کیا شادی بیاہ کی رونقیں پرانے دور کی فضولیات ہیں۔۔۔۔۔۔فواد چوہدری پر تبصرہ

کیا شادی بیاہ کی رونقیں پرانے دور کی فضولیات ہیں؟؟

25 مئی 2020

’’شادی بیاہ کی رونقیں پرانے دور کی فضولیات ہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ عورت اور مرد کا ملاپ بغیرنکاح اور رسموں کے بھی ویسا ہی درست ہے جیسے رسموں اور نکاح کے ساتھ درست ہے اِس لیے جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے بھرپورفائدہ اُٹھانا چاہیے اور اِن فضولیات سے بچنا چاہیے‘‘یہ مفتی فواد چودھری صاحب نے نہیں کہا۔ یہ میں کہہ رہا ہوں، طنزاً

سائنس اور ٹیکنالوجی کو خدا بنالیا ہے ہم نے۔ ہمارے بعض جدت پسند اورلبرل دوستوں کو یوں تو اسلام سے چِڑ ہے، لیکن چاند کے مسئلے پر انہیں اچانک ملتِ اسلامیہ کی وحدت کا غم ستانے لگتا ہے۔ گزشتہ دنوں فواد چودھری نے جس طرح بار بار ٹی وی پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے گُن گائے، اُن سے تو ایک وقت میں یہ لگنے لگا تھا کہ شاید اصل مذہب، سائنس ہی ہے۔ سائنس کی موجودگی میں کسی مذہبی خیال یا ثقافتی قدر کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

ایک مغربی فلسفی نے لکھا اور اقبال نے کوٹ کیا کہ سائنسی علوم کی شاخیں فطرت کے مُردہ جسم کو گِدھوں اور چِیلوں کی طرح نوچتی ہیں اور جس کسی کے ہاتھ جو ٹکڑا لگتا ہےوہ اسے خوش خوش لے دوڑتا ہے۔ ان الگ الگ ٹکڑوں سے فطرت کی خاک سمجھ آئےگی البتہ ذہن کی کایا ضرورپلٹ جائےگا۔ ہم سب پنساری کے چوہے ہیں، جِسے ایک لونگ ہاتھ آگیا تھا تو اس نے سمجھ لیا کہ وہ اب پنساری بن گیاہے۔

اس سے بڑی جہالت کوئی نہ ہوگی کہ اب ہم سائنس کو آرٹس پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی ثقافتوں کو برباد کرلیں۔ سائنس اور آرٹس ایک دوسرے سے ایک سو اسی ڈگری پر وجود رکھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں سہولیات تو لاسکتی ہے لیکن خوشی ہمیں شعروشاعری، موسیقی، مصوری، چھوٹی چھوٹی رسموں اور اپنی ثقافتی اقدار کی احیا سے ہی ملتی ہے اور ہمیشہ مل سکتی ہے۔

ہم چند روبوٹک طرز کے سائنسی خیالات کے تحت اپنی پوری جذباتی زندگی نہیں گزار سکتے۔ انسان کا وجود جذبات کا مجموعہ ہے۔ ہمارے جسم میں جذبات نناوے فیصد اور عقل شاید ایک فیصد سے بھی کم کارفرما رہتی ہے۔ فرد سے فرد ملتا ہے تو سماج بنتا ہے۔ سب کے اجتماعی جذبات سے آرٹس وجود میں آتی ہے جو مذہب سے لے کر ثقافت اور ادب سے لے کرفنون لطیفہ تک پھیلی ہوئی ہے اور جس نے ہماری زندگیوں کو چاروں طرف سے احاطہ کررکھا ہے۔ ہم انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی جذبات کی بدولت وجود رکھتے ہیں۔ اگر دنیا میں فقط عقل اور کلاسیکی سائنس کے لگے بندھے قوانین کی ہی بالادستی ہوتی تو زندگی کا وجود ہی ممکن نہ ہوتا۔ اب بھی اگر جذبات کو زندگی سے نکال دیا جائےتو زندگی کا وجود ختم ہوجائےگا۔

گزشتہ صدی کے آخری تین عشروں پر سامراج کا اثر ماضی کی تمام صدیوں سے زیادہ ہوا ہے۔ یہ سرد اور گرم جنگ کا درمیانی عہد ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب سامراج کو ضرورت تھی تو صرف اور صرف یہ ثابت کرنے کی کہ دنیا کی رہبری کا حق صرف اُسی کو ہے کیونکہ دنیا کی رہبری کا حق صرف سائنس کو ہے اور ان کے پاس سب سے زیادہ سائنس ہے ۔ وہ سائنس کے سب سے بڑے مولوی اور پادری ہیں اس لیے دنیا کی رہبری فقط وہی کرسکتے ہیں اور فقط وہی کریں گے۔ بس پھر اس کے بعد سے اب تک ہم چند جہلا کے شکنجے میں بری طرح سے جکڑے ہوئے ہیں۔ پہلے فقط ہم ذہنی طورپر غلام تھے اور اب تو ہم نے کلیۃً خود کو خود ذبح کرکے سائنس کی دیوی کے چرنوں میں یوں ڈال دیا ہے کہ پانچ مہینے ہونے کو آئے ہیں نہ کوئی جمہوریت اپنے آپ کو ثابت کرپارہی ہے اور نہ ہی کوئی مذہب۔ مذہب سے تو انسان پہلے ہی ہاتھ دھوچکے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اب انسان اپنی بتائی ہوئی اور سکھائی ہوئی جمہوریت اور فرد کے ارادے کی قوت سے بھی مکمل طورپر ہاتھ دھو چکے ہیں۔

