اب پاکستان میں مزاحمت نگار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟۔۔۔۔۔ادریس آزاد
اب پاکستان میں مزاحمت نگار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟۔۔۔۔۔ادریس آزاد
8 جولائی 2019(یہ مضمون "مکالمہ "پر شائع ہو چکا ہے۔ادارہ مکالمہ کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے )
کَل، زندہ لوگ کے اجلاس میں یہ موضوع زیربحث تھا کہ ’’آج کل مزاحمتی ادب کیوں نہیں لکھا جارہا؟‘‘مجھےایک خیال آیا کہ ’’مزاحمتی ادب دورِ مزاحمت میں ہی لکھاجائےگانا؟‘‘ ہم لوگ نہ تنگ ہیں اور نہ ہی ابھی آمادۂ جنگ ہیں۔ مشرف نے کہاتھا، ’’یہ کیسی غربت ہے، لوگ اپنے موبائیلوں میں سوروپے کا بیلنس روز ڈال رہے ہیں اور شورمچاتے ہیں کہ غربت ہے، غربت ہے‘‘۔ میں تواکثرکہا کرتاہوں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے فرداً فرداً ہرشخص کے دروازے تک اُس کا کھانا پہچانا شروع کردیاہے، سو اب کیسے ممکن ہے کہ کبھی اشخاص کسی اجتماع کی صورت اکھٹے ہوں؟ معاشرتی زندگی کی تمام ترالف لیلیٰ افراد کے معاشی پیکار کی کہانی ہی تو ہے۔ اگرلوگوں کا بنیادی معاشی مسئلہ کسی حد تک حل کردیا گیا ہے تولوگوں کو کیا ضرورت ہےانقلاب لانے کی؟ جب ایک بار سب اپنی اپنی بھوک مِٹالیں گےتوپھرشاید کسی کو پیٹ سےہٹ کر، آزادی کا خیال بھی آجائے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں مزاحمتی ادب کی بڑی لہریں عالمی سیاست کے زیرِاثراُٹھی تھیں۔ یہ لہریں جن عشروں میں اُٹھیں، وہ قیامِ پاکستان کے ابتدائی عشرے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جب دوسری جنگِ عظیم تازہ تازہ ختم ہوئی تھی اوریورپ ابھی پوری طرح تباہ حال تھا۔ امریکہ جاپان پر بم پھینک کر اپنے آئندہ کے ارادوں کوسب پر واضح کرچکاتھا۔ بیرونی دنیا میں امریکی بیانیے کا پہلا شکار سٹالِن تھا۔ سٹالِن کو 1949 تک دنیا کا بدترین آمرکہہ کرپکارا جانے لگا تھا۔ یہی وہ دور ہے جب پاکستان میں فیض احمد فیض کی شاعری کو عروج مل رہاتھا۔ فیض کی مزاحمتی شاعری پاکستان میں بھوک سے مرتے غریبوں کی داد رسی سے زیادہ عالمی سیاست کا حصہ تھی۔ فیض کو اگرچہ ادب میں نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن اُنہیں نوبل پرائز ملا نہیں تھا جبکہ 1962 میں، روس میں فیض کو ’’لینن اَمن ایوارڈ‘‘ سے نوازاگیا۔
فیض کے بارے میں یہ ساری بات بتانے سے میری غرض یہ ہے کہ دیکھیں! اگرفیض اپنے وقت کے آمر کے خلاف کچھ لکھتا تو اس کے لیے دنیا میں پناہ کی ایک جگہ تھی، یعنی رُوس۔ مزاحمت لکھنے والا تب ہی قلم اُٹھاتاہے جب اس کے حالات امکانات کی کسوٹی پر پورے اترتے ہوں۔ کوئی پاگل ہی بیچ بازار میں نعرہ مارسکتاہے۔اور ایسا پاگل صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سال میں کبھی کوئی ایک پیدا ہوتاہے۔ شاید پیدا تو زیادہ بھی ہوتے ہونگے لیکن سراُٹھاتے ہی مارے جاتے ہیں اور اس لیےجن دوچارپاگلوں سے دنیا واقف ہوپاتی ہے، اُن کے حالات بھی کسی نہ کسی طرح امکانات کی کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں۔
آج اگرکوئی لکھاریوں سے یہ مطالبہ کرتاہے کہ وہ مزاحمت کیوں نہیں لکھتے تو مطالبہ کرنے والے کو جان لینا چاہیے کہ آج لکھاریوں کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جائے پناہ اَزائیلم کو نہیں کہتے۔ ازائیلم میں یہ نقص ہے کہ آپ کو کہیں بھی پناہ مل جائے، غنیمت ہوتی ہے، لیکن ’’جائے پناہ‘‘ کی اصطلاح میں یہ خوبصورتی ہےکہ یہ فقط آپ کی من پسند جگہ ہوسکتی ہے۔ فیض کو رُوس پسند تھا، امریکہ نہیں۔ آج بھی اگر کسی کو امریکہ پسند نہیں ہوگا اور اُسے امریکہ میں پناہ لینی پڑےگی تو وہ کیونکر ایسے مستقبل کو بخوشی قبول کرسکتاہے؟ وہ ضرور ایسا کرے گا کہ قلم ہی نہیں اُٹھائےگا۔ فیض کے زمانے میں لکھاری تو کیا عام پاکستانی کمیونسٹ بھی ذرا ذرا سی بات پر روس بھاگ جایا کرتے تھے۔ تونسہ سے ہمارے ایک بزرگ کمیونسٹ دوست نظامی صاحب بتاتے ہیں کہ اُن کے ایک رُقعے سے پاکستانی کمیونسٹوں کے لیے روس میں داخلہ ممکن ہوجاتا تھا۔ یوں گویا ایک سینیئر کمیونسٹ کا رُقعہ بھی روس کے ویزے کے برابر تھا۔ جب فرار اتنا آسان ہوگا تو کوئی کیوں نہ لکھے گا مزاحمت؟
ہاں ایسے رائٹرز ہوسکتے ہیں جنہیں امریکہ یا یورپ کی پناہ پسند ہو، ایسے رائٹر آج بھی ہیں اور آج بھی مزاحمت ہی لکھ رہے ہیں۔ میں ایسے ایک نہیں کئی لکھاریوں اور شاعروں کو جانتاہوں۔ مثلاً رفیع رضا، پاکستان کے ایک اقلیتی مذہبی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے گروہ کو یہاں اُس سطح کی مشکلات اور تکلیفوں کا سامنا رہاہے جس سطح پر مزاحمت بہرحال جنم لیتی ہے۔ رفیع رضا بڑے شدید لہجے کا زوردار شاعر ہے۔ وہ پاکستان اور اسلام کے خلاف کھُل کر لکھتاہے۔ زیادہ غصے میں ہوتو گالیاں بھی بکتاہے اورگستاخانہ کلمات بھی بولتاہے۔ لیکن یہ سب کچھ وہ پاکستان میں رہ کر نہیں کرسکتا تھا۔ وہ برطانیہ میں مقیم ہے۔ وہ مزاحمت لکھ رہاہے لیکن پاکستان میں رہ کر نہیں۔ چنانچہ یہ مطالبہ کہ پاکستان کے لکھاریوں نے مزاحمت لکھنا کیوں چھوڑدیا ہے معروضی حالات کے اعتبار سے غیر منطقی ہے۔ اب کوئی عظیم روس موجود نہیں ہے اس لیے ایسا پاکستانی لکھاری بھی جو خود کو کمیونسٹ کہتاہے، صرف اُسی وقت مزاحمت لکھتاہے جب اُسے سرمایہ دار ملکوں کی طرف سے کسی نہ کسی شکل میں حوصلہ ملا رہتاہے۔ اب چونکہ وہ خود کو کمیونسٹ کہتاہے لیکن اس کے لیے پناہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ملکوں میں موجود ہے اس لیے اس کا کمیونزم جنم لیتے ہی ٹائیں ٹائیں فِش ہوجاتاہے اور وہ اپنے اندرکی مخفی توانائیوں کواس طرح کام میں لاتاہے کہ اُنہیں کمیونزم اور کیپٹلزم کے فی زمانہ مشترکہ دشمن یعنی اہلِ مذہب کو کوسنے میں صرف کرتاہے۔ وہ اسی میں ہی عافیت اور اپنے جذبے کی تسکین کا سامان پالیتاہے۔ایسا کرنے سے مغربی ممالک کی طرف اس کی راہیں بھی کھلی رہتی ہیں اور اس کے نظریاتی ہیجان کو بھی سکون ملتارہتاہے۔
پھر اگر’’مزاحمت‘‘ پاکستان آرمی کے خلاف ہی لکھنی ہےتو لازمی ہے کہ جس کے خلاف مزاحمت لکھی جارہی ہے اس کے استبداد کی داستان اتنی طویل اور المناک تو ہو کہ ہرقسم کے خوف اور حزن کو بالائے طاق رکھ کرمزاحمت لکھی جائے۔ ہم نے تو پہلے مارشل لأ کو بھی ویلکم کہا تھا، دوسرے کو بھی، تیسرے کو بھی اور’’چوتھے‘‘ کو بھی۔ اگرہم فوج سے سچ مچ تنگ ہوتے اور مزاحمت کی حد تک تنگ ہوتے تو ہم دوسرے مارشل لأ کو ہی ویلکم کیوں کہتے؟ اس کا ماسوائے اور کیا مطلب ہوسکتاہے کہ ہم اپنی آرمی کی جانب سے اتنی زیادہ تکلیف میں نہیں ہیں جتنی تکلیف کی فلم چلائی جاتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم اُتنی تکلیف میں ہوتے جتنی تازہ بیانیے میں بتائی جاتی ہے تو یقیناً اب تک کوئی نہ کوئی لکھاری ایسا پیدا ہوچکاہوتا جو کئی بار گرفتاربھی ہوچکاہوتا یا کہیں پناہ لے چکاہوتا۔ ایران میں انقلاب آیا تو اس سے پہلے کئی سال تک امام خمینی نے فرانس میں پناہ لیے رکھی اور انقلاب کی تمام تر تیاری فرانس میں بیٹھ کر ہی مکمل کی۔ وطن واپسی پر تو سب کچھ مکمل ہوچکاتھا۔ فلہذا اگر ملک سے باہر موجود اُردو لکھاریوں میں بھی کوئی ایسا مزاحمت نگار موجود ہوتا جو پاکستان میں فوجی حکومتوں سے نالاں تھا تو اس کی گونج یہاں ضرور سنائی دیتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ابھی اُتنی تکلیف میں نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں روزبروز بڑھتی مہنگائی اورچڑھتے ڈالر کی بحث ہورہی تھی تو میں نے کہا، ’’بھائیو! موجودہ حکومت کے پیچھے فوج ہے یا کوئی اور، جو کوئی بھی ہے وہ ہماری عادات اور خصلتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ہم لاکھ مہنگائی کا شور مچاتے رہیں لیکن وہ جانتاہے کہ اِن فضول خرچوں کے لیے ابھی کوئی مہنگائی آئی ہی نہیں ہے۔ میں تو بھوک اور افلاس سے ہونے والی خودکشیوں کو مزاحمت کی آخری حد کا پیمانہ سمجھتاہوں۔
اس میں البتہ کوئی شک نہیں کہ نسل پرستوں نے گاہے بگاہے ضرور کوئی نہ کوئی مزاحمت نگار پیدا کیا ہے۔ اور اس کی وجہ بھی یہی خودکشیوں کی حدتک بڑھا ہوا گھٹن ہے۔ مثلاً اندرون سندھ اور اندرون سرائیکستان میں مزاحمت نگار آج بھی موجود ہیں۔ کیونکہ وہاں آج بھی خودکشیوں کی شرح وہی ہے، جو ایک مزاحمت نگار کی پیدائش کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ڈاکٹراَشُو لال فقیر سرائیکی شاعر ہے اور غضب کا مزاحمت نگار ہے۔
میں تَسّا، میڈی دھرتی تَسّی
تے تَسّی روہی ، جائی
میکُوں آکھ نہ پنج دریائی
عام شہری جو دہاڑی دار مزدور ہے، بھٹو کے دور میں بھی مزدوری کرکے دہاڑی کماتا تھا اور آج بھی مزدوری کرکے کماتاہے۔ بھٹو کے دور میں اس کے لیے پھر بھی کم آسانیاں تھیں جبکہ آج کے دور میں کتنی ہی سہولیات ہیں جن سے وہ مالامال ہے۔ مشرف نے غلط نہیں کہا تھا۔ بھوک کی شدت کوکوئی معمولی حادثہ نہیں ہوتا۔کوئی بھی شہری جب بھوکا مرنے لگے گا تو سب سے پہلے اپنا موبائیل بیچےگا۔ یہ دور، جہدللبقأ کا دور ہے۔ انسان صرف بچنا چاہتاہے، صرف زندہ رہنا چاہتاہے۔ میرے نزدیک مزاحمتی ادب تب تخلیق ہوتاہے جب مزاحمت ناگزیر ہو اور مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہ ہو کیونکہ انسان بنیادی طورپر تمکّن کا خواہاں ہے اس لیے زیادہ تر سختیاں چپکے سے جھیل لیتاہے لیکن جب بھوک اور افلاس بڑھ جائے اور لوگ خودکشیاں کرنے لگیں تو بول پڑتے یا چیخ اُٹھتے ہیں۔ مزاحمت ایسی ہی چیخ ہے۔ میرے نزدیک ہمارے ہاں مزاحمتی ادب تخلیق نہیں ہورہاکیونکہ لوگ مزاحمت کی حدتک تکلیف میں نہیں ہیں۔
توکیا واقعی لوگ مزاحمت کی حد تک تکلیف میں نہیں ہیں؟ نہیں! میں نے شروع میں کہا کہ، ’’ سرمایہ دارانہ نظام نے فرداً فرداً ہرشخص کے دروازے تک اُس کا کھانا پہچانا شروع کردیاہے، سو اب کیسے ممکن ہے کہ کبھی اشخاص کسی اجتماع کی صورت اکھٹے ہوں؟ ‘‘۔ یہ ہے وہ بنیادی نکتہ جو میری تمام ترگفتگو کا محور ہے۔ این جی اوز کو بھیج کر، انسان تو انسان سرمایہ دارانہ نظام نے جانوروں کی بھی فرداً فرداً دیکھ بھال شروع کردی۔ اُنہوں نے زمین پر موجود کُل کے کُل انسانوں،جانوروں اور پرندوں کو گِن لیا۔ پھر اپنے پاس موجود پیسوں کا حساب لگایا۔ سب کو کھلا پِلا کر بھی وہ پوری طرح اپنے راج کو قائم رکھ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو حکم دیا کہ بہت ساری این جی اوز بنائیں، لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں۔ اور پھر ان این جی اوز کو دنیا بھر میں بھیج دیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور صرف چالیس سال میں پوری دنیا کے تمام انسان اور جانور اپنے اپنے گھونسلوں، دڑبوں اورٹھکانوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ لوگوں کو الگ الگ کردیا گیا۔ ایک دوسرےسے جدا کردیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ایسا بندوبست کیا کہ جن جن ممالک میں جشنِ آزادی منائے جاتے تھے، تمام کے تمام روٹیوں کی کوٹھڑی میں بند ہوکر رہ گئے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے ایک ایک کو مقروض کرنا شروع کردیا اوردھیرے دھیرے آزادی کے ساتھ ساتھ معاشی تگ و دو کا رسمی تصوربھی ختم ہوکر رہ گیا۔
لیکن ایسے ممالک جہاں آج بھی روٹی سے زیادہ آزادی کا مسئلہ ہے، وہاں مزاحمت لکھی جارہی ہے۔ کشمیر، افغانستان اور فلسطین اس کی وہ مثالیں ہیں جو فقط ہمارے سامنے ہیں۔ چنانچہ جب آزادی بھی میسر ہوگی اور روٹی بھی تو وہ مزاحمت لکھنے کا مناسب وقت نہیں ہوگا۔ بھلے یہ آزادی اور روٹی دونوں ہی ایسے طریقے پر میسر ہوں کہ کھاکر زندہ رہنے سے مرجانا زیادہ بہترہو۔ ظاہر ہے جب آزادی اورروٹی کی عزت کا تصورہی ذہنوں سےکھرچ دیاجائےگا تو کیونکر ممکن ہے کہ کوئی اس کی حرمت اور قدروقیمت کو سمجھ سکے۔ اس کی مثال بہت ہی زیادہ نچلے طبقے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ آپ اُن طبقوں کے لوگوں کو تصور میں لائیں جنہوں نے ’’اپنے ذاتی گھر‘‘ کا کبھی سوچا تک بھی نہیں ہے۔ بھکاریوں، بھنگیوں، چوڑے چماروں اورخستہ حال خانہ بدوشوں کے گروہوں کو تصور میں لائیں۔ اور پھر غور کریں کہ کیا ان میں عزت کی روٹی کا کوئی تصور ہوتاہے؟ کیا اُن میں آزادی کا کوئی تصور ممکن ہے؟
یہ ہماری فوج کا استبداد نہیں بلکہ یہ ہمارے عہد کا المیہ ہے۔ ممکنہ مزاحمت نگار کو کوئی سمجھ نہیں کہ روٹی اورآزادی کس طرح کی چاہیے اور اگر کسی کو کچھ سمجھ ہے بھی تو اس کے لیے کہیں بھی کوئی جائے پناہ نہیں ہے، پوری دنیا میں۔ یہ پوری دنیا کے خلاف کی گئی سازش ہے جس کا ہم شکار ہیں۔ آج کے عہد کی مزاحمت ، فقط عمران خان کو کوسنے یا فوج کے خلاف لکھنے سے پوری نہیں ہوسکتی۔ آج کی مزاحمت کا ذمہ دار کوئی آمر نہیں اور نہ ہی کوئی بڑا شہنشاہ آج کا استعمار ہے۔ آج کا سامراج برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں۔ آج کے مزاحمت نگار کا مقابلہ تلواروں اور زنجیروں سے نہیں ہے بلکہ آج کے مزاحمت نگار کا مقابلہ تازہ بہ تازہ بیانیے کے ساتھ ہے۔ آج کی مزاحمت نگاری بھَڑکا دینے اورجگا دینے والے جملوں یا شعروں سے ممکن نہیں بلکہ آج کی مزاحمت نگاری دشمن کے تازہ بہ تازہ بیانیوں کے راز افشا کرنے سے ممکن ہے۔ اور یہ کام عام شہری کے بس کا روگ نہیں۔ وہ عام شہری جو خود سہ سہ کر زیادہ اچھا مزاحمت نگار بن سکتاہے۔ ہم سنتے ہیں کہ حبیب جالب کی ساری شہرت سیاسی جلسوں کی وجہ سے تھی، ورنہ وہ عام آدمی تھا اور یہ کہ اس پر آج تک کسی معروف تنقید نگار نے بیس سطریں بھی نہیں لکھیں۔ لیکن آج کی مزاحمت عام آدمی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ آج کا مزاحمت نگارہمیں حبیب جالب کی صورت میں نہیں، بلکہ علامہ اقبال کی صورت میں درکار ہے۔ آج کی مزاحمت کی ذمہ داری کسی قوم کے دانشوروں اورخواص کے سر ہے اور خواص بھی ایسے جو سارے رازوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ بیانیے کا جواب متبادل بیانیے سے دینے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