خوشی یاد کرنے سے دوبارہ محسوس کیوں نہیں ہوتی اور غم یاد کرنے سے دوبارہ محسوس کیوں ہوتاہے؟۔۔۔ادریس آزاد
خوشی یاد کرنے سے دوبارہ محسوس کیوں نہیں ہوتی اور غم یاد کرنے سے دوبارہ محسوس کیوں ہوتاہے؟۔۔۔ادریس آزاد
6 مارچ 2020
فرض کریں آپ کو اچانک بہت سی خوشی ملی ہے اور آپ اُسے پوری طرح محسوس کرتے اور اُس سے پورا پورا لطف کشید کرتے ہیں۔اور پھر وقت گزر جاتاہے۔ تو کیا کافی مدت بعد اُس خوشی کو یاد کرکے آپ دوبارہ ویسی ہی محسوسات میں جاسکتے ہیں؟ ویسا ہی لطف محض اُس خوشی کی یاد سے حاصل کرسکتے ہیں؟ آپ ابھی تجربہ کرکے دیکھ لیں، یعنی اپنی کسی اچانک ملنے والی پرانی خوشی کو یاد کریں۔ اور محسوس کرکے بتائیں کہ کیا واقعی آپ کی محسوسات میں وہ لطف موجود ہے؟
اس کے برعکس غم کو جتنی مدت بعد بھی یاد کیا جائے وہ بڑی شدت سے محسوس ہوتاہے۔ جان لینے کو آتا۔ سینے میں سسکی اٹک جاتی ہے، نہ نکلتی ہے نہ گلے سے نیچے اُترتی ہے۔ غرض پورا پورا غم ویسا ہی محسوس ہوتاہے جیسا اچانک کبھی ملا تھا۔ بعض اوقات تو محض یاد کرنے سے ۔۔۔۔۔۔وہ غم پہلے سے بھی بڑھ کر محسوس ہوتا اور تکلیف دیتاہے۔
ایسا کیوں ہے؟
خوشی یاد کرنے سے دوبارہ محسوس کیوں نہیں ہوتی اور غم یاد کرنے سے دوبارہ محسوس کیوں ہوتاہے؟
دراصل غم بھی خوف کی طرح جسمانی اور روحانی یا ظاہری و باطنی دونوں طرح کے حواس پر اثرانداز ہوتاہے۔ بمقابلہ اِس کے خوشی محض بدنی اثرات تک محدود رہتی ہے۔ بدنی اثرات فوری یا کچھ وقت کے بعد اگر ختم ہوجائیں تو یاداشت کے سہارے واپس نہیں لائے جاسکتے۔ بعینہ جیسے جسمانی درد کی ’’یاد‘‘ سے جسمانی درد پلٹ کر دوبارہ محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن دِل کو لگنے والا غم مکمل طور پر محض جسمانی اثرات مرتب نہیں کرتا بلکہ لاشعور کو کہیں کوئی ایسا شدید دھچکا پہچاتاہے کہ گاہے بگاہے محض اُس غم کی یاد سے ہی جسم میں کیمیائی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں اور آنسو آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
خوف اور بالخصوص موت کا خوف سب پر بھاری ہے۔قریبی رشتوں، جیسے اولاد یا بہن بھائی کی موت کا دکھ بہت زیادہ ہوتاہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے قریبی رشتے کی ناگہانی موت کے وقت وہاں موجود ہو اور خطرہ بھی بدستور موجود ہو تو وہ غم سے پہلے اپنی موت کا خوف محسوس کرتاہے۔ اور اُس وقت تک کرتا رہتاہے جب تک اُس کے سر پر سے موت کا خطرہ ٹل نہ جائے۔ خوف ختم ہوتے ہیں اُس کی تہہ میں چھپا غم اُمڈ کر آتا اور اس کی شخصیت کا احاطہ کرلیتاہے۔
جسمانی درد یا جسمانی لذت دونوں، محض یاد کرنے سے دوبارہ محسوس نہیں کیے جاسکتے۔ لیکن خوف محض یاد کرنے سے بھی محسوس کیا جاسکتاہے۔ جس سے ثابت ہوتاہے کہ خوف بھی لاشعور یا بالفاظِ دگر باطنی دنیا سے متعلق مظہر ہے۔ چونکہ خوف اور غم دونوں کو محض یاد کرنے سے محسوس کیا جاسکتاہے۔ اس لیے کوئی بھی شخص اِن دونوں کی ’’یاد‘‘ سے بھی بچنا چاہتاہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اِن میں سے کسی ایک کی یاد کا تکرار دوسرے کے خاتمے کا باعث بنتاہے۔ مستقل خوف کو دور کرنے کے لیے مستقل غم کی یاد کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اور مستقل غم سے چھٹکارا پانے کے لیے مستقل خوف کی یاد کا۔
ادریس آزاد