ایک آخری بات کہ میں نے آج تک قول و فعل کا جتنا تضاد جدت پسندوں، لبرلوں، دیسی ملحدوں اور سائنس کے پُجاریوں میں دیکھا، کسی میں نہیں دیکھا۔ یہ ہرسال دس دن محرم کے فیشن ایبل شیعے بن جاتےہیں۔ غمِ حسین ؓ کی پوسٹیں لگاتے ہیں، پھر گیارہ مہینے بیس دن دوبارہ سے واپس وہی اخبث الخبائث رویّے جن سے فقط ایک سڑے ہوئے اورچڑے ہوئے ناراض شخص کی بدبُوآتی ہے ۔ یہ میوزک سنتے ہیں تو بے شرموں کی طرح اس پر سردھنتے اوراس کےحق میں باتیں کرتے ہیں لیکن غورکریں تو میوزک سے ان کا کیا تعلق؟ کوئی تعلق بنتا ہے بھلا؟ میوزک یا تو مذہب کی چیز ہے یا پھر مذہب جیسی ہی کوئی الوہیاتی چیز۔ پھر اسی میوزک میں ان پڑھ شاعروں کی شاعری جس میں طرح کے طرح کے توہمات اور ضعیف الاعتقادیوں کے تذکرے ہوتےہیں لیکن سائنس پسند لبرلز کو یاد بھی نہیں رہتا کہ میوزک کے ساتھ پسندیدگی کا اظہاران کے نظریات و افکار کے خلاف ہے۔ میں اس طرح کی ان گنت مثالیں پیش کرسکتاہوں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سب سے زیادہ قول و فعل کا تضاد جدت پسندوں اور لبرلوں میں پایا جاتاہے۔

ادریس آزاد

 

اس پوسٹ پر بیشمار لوگوں نے ادریس آزاد صاحب کی وال پر کمنٹس کئے ان میں سےکچھ کمنٹس درج ذیل ہیں:

سعید حسین: سائنس اور آرٹ کافی عرصہ سے ساتھ چل رہے ہیں۔ آپ تین چار دہائیاں پیچھے جائیں آپکو انجینئرنگ پراڈکٹس اتنی جازب نظر نہیں آئیں گی۔ آج بڑی بڑی کمپنیوں کے R&D میں باقاعدہ آرٹ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ نیشنل جیوگرافک کے ایک پروگرام میں ایک کارساز کمپنی کے چیف انجینئر کا انٹرویو دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کمپنی کار تو اچھی بناتی تھی لیکن وہ جازب نظر نہیں تھی۔ ایک دن میں سوچ میں گم تھا کہ میرے دماغ میں خیال آیا کہ کیوں نہ آرٹ اور سائنس کو ساتھ چلائیں۔ بس پھر ہم کار ڈیزائننگ میں لیڈ کرنے لگے۔ الغرض تمام شعبوں میں آرٹ سائنس کیساتھ ساتھ۔ ہے۔فواد چوہدری کی ذات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کیا رؤیت ہلال کو ماہرینِ فلکیات کے حوالے کرنا اصولاً ٹھیک ہے یا نہیں؟ کیا اس مسئلے پہ ملا اپنی بقا کے عدم تحفظ کا شکار ہیں؟

 

ادریس آزاد: رویتِ ہلال کو کسی کے بھی سپرد کیوں کیاجائے سعید بھائی؟ یہ تو ہربستی کا اپنا تہوار ہے۔ کیوں عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی وہ خوشیاں چھین لی جائیں جو چاند کے انتظار اور اس کے دیکھنے اور ڈھونڈتے رہنے کے عمل سے منسلک ہیں؟

آپ کو میں دل سے جانتاہوں۔ میری بات کو بھی دل سے سنیں۔ اسلامی کلچر بھی ایک جزو ہے فکرقران کا۔ اسلامی کلچر کچھ زیادہ مذہبی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ہر علاقے کی آب و ہوا اور ماحول میں ڈھل جانے والی اسلامی تعلیمات سے وجود میں آیا ہے اور اس لیے اسلامی تہذیب کی شکل میں مشترکہ جبکہ اسلامی کلچر کی شکل میں بستی بستی کا اپنا اثاثہ ہے۔ حجۃ الوداع کے دن رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم نے ان رسموں کو باقی رہنے دیا جو مکے کی علاقائی رسمیں تھیں لیکن اسلامی اصولوں کے ساتھ ٹکرا نہ رہی تھیں۔ اسی طرزعمل کو اقبال نے اسلام کی پھیلنے کی بنیادی وجہ لکھاہے۔ اور لکھاہے کہ اسلام دیگر ممالک اور دیسوں میں جاکر وہاں کی تہذیبوں کو عربی تہذیب کے ساتھ بدل دینے کا نام نہیں ہے بلکہ ان کی تہذیبوں کو اپنے اندر ضم کرلینے کا نام ہے۔الغرض میں اس خیال کے ساتھ متفق ہوں کہ رویت ِ ہلال کمیٹی کا وجود بھی اضافی ہے۔