چاند ہر کہیں ایک جیسا دیکھاجائے۔۔۔۔۔۔۔فواد چوہدری کے بیان پر تبصرہ
چاند ہر کہیں ایک جیسا دیکھاجائے۔۔۔۔۔۔۔فواد چوہدری کے بیان پر تبصرہ
23مئی 2020
چاند ہر کہیں ایک جیسا دیکھاجائے تاکہ تمام مسلمانوں کی ایک عید ہو اور توحید یا وحدت کا نظارہ کیا جاسکے۔ ‘‘ یہ وہ نکتۂ نظر ہے جو مفتی فواد چودھری سے لے کر جنابِ غامدی تک سب بڑے مفکرین اور ماہرین سائنس و شریعت نے فی زمانہ اختیار کررکھاہے۔ لیکن بصد معذرت مجھے اس نکتۂ نظر یا مؤقف کے ساتھ شدید اختلاف ہے۔ میں کوئی مفتی تو نہیں ہوں لیکن میرا دِل کہتاہے کہ ایسا کرنا عین بدعت ہے۔ میری دانست میں چاند کو دیکھنا شعائر میں سے ہے۔ شعائر کی اہمیت اور طرح سے ہے۔ انہیں ہم وحدت کے اظہار کا کوئی اجتماعی فکری عمل نہیں کہہ سکتے۔ شعائر ایک طرح سے کسی دین کا کلچر ہوتی ہیں۔ چاند کو دیکھنا ملتِ اسلامیہ کا کلچر ہے۔ اس کی خوبصورتی ڈائیورسٹی اور اختلاف میں مضمر ہے۔ ہرکہیں الگ عید ہو تاکہ بہت ساری عیدیں ہوں اور عید کا تہوار کئی دن تک چلتا رہے۔
اِسی طرح عید کا چاند دیکھنے کا عمل بھی ایسا ہی اسلامی کلچر ہے جس کو سائنس کے ساتھ کوئی مناسبت یا علاقہ نہ ہونا چاہیے۔ کوئی بڑی سے بڑی مشین اور کمپیوٹر بھی ایجاد ہوجائے تب بھی۔ کوئی ایسا الہ وجود میں آجائے جو نینو سیکنڈ کے اعتبار سے چاند کے طلوع ہونے کی خبر دے دے تب بھی۔ یعنی چاند کو دیکھنے کا عمل، اور بالکل پرانے طریقے پر دیکھنے کا عمل جاری رہنا ہی عین اسلامی اور شرعی عمل ہے۔ چاہے ایک ضلع کے لوگ کہیں ہماری عید کل ہے اور دوسرے کہیں ہماری پرسوں، اِس بات کی مطلقاً پروا نہ کرنا چاہیے بلکہ ساری عیدوں میں شامل ہوا جائے اور کئی دن تک تہوار کا لطف لیا جائے۔
چاند رات کو سرشام چھتوں پر چڑھنا، چاند کو کھلے آسمان پر تلاش کرنا، چاند کو دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ اُٹھانا، ایک دوسرے کو چاند رات مبارک، رمضان مبارک اور عید مبارک کے پیغامات بھیجنا۔ چاند پر شعر کہنا، تبصرے کرنا، ہرجگہ کے الگ چاند پر جملے کسنا، یہ سب کچھ اسی تہوار کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ ہی ضروری ہے۔
الغرض یہ کہنا کہ سائنس آگئی ہے تو اب سب کا چاند ایک ہونا چاہیے میری نظر میں یہی بدعت ہے۔ سائنس کا اس معاملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں یہ ہمارا اسلامی کلچر ہے۔ کلچروں کے ساتھ سائنس کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا۔
ادریس آزاد