قاری کے بغیر لکھاری کا تصور محال ہے۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
قاری کے بغیر لکھاری کا تصور محال ہے۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
24 اپریل 2015
لکھاری قاری کے لیے لکھتاہے۔ قاری کے بغیر لکھاری کا تصور محال ہے۔ ممکن ہے کوئی لکھنے والا کسی کے لیے نہ لکھتاہو۔ بعض لوگوں کو کہتے سناہے کہ وہ کسی کے لیے نہیں لکھتے صرف اپنے لیے لکھتے ہیں۔ اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔ صرف اپنے لیے کس طرح لکھا جاتاہے۔ ہاں ایک صورت ہے۔ ہم جیسے ریمائنڈر لگاتے ہیں۔۔۔ تو اپنے لیے ہی لکھتے ہیں۔ گویا ڈائری لکھنا بھی اپنے لیے لکھنا ہوسکتاہے اور اگر اتنا ممکن ہے تو پھر مضمون اور کتابیں بھی اپنے لیے لکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن پھر ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ ایسے لکھاری کو بھی کم ازکم ایک قاری دستیاب ہے یعنی وہ لکھاری خود ۔ سو یہ دعویٰ کہ قاری کے بغیر لکھاری کا تصور ممکن نہیں ابھی تک بدستور قائم ہے۔
لکھاری قاری کے لیے لکھتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لکھاری
قاری کو مدنظر رکھ کر لکھتا ہے؟
یا قاری کو نظر انداز کرکے لکھتاہے؟
اس سوال کے دونوں جواب ہیں۔ جو لکھاری قاری کو مدنظر رکھ کر لکھتے ہیں ان کی بات میں زیادہ اثر تو ہوسکتاہے لیکن ضروری نہیں کہ ان کی بات زیادہ سچی ہو کیونکہ قاری کو ذہن میں رکھ کر لکھنا ایسا ہے جیسے آپ بادشاہ کو ذہن میں رکھ کر اس کے لیے قصیدہ کہہ رہے ہوں۔اس کے برعکس قاری کے ذہن، مزاج، پسند اور ناپسند سے بے پرواہ ہوکر لکھنا مشکل بھی ہوتاہے اور بعض قضیات کی رُو سے اس کے سچ ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔
لیکن کیا یہ بات کہ ۔۔۔۔۔۔کلموالناس علیٰ قدر عقولھم ۔۔۔۔۔لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو! یا آسمانی صحائف کا اپنے قارئین کو مدنظر رکھ کر مرتب ہونا اس حقیقت کا ثبوت نہیں کہ قاری کو ذہن میں رکھ کر لکھنا ہی کسی تحریر کا بنیادی اسلوب ہوسکتاہے۔
دراصل تحریروں کی بھی تو قسمیں ہوتی ہیں۔ ہر تحریر ہرطرح کے قارئین کے لیے نہیں ہوتی۔ چنانچہ کلام کرنے اور کچھ لکھنے میں جو فرق ہے وہ یہاں نمایاں ہوجاتاہے۔آسمانی صحائف یا لوگوں سے کلام کرنے کی بات قول متکلم سے متعلق ہے اور لکھاری کے قلم سے نکلنے والی تحریر میں اسلوب ِ خطابت کہیں بہت نچلی سطح پر موجود ہے۔ اگر اُوپر کہیں ہوتا تو اکبر اور حفیظ کو بھی وہ مقام ملتا جو غیر خطیب شعرأ کے حصے میں آتاہے۔
غرض جو لکھاری خطابت کرتاہے وہ قاری کے لیے لکھتاہے اور جو اپنے خوبصورت یا تکلیف دہ جذبات کا اظہار کرنے کے لیے لکھتاہے وہ دراصل قاری کے لیے نہیں لکھتا بلکہ قاری اس کے لیے قرات کرتاہے۔ جس طرح لکھنا ایک عمل ہے اسی طرح پڑھنا دوسرا عمل ہے۔ جس قدر ذمہ داری لکھنے والے پر عائد ہوتی ہے اس سے کم پڑھنے والے پر عائد نہیں ہوتی۔ اگر قاری خطابت پڑھنا چاہتا ہے تو لامحالہ وہ کسی مشترکہ آواز کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے اور اگر قاری خطابت سے نالاں ہوچکاہے تو ضرور اسے اپنے اندرون ِ ذات کے مسائل درپیش ہیں اور وہ انفرادیت میں کھو کر ڈوبتاچلاجارہاہے۔
قاری کے لیے لکھنا بائیسڈ ہے تو اپنے لیے لکھنا خود غرضی۔ بائیسڈ ہونا منطقی اعتبار سے غلط ہے تو خود غرض ہونا اس سے بھی زیادہ غلط ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے ہی نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ قاری آزاد متغیر قوت ہے یا لکھاری علی ھذالقیاس اس کے برعکس بھی دیکھا جائے گا۔ اگر قاری لکھواتاہے تو قاری آزاد اور اگر لکھاری پڑھواتاہے تو لکھاری آزاد قوت ہوگا جبکہ دوسرا اس کی تابع قوت۔ لیکن اس قضیے کا حل پھر اسی "نئے سفر” سے شروع ہوتا ہے کہ” کسی قوم کے معاشی حالات اس کی آزادی کا تعین کرتے اور اس کی آزادی یا غلامی اس کے لکھاریوں اور قاریوں کے مقامات کو متعین کرتی ہے”۔