کنیز یا لونڈی دراصل کیا ہے؟
کنیز یا لونڈی دراصل کیا ہے؟
28 مئی 2020
طاہر بشارت صاحب کی پوسٹ، ’’کنیز یا لونڈی دراصل کیا ہے؟‘‘ پر سانول عباسی صاحب کا کمنٹ۔ حیران کُن اور چشم کُشا۔
’’ قبلہ خاکسار کی رائے میں اسلام میں لونڈی سماجی خدمتگار کے علاوہ کچھ بھی نہیں اسلام نے لونڈیوں کو وہ تمام انسانی و سماجی حقوق دئے ہیں جو ایک انسان کا حق اس کی عزت نفس اس کا سماجی مقام بلند سے بلند کرنا اور اسے ایک بہترین انسان بنانے کے لئے بہت سے احکام ہیں جیسے ان پہ خدا نہ بن جاو ان سے بدکاری نہ کرواو انکے آپس میں نکاح کر دو آزاد عورتوں کی جگہ ان سے بھی نکاح کر لو اور جو آزاد ہونا چاہیں تو انہیں زبردستی روکے نہ رکھو بلکہ ان کی آزاد ہونے میں مدد کرو اور نہ تو انہیں سیکس ورکر کے طور پہ مجبور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی خود بغیر نکاح کے اس سے مباشرت حلال ہے بلکہ لونڈیوں کے نکاح کر دینے کی طرف حکم ہے۔
قرآن کی رو سے لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ بچوں کی طرح برتاو کرنے زور دیا گیا ہے یعنی اپنے جیسے نان نفقہ اور سماجی حوالے سے انکے گھر بسانا اور انکے حقوق کا تحفظ کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغیر نکاح کے کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ تاریخ میں ایک ذکر ریحانہ نام کی ایک عورت کا آتا ہے جو لونڈی تھیں اور یہودی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکاح کی پیشکش کی تھی مگر اس نے انکار کر دیا کچھ غیر مستند روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے کچھ عرصے بعد نکاح کر لیا مگر اس نکاح پہ اجماع نہیں اس کی نسبت اس بات پہ اجماع ہے کہ نکاح نہیں ہوا
باقی اگر ہوا بھی یا نہیں بھی اس میں جو نقطہ ہے وہ نکاح کی پیشکش ہے جس سے تعلق بغیر نکاح کے حلال ہو اسے نکاح کی پیشکش کس لئے۔
باقی اگر بغیر نکاح کے لونڈی سے تعلق حلال ہو تو نکاح کی پیشکش کس لئے یعنی یہ قرآن میں تضاد ہو جائے گا کہ ایک طرف تو نکاح کا حکم اور دوسری طرف بغیر نکاح کے حلال اور تعدد کی بھی پروا نہیں کس قدر غیر انسانی ہو گا انہیں بدکاری پہ مجبور نہ یہ کیوں کہا پھر جب ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں مالک کا جب دل چاہے انہیں استعمال میں لائے تو کیوں بدکاری کی ممانعت کر دی اور انکے نکاح کروانے پہ زور دیا۔‘‘
(سانول عباسی)
ادریس آزاد صاحب نے جب یہ پوسٹ اپنے پیج پر اپ لوڈ کی تو مندرجہ کمنٹس آئے:
توقیر عباس: ادریس بھائی آپ جیسے پڑھے لکھے عالم ادمی صرف لکھے کو درست مان لین تو حیرت ہوتی ہوتی ہے . لونڈی کے لیے احکام بے شک اور ہیں لیکن اعمال جو تاریخ میں درج ہیں وہ اور ہیں . ایک ایک مسلم شاہ کے حرم میں سیکڑوں باندیان تھیں اور سب سے نکاح نہیں ہو سکتا تھا لیکن ان سے اولادیں تھیں
ادریس آزاد: میں جانتا ہوں توقیر بھائی۔ آپ کے الفاظ پر دہرا غور کرنا پڑتاہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ نے کس کو شاہ کہا۔ میں نے انہی سے ندامت کا ذکر کیا۔
عذرا بتول: قرآن مجید کی کسی بھی آیت کی کوئی تشریح کرناچاہے تو لوگ اس کے پیچھے یہ کہہ کر لگ جاتے ہیں کہ اس کی دلیل لاؤ ۔ کسی کاحوالہ دو ، اور اس سے پوچھا جاتا ہےکہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں عالم یا مفسر غلط تھے۔ تو میں اس بات پر سوال کرنا چاہوں گی کہ آپ کےپاس کیا ثبوت ہےکہ وہ سب ٹھیک تھے ۔ دلیل تو ان کے پاس بھی کوئی نہیں ہے ۔ ہم کسی کو قرآن پر ریسرچ کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتےجبکہ قرآن خود دعوت دیتا ہے اس بات کی ۔ ٹیکنالوجی اور شعور کے بڑھنے سے انسان کا رہن سہن ہر دور کے ساتھ بدل جاتا ہےاسلام کو اسیلئےفرسودہ تصور کیا جانےلگا ہے کہ اس کےٹھیکے دار اسے ایوالو نہیں ہونے دے رہے۔
قرآن کی آیتوں کو سمجھنے کی بجا ہم انسانی فہم کو ذیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔
کیا قرآن مکمل طور پر سمجھ لیا جا چکا ہے ، جو گزر گئے وہی قرآن کوسمجھتے تھے ہم نہ اسکی تشریح کا حق رکھتے ہیں اور نہ اسے سمجھ سکتے ہیں؟/؟ ۔ حالانکہ ہر دور میں علما کو چائیے کہ وہ مل بیٹھ کر اسلام کو نئے دور کے مطابق وسعت دیں
سانول عباسی: قرآن کی دلیل قرآن خود ہے قرآن نہ تو کوئی فہم قبول کرتا ہے اور نہ ہی کسی کو چالاکی دکھانے دیتا ہے بلکہ قرآن فہم عطا کرتا ہے اور اس کا فہم یونیورسل ہے کسی کو کچھ خاص نہیں ہاں جو جتنا اپنے پیمانے کو بھرنا چاہے
باقی قرآن کو بنیاد بنا کے کسی بھی بات کو پرکھیں تو بات کھل کے سامنے ا جاتی ہے۔ہم بہت سی مجبوریوں سے بندھے ہوئے ہیں اور بہت سے اجنبی خیالات کو قرآن پہ منطبق کرنا چاہتے ہیں جو کبھی نہیں ہو سکتے تو یہ خدا کا طریقہ ہے کہایسے لوگوں سے حق بات کہلواتا ہے جو نام نہاد دینداروں کی نظر میں منکر ہوتے ہیں جیسے یہود و عیسائیوں کے مقابلے میں اہل مکہ
حضرت موسی علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان زمانی اعتبار سے کتنا عرصہ تھا اور جو جو قباحتیں یہود میں در آئی تھیں انہیں خدا نے کھول کھول کر قرآن میں بیان کر دیا ہے اور قیامت تک کے لئے محفوظ ہے اور اس کے علاوہ جب اللہ کے رسول انہیں کہتے کہ خالص اللہ کے دین پہ آ جاو تو ان کا جواب ہوتا ہمارے پاس تو ایسا نہیں تو اللہ تعالی نے قرآن میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ان سے کہین کہ وہ شہادت لائیں جس میں اللہ نے یہ احکام اتارے ہیں پھر وہ بغلیں جھانکنے لگتے یا جیسے ہی انہیں اللہ کی آیات پیش کی جاتیں تو اپنے آباواجداد کی کہانیاں بیان کرنے لگتے بحث برائے اٹکل پچو اللہ کے دین کے ساتھ مذاق اوپر کمنٹ دیکھئے اور ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ تاریخی حوالہ جات کو بنیاد بنا کے کیا دین اسلام کی عمارت کھڑی ہو سکتی ایک اسلامی سماج کی بنیاد پڑ سکتی ہے جس میں انسان میں اعلی اخلاقی اقدار پنپ سکیں اگر ان حوالہ جات کو بنیاد مان کر دیکھیں تو ایک جنس زدہ معاشرہ سامنے آتا ہے جس میں انسانیت دور دور تک نہیں ہر انسان ہوس کا دلدادہ اپنی جنسی تسکین کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور یہ سب کار ثواب ہے 4 نکاح انگنت لونڈیاں وی بھی سینے چھلکاتی ہوئی جن کا سینہ کبھی کبھار ڈھکا ہوتا تو اہل اقتدار انکے کپڑے یہ کہہ کر پھاڑ دیتے کہ غلیظ عورت آزاد عورت کی طرح بودوباش اپنا لی ہے اس کے بعد رہی سہی کسی متعہ نکال دیتا ہے تاریخی حوالے دیکھیں تو انگشت بدنداں آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کہ ہمارے آباواجداد کو جیسے کوئی کام ہی نہیں تھا باقی کیا رہ جاتا ہے باقی کچھ بھی تو نہیں
اور پھر اس پہ یہ باتین بھی کہ اسلام اعلی اخلاقی اقدار کا نمونہ ہے وہ کونسی اعلی اخلاقی اقدار ہیں پھر جو سماج میں رائج تھیں۔کچھ بھی نہیں ایسا کچھ بھی نہیں تھا عرب سماج کو بدلتے بدلتے وقت ضرور لگا مگر اسلام نے ایسی کسی بےحیائی کے ارتکاب کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی سماج میں انفارمیشن کا پھیلاو ذرائع نشریات کے محدود ہونے کی وجہ سے وقت لے گیا مگر اللہ کا دین ایسی باتوں سے پاک ہے قرآن میں آج بھی حق واضح ہے تاریخی پس منظر صرف وہی سچ ہے جو حق ہے باقی سب کہانیاں ہیں زیب داستاں کے لئے
استاد محترم قبلہ بات کیجئے ن۔قرآن کا جو حوالہ خاکسار نے دیا کیا اسے ٹمپرڈ کہہ کے رد کیا جا سکتا ہے کیا نہیں جس مرضی عالم کا ترجمہ لے آئیں بلکہ خود سیکھیں عربی اور دیکھیں قرآن کس طرح حق واضح کرتا ہے اور ہمارے آباواجداد کے دامنوں پہ لگے دھبے کیسے صاف کرت ہے۔ایک سوال ہے کہ ایک جنس زدہ سماج میں کیا کوئی ایسا سورما پیدا ہو سکتے ہیں جو دنیا پہ راج کریں اور اللہ کے دین کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں ہرگز نہیں ہرگز نہیں
ادریس آزاد: سبحان للہ۔ کتنا قیمتی پارچہ ہے سئیں! میں آپ کی تمام تحریرات اس موضوع پر جمع کرکے ایک آرٹیکل بنا کر آپ کو پیش کرونگا۔ انشااللہ
سانول عباسی: اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے آباو اجداد خدانخواستہ کچھ غلط کرتے رہے بلکہ یہ ہے کہ ان سے منسوب یہ فسانے غلط ہیں وہ ہرگز ہرگز ایسے نہیں ہو سکتے اور انسانی تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو فی زمانہ ایسے کردار مل جاتے ہیں جو حقیقت کو مسخ کرتے نظر آتے ہیں۔دور جانے کی صرورت نہیں آج کے اپنے سماج کو دیکھ لیجئے اتنا ترقی یافتہ ہونے کے باوجود بھی کسی خوبصورتی سے افواہوں کو حقیقت بنایا جاتا ہے اور حقیقت افسانوی کہانیوں میں گم ہو جاتی ہے
حسیب سعید: س طرح کے اعتراضات کرنے والے حضرات کے یہ الفاظ کہ انسانی غلامی کا خاتمہ ابراہم لنکن نے کیا یا یورپ نے اس غلامی سے انسانیت کی جان چھڑوائی وغیرہ وغیرہ نہ صرف خلافِ عقل باتیں ہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہیں۔ چند روز قبل میری نظر سے ایسی ہی ایک پوسٹ گزری تھی ایک صاحب نے اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ یہ کیسا مذہب ہے جس میں لونڈی یا غلام رکھنے کی اجازت ہے۔ کمنٹ میں محترم نے لکھا کہ انسانی غلامی کا خاتمہ کرنے والی شخصیت ابراہم لنکن ہے۔ ظاہر ہے کہ محترم کا مطالعہ اسلام پر کچھ ایسا ویسا ہی تھا جو ایسی بے بنیاد بات کر دی۔ سر! میں جب ایسے اعتراضات سنتا یا پڑھتا ہوں تو ان صاحبان کی عقل پر تعجب ہوتا ہے اور ان کی انتہا پسندی پر افسوس ہوتا ہے۔ یہ لوگ بانی اسلام جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو کیوں اپنے سامنے نہیں رکھتے، ” تم میں سے کوئی ‘میرا غلام’ یا ‘میری باندی’ نہ کہے اور نہ غلام ‘میرا رب’ کہے۔ مالک کو ‘میرے بچے’ ‘میری بچی’ کہنا چاہیے۔” اور مزید حکم دیتے ہیں، ”تمہارے بھائی تمہارے خدمت گار ہیں،اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کردیا ہے ،پس جس شخص کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہیے کہ جو چیز خود کھائے ،اسی میں سے اسے بھی کھلائے اور جو پوشاک خود پہنے ویساہی اسے بھی پہنائے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کام لیاجائے توپھر ان کی مددکردیا کرو۔”۔ اور یہ باتیں محض لفظی نہیں تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے ماننے والوں نے ان باتوں پر دل و جان سے عمل بھی کیا۔ اب ذرا معترضین قبل از اسلام کی تاریخِ غلامی پر نظر ڈالیں۔ غلامی کی ایسی ابتر اور بھیانک تاریخ ہے کہ پڑھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ غلاموں پر ظلم و جبر کرنے کیلئے خاص قسم کے آلات بنائے جاتے تھے جنہیں آج بھی تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کر رکھا ہے۔ اچھا وہ تو بہت دیرینہ ماضی تھا اسے نظر کرتے ہیں۔ Boer War کے دوران جب ایک انگریز فوجی افسر کو عورتوں اور بچوں (جنہں غلام بنایا گیا تھا) نے آگ لگا کر جلا دیا تو اس پر ان غلاموں کی آہ و بکا سننے کی بجائے سوائن برن Swinburne نے لکھا،
Nor heed we more than he what liars dare say
Of mercy’s holiest duties left undone
Toward whelps and dams of murderous foes
Whom none
Save we have spared and feared to starve and slave
دشمنوں کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر ان کیلئے whelps and dams کے الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو نسلِ انسانی کے حقوق کے علمبردار ہونے کے دعویدار اور ٹھیکیدار ہیں۔
سعید سادھو: حضور شعر کو ادبی حلقوں کی تنقید میں مسلمان کرنا سنا تھا۔آپ نے تو ایک پوری روایت کو کلمہ پڑھوانے کی کوشش کی ہے۔کہاں کہاں سے لونڈی سے جنسی تعلقات کو باطل قرار دیں گے۔کس کس روایت حدیث اور آیت کو اپنی مرضی سے بدلیں گے۔بس یہ قبول کر لیں کہ یہ ایک تہذیبی یا ثقافتی روایت تھی جسے ختم کرنا مذہب کے بس میں نہیں رہا اور آج آپ اسے غلط کہہ کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ تہذیب یا ثقافت کی جن شقوں کو مذہب ایڈریس نہیں کر سکتا تہذیبی شعور خود ہی اس کو ریکٹیفائے کر لیتا ہے۔ہاں اگر مذہب میں اجتہاد کا در وا ہو جائے تو ہم بہت سہولت سے دیگر خطوں کے مقابل پر امن، علم دوست بن کر سامنے آ سکتے ہیں
(یہ کمنٹس ادریس آزاد صاحب کے پیج سےنقل کئے گئے ہیں)