے شروع کر دیے اور پھر بعد میں ’’برٹرینڈ رسل‘‘ کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعہ نے مجھے چاروں خانے چت،گرا دیا۔ اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ میں ہار گیا۔ میں ’’تمام اچھی چیزوں‘‘ سے ہار گیا.‘‘
قابلِ غور حصہ یہ ہے کہ ایک اسماعیلی بچہ جو بارہ سال کی عمر میں اسماعیلی مذہب سے دلبرداشتہ ہوا، پندرہ سال کی عمر میں برٹرینڈ رسل جیسے نامور ملحد کو پڑھنے کے بعد اسلام سے بھی دور ہوگیا، وہ اتنے سے عرصے میں کتنا سارا اسلام پڑھ پایا ہوگا؟
اب چونکہ اسماعیلی مذہب ایک بالکل الگ مذہب ہے۔ ان کی عبادت، ان کے عقائد، ان کے تہوار سب کچھ مسلمانوں سے مختلف ہیں، یہاں تک کہ پاکستانی ریاست بھی انہیں غیر مسلم ہی سمجھتی ہے، اور ہمیشہ اسماعیلی برادری کہہ کر پکارتی ہے، سو ہر جاننے والا یہ جانتا ہے کہ وہ اچھے اخلاق کے لوگ ہیں۔ تاجر ہیں۔ اسلام کے خلاف کسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ نہ ہی پاکستان کے مخالف ہیں، لیکن یہ طے ہے کہ وہ بالکل الگ مذہب ہیں۔ سو ایک ایسا شخص جو کسی دوسرے مذہب سے تیرہ چودہ سال کی عمر میں اسلام کی طرف آیا ہو اور پندرہ سال کی عمر میں’’لائف آفٹر ڈیتھ کو نان سینس‘‘ کہنے والے معروف ملحد بلکہ بابائے الحاد جدید یعنی برٹرینڈ رسل کو پڑھنے کے بعد، پندرہ ہی سال کی عمر میں اسلام سے بھی دور ہو گیا ہو، وہ اسلامی تعلیمات، قرآن، حدیث، فقہ، اسلامی فلسفہ، نماز، روزہ، حج زکوۃ، اسلامی اخلاقیات اور سیرتِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے واقف ہو سکتا ہے؟ پرویز ہودبھائی کے اپنے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلامی شعائر، عقائد اور اخلاقیات سے آج تک کماحقہُ واقفیت حاصل کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
یہ وہ پہلا دھچکا تھا جو مجھے انٹرویو پڑھتے ہوئے لگا اور مجھے اندازہ ہوا کہ پرویز ہود بھائی آخر کیوں اسلام کے اس قدر مخالف ہیں۔
دوسرا جھٹکا مجھے اُس وقت لگا جب پرویز ہود بھائی نے تفصیل سے بتایا کہ انہیں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں نوکری کس طرح ملی۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی وہ امریکہ میں ہی مقیم تھے جب انھیں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں بطور پروفیسر تعینات کردیا گیا، اور وہیں انھیں اپوائنٹمنٹ لیٹر بھی بھیج دیا گیا۔ ایسا پہلے کبھی نہ سنا تھا سو میں چونکا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ وہ لیٹر اُن سے گم ہوگیا تھا اور وہ یونیورسٹی بغیر لیٹر کے پہنچ گئے تو وہاں ان کی بات کا کسی نے یقین ہی نہ کیا۔ بڑی مشکل سے یقین دلایا گیا کہ جی ہاں حکومت نے ہی تقرری کی ہے۔ اس پر اس وقت کی وائس چانسلر کنیز یوسف نے ان سے کہا،
’’ویلکم ٹُو یونیورسٹی! میں نے سُنا ہے کہ تم لیفٹسٹ ہو۔ یہاں ’’جماعت‘‘ (اسلامی جمعیت طلبہ) کی وجہ سے ہمیں مسائل ہیں۔ ہو سکتا ہے تم ہماری کچھ مدد کرسکو‘‘۔
پھر انہوں نے تھوڑی دیر توقف کے بعد دوبارہ کہا،
’’میں چاہتی ہوں کہ تم اِس یونیورسٹی کو ایم آئی ٹی (MIT) کے جیسا بنا دو!‘‘۔ میں نے سوچا، ’’ واہ! کیا چیلنج ہے؟‘‘۔ انہوں نے مجھے یہ بتا کر کہ انہوں نے مجھے بھرتی کر لیا ہے، واپس چیئرمین کے دفتر بھیجا۔ چیئرمین مجھے قبول نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا، ’’تم وائس چانسلر کے ایجنٹ ہو‘‘
پھر پرویز ہود بھائی کچھ دیگر معاملات کی کہانی سنانے کے بعد دوبارہ جب وائس چانسلر کا ذکر کرتے ہیں تو کسی بھی صاحب ِشعور کا ماتھا لازمی طور پر کھٹکنے لگتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ،
’’اس تمام کنفیوژن کے دوران وائس چانسلر (کنیز یوسف) کا ذہن بھی میرے بارے میں بدل گیا کہ میں کوئی پراسرار شخص ہوں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے خزانچی کو ایک خفیہ خط لکھا، جس میں لکھا کہ، ’’ہود بھائی بائیں بازُو کا ہے اور امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کی تنخواہ پر ہے۔ یہ خطرناک آدمی ہے۔ اِسے کسی قسم کا ہاؤس الاؤنس نہ دیا جائے ‘‘
جولوگ کنیز یوسف کے نام سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کنیز یوسف کتنی بڑی رائٹر اور معروف سکالر ہیں۔ یہاں تک کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے دوران کتنی ہی کتابیں کنیز یوسف کی ہمیں ایک اچھا محقق بنانے کے لیے تجویز کی جاتی ہیں کہ ہم پڑھیں۔ اور پھر وہ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جیسے بڑے عہدے پر بیٹھ کر غیر ذمہ دارانہ بات تو ویسے بھی نہیں سوچ سکتیں۔ ایک محققہ، ایک ماہرِ تعلیم، ایک وائس چانسلر اور ایک ذمہ دار پاکستانی شہری اپنے خط کے ذریعے شعبوں کو مطلع کر رہی ہیں تو ضرور کوئی بات ہوگی۔ بالخصوص اس تناظر میں کہ وہ کوئی اسلامسٹ نہیں تھیں بلکہ خود ہود بھائی کی آمد پر حوصلہ افزائی کی اور اسلامی جمعیت کے خلاف مدد کرنے کو کہا. تو جو وائس چانسلر ان سے امید لگائے بیٹھی تھیں، ان کی رائے کے تبدیل ہونے کی اپنی جگہ اہمیت ہے. چنانچہ یہ تھی وہ دوسری بات جسے جاننے کے بعد مجھے دھچکا لگا۔
تیسری بات جسے جان کر میرا دُکھ سَوا ہوا وہ یہ تھی۔ انہوں نے بتایا،
’’جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کی تقدیر آپ بدلنا چاہتے ہیں، ان میں آپ کی کچھ ساکھ ہونا ضروری ہے، اور آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ، ’’میں ان میں سے نہیں ہوں‘‘۔ سچائی یہ ہے کہ میں پیدائشی طور پر ایک مسلمان تھا۔ (نوٹ: ہود بھائی پیدائشی طور پر اسماعیلی برادری سے ہیں) کچھ عرصہ میں بہت عبادت گزار مسلمان بھی رہا۔ (نوٹ: یہ عرصہ چودہ سال کی عمر تک رہا)، ہم میں سے ہر کوئی مسلم روایات کے تحت پرورش پاتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اپنی جڑوں سے کاٹ نہیں سکتے۔ میں آپ کو اقبال احمد کی ایک کہانی سناتا ہوں، جب وہ وفات پانے لگے تو رضا قاسم کی بیوی جو ان سے بہت پیار کرتی تھیں، کمرے کے باہر کھڑی ہو کر گھنٹوں قرآن کی تلاوت کرتی رہیں۔ جب میں نے اقبال احمد کو اس بابت بتایا تو انہوں نے اُسے اندر بلایا اور بیٹھنے کو کہا۔ وہ اُس وقت بھی قرآن پڑھ رہی تھیں۔ آخر ایک مقام آیا کہ میں نے (تنگ آ کر) ایک چھوٹا سا نوٹ لکھ کر اقبال احمد سے پوچھا کہ اگر وہ اجازت دیں تو خاتون کو تلاوت سے منع کر دیا جائے؟۔ انہوں نے انگلی کے اشارے سے مجھے منع کیا۔ بعد میں جب وہ چلی گئیں تو میں نے اقبال احمد سے پوچھا، ’’آپ نے کیوں اتنی دیر (اس خاتون کو) برداشت کیا؟ آپ تو مسلمان نہیں ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا، ’’کیوں نہیں! میں مسلمان ہی ہوں‘‘۔ میں نے اصرار کیا ، ’’نہیں آپ نہیں ہیں، آپ اللہ کے ہونے کا یقین نہیں رکھتے، قرآن ، فرشتوں اور آخرت کے دن پر بھی آپ ایمان نہیں رکھتے‘‘۔ ’’نہیں، میں ہوں‘‘ انہوں نے پھر اصرار کیا۔ اور ساتھ ہی کہا، ’’میں مسلمان پیدا ہوا اور ہمیشہ مسلمان رہوں گا‘‘۔ حالانکہ اُنہوں نے کبھی خدا سے کوئی دعا نہ مانگی تھی۔ کبھی بخشش طلب نہ کی تھی۔ پھر بھی آخر تک وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اُن کی جڑیں اُسی تہذیب میں ہیں جس میں انہوں نے عمر گزاری۔ میرے خیال میں، ’’یہ ہم سب کا مسئلہ ہے‘‘۔ اگرچہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم مذہب کو نہ مانتے ہوں۔ پھر بھی ہم اس میں پیدا ہوئے اور یہ پیدا ہونا ہی ہم پر ہمیشہ کے لیے مُہر لگا دیتا ہے کہ ہم (مسلمان) ہیں۔ ہاں! ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ’سیکولر مسلمان‘ ہیں‘‘