تحقیق کی تعلیم۔۔۔ادریس آزاد
تحقیق کی تعلیم۔۔۔ادریس آزاد
27 مارچ 2019 (یہ مضمون "مکالمہ” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ مکالمہ کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)
ایک بات پر مجھے اکثر حیرت ہوتی ہے۔ میں انگریزی میں اس پر ایک مضمون بھی لکھ چکاہوں اور وہ یہ بات ہے کہ دنیا بھر میں ’’علم التحقیق‘‘ کو ہرکس و ناکس کا کام سمجھا جاتاہے جبکہ ’’علم التحقیق‘‘ کسی بھی دیگر شعبۂ تعلیم سے کہیں زیادہ اہم، مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ بطور معلم میں نے اب تک یہ جانا کہ جہاں کہیں بھی تحقیق ہورہی ہے اس کی نگرانی کرنے کے لیے ایسے ماہرین موجود ہیں جو خود اس بات سے واقف نہیں کہ تحقیق کسے کہتے ہیں۔
یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے گزشتہ نوسالوں دوران ہر دوسرے دن کسی ایسے طالب علم یا استاد سے ملنا ضرور ہوا جو ایم فِل، پی ایچ ڈی کررہے ہیں یا کسی اور نوعیت کا پیپر لکھ رہے ہیں اور جب میں نے ان سے پوچھا کہ تحقیق کیسے کررہے ہیں تو یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ علم التحقیق سے متعلق موصوف کو قطعی کچھ لگاؤ نہیں اور نہ ہی کچھ سُوجھ بُوجھ ہے۔
اوّل تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخرایک فزکس کا پی ایچ ڈی اور سینیئر پروفیسر بیک وقت علم التحقیق کا ماہر کیسے ہوجاتا ہے؟ ۔ شعبۂ علم کوئی ساہو، مضمون کوئی ساہو، جب بات تحقیق کی آتی ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ محققین ابتدائی نوعیت کی بنیادی معلومات سے ہی ناواقف ہوتے ہیں۔
کسی بھی ایم فل یا پی ایچ ڈی سےپہلے دو سمسٹر پڑھائے جاتے ہیں جس میں ریسرچ میتھاڈالوجی سمیت کچھ اور بھی اصول سکھائے جاتے ہیں اور سمجھ لیا جاتاہے کہ اب متوقع مقالہ نگار اس قابل ہوچکاہےکہ وہ جائے اور تحقیق کرے اور کچھ ’’نیا‘‘ کرکے لائے تاکہ وہ دنیائے علم کے سمندر میں اضافہ کا باعث بن سکے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا میں ’’علم التحقیق‘‘ کی بنیاد سب سے پہلے محدثینِ اسلام نے رکھی۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں محدثین نے اپنی زندگیاں وقف کیں تو تب جاکر کہیں معلوم ہوا کہ تحقیق کیسے کی جاتی ہے اور اس کے ممکنہ اُصول کیا ہوسکتے ہیں۔ رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کا معاملہ تھا جو محدثین اور راویوں کی دنیاوی و اُخروی بقا کے ساتھ جُڑا ہونے کی وجہ سے نہایت ہی سنجیدہ بلکہ زندگی موت کا مسئلہ تھا چنانچہ تمام نہیں تو زیادہ تر محدثین نے ایسے پھُونک پھُونک کر قدم اُٹھائے اور رکھے کہ سُن سُن اور پڑھ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔
تحقیق کا پہلا اور آخری اصول ہے دیانتداری۔ اب دیانتداری جیسی چیز تو کسی کو سکھائی نہیں جاسکتی ہےبلکہ یہ والدین، ماحول اور ابتدائی تعلیم کے نتیجہ میں حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی طبیعت ِ صالحہ کا بھی کرشمہ ہوتاہے کہ آپ دیانتدار ہیں۔ اور یہی بات ثابت کرتی ہے کہ تحقیق ہر ایرے غیرے کا کام تو ہے ہی نہیں۔ بقول جناب شاہد اقبال کامران (چیرمین اقبال سٹڈیز، اوپن یونیورسٹی) جب سے پروفیسروں کو مقالے لکھنے کے کام پر ایچ ای سی نے لگایا ہر کس و ناکس محقق بن گیا جبکہ تحقیق کے لیے تو ایک خاص مزاج، طبیعت اور نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسے طلبہ جو محسوس کرتے ہوں کہ وہ تحقیق کے لیے پیدا نہیں ہوئے کیونکہ وہ جذباتی ہیں، انصاف نہ کرپائیں گے۔ اپنے ذاتی خیالات و عقائد کو ایک طرف رکھ کر تحقیق نہ کرپائیں گے یا کسی بھی قسم کابیرونی اثر قبول کرلینگے جو ان کی تحقیق کی صداقت کی راہ میں حائل ہوسکتاہو تو انہیں نہایت شرافت کے ساتھ پیپر کو وہیں کا وہیں چھوڑ دینا چاہیے اور چپ کرکے دوبارہ سے اسی کام میں جُت جائیں جو پہلے کررہے تھے۔ دوسری صورت فقط ایک ایسا مقالہ سامنے آنے کی صورت ہے جس میں ہر لحاظ سے منطقی مغالطوں کا انبار ہی نہیں غلط نتائج کی بہتات بھی ہوگی۔
مجھے اس پر مزید لکھناہے لیکن سردست میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کم ازکم یونیورسٹی کی سطح پر دنیا بھر میں ریسرچ ایجوکیشن کے نام سے الگ ڈیپارٹمنٹس ہونا چاہییں، جہاں طالب علم کسی بھی مضمون کا ہو، اگر وہ تحقیق کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو پھر اسے وہاں سے مکمل تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ بالکل الگ سے۔