اشعری فلسفیوں کا نظریہ جواہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
اشعری فلسفیوں کا نظریہ جواہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
21 جنوری 2020
اشیا فقط ایک لمحۂ زمانی میں ایک نقطۂ مکانی پر وجود میں آتی اور پھر فنا ہوجاتی ہیں۔ جب ہم کسی شئے کو ایک دورانیے (Time Duration) میں دیکھتے ہیں تو دراصل اس دورانیے کے ہرلمحے میں اس شئے کی نئی نقل وارد ہوئی ہوتی ہے نہ کہ پچھلے لمحے والی نقل۔ جیسے مکان کے نقطوں کی بہت سی نقلیں ایک ساتھ جوڑنے سے لائن بنتی ہے اور بہت سی لائنیں ایک دوسرے کے ساتھ متوازی جوڑدینے سے سطح بنتی اور بہت سی سطحیں ایک دوسرے کے ساتھ متوازی جوڑدینے سے تھری ڈی کی چیز وجود میں آتی ہے بالکل ایسے ہی تھری ڈی کی چیز کی بہت ساری نقول کو ایک ساتھ جوڑدینے سے ٹائم وجود میں آتاہے۔ لیکن ہمیں تھری ڈی کی شئے کی فقط ایک نقل نظرآتی رہتی ہے نہ کہ نقطوں، لائنوں یا سطحوں کی نقلوں کی طرح ساری تھری ڈی کی نقلیں ایک ساتھ نظر آتیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم بھی اسی لمحے اور نقطے میں آگے آگئے ہیں جہاں وہ شئے آچکی ہے۔ ہم اگر واپس پچھلے لمحوں میں لوٹ جائیں تو اس شئے کی سابقہ نقول ہمیں نظرآسکتی ہیں۔
حیرت ہوتی ہے کہ سٹرنگ تھیوری اورکوانٹم لُوپ گریوٹی کے بعض خیالات ایک ہزار سال پرانے اشعری فلسفیوں کے خیالات کے ساتھ بہت قریب کی مماثلت رکھتےہیں۔
اشعریوں کے نزدیک ٹائم بھی سپیس کی طرح ڈِسکریٹ یعنی چھوٹے چھوٹے باریک ٹکڑوں میں تقسیم کی جاسکنے والی چیز ہے۔ ٹائم کے ان باریک ٹکