عورت کی جسمانی نزاکت و لطافت مذہب کی دین ہے۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
عورت کی جسمانی نزاکت و لطافت مذہب کی دین ہے۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
عورت کی جسمانی نزاکت و لطافت مذہب کی دین ہے۔ ارتقأ کا اصول ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے انواع کے افزائشِ نسل کا نظام ہر حال میں جاری و ساری رہنا چاہیے۔ اگر کسی وجہ سے کسی نوع میں افزائشِ نسل کا نظام رُک گیا تو وہ نوع فنا ہوجائےگی۔ قبل ازتاریخ میں جب انسان نے جنسی عمل میں لبھاؤ کی قدرتی حسّیں کھودِیں تو مردوں کے لیے چودہ سال کے لڑکے اور لڑکی میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ جس سے فقط مردوں میں ہم جنس پرستی کا آغاز ہوا جو وقت کے ساتھ کئی شکلیں بدلتاہوا ابتدائے تاریخ کے زمانے میں ایسی خطرناک حدود کو چھونے لگا کہ نوعِ انسانی کے بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔
ایسے میں آسمانی مذاہب ہی تھے جو اس خطرناک ارتقائی صورتحال سے نمٹنے کے وسیلے کررہے تھے۔ مذاہب نے عورت کو ایسی خوبیوں سے مالامال کرنا چاہا جن کی بدولت کم عقل اورگمراہ مرد واپس نسلِ انسانی کی بقا کی طرف متوجہ ہوتے۔ ہندومت میں عورت اور مرد کی محبت کو سراہا گیا۔ ابراہیمی مذاہب نے عورت کو معتبر ہستی کے طورپر پیش کرکے واپس میدانِ بقا میں لانے کی کوششیں کیں۔ عیسائیت نے اس کے تقدس کو بحال کیا اوراسلام نے اسے حسن و خوبی کا وہ راستہ دکھایا کہ وہ جنت کی حور بن گئی۔
آج عورت خوبصورت ہے۔ اس کی نزاکت، اس کا لباس، اس کا بننا سنورنا سب آج جمالیات کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ لیکن عورت کا تمام تر جمال اور نزاکت کس لیے ہے؟ مغرب میں عورت آزاد ہوئی تو ان میں سے اکثر نے اکیلا رہنا پسند کیا۔ محنت کرکے بہت سارا پیسہ کمایا اور سارے کا سارا اپنی جسمانی نزاکت کو بحال اور برقرار رکھنے پر صرف کرنے لگی۔ مردوں سے پیچھا چھڑا کر پھر مردوں کے لیے ہی اپنی تمام تر محنت کی کمائی صرف کردینا بذاتِ خود ایک المیہ ہے۔ بے شک ایسی عورتیں بھی ہوسکتی ہیں جو مردوں کے لیے نہ بنتی سنورتی ہوں بلکہ ان کی حس جمالیات انہیں خوبصورت نظرآتے رہنے پر مائل رکھتی ہو۔ لیکن اس حقیقت سے ایسی عورتوں کو بھی مطلق انکار نہ ہوگا کہ آج بھی دنیا کی عورتوں کی ایسی اکثریت جو آزاد اور خودمختار ہے فقط مردوں کی نظرمیں پُرکشش نظرآنے کے لیےاپنے آپ کو بدل رہی ہے۔
عورت کا جسم آج بدل چکاہے۔ وہ ایک نازک سی گڑیا بن چکی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ عورت کا جسم مرد کی خواہشات کے مطابق بدلتا چلا گیا؟ ایسا سوچیں تو لگتاہے کہ شاید وہ ٹھیک مطالبہ کررہی ہے۔
ادریس آزاد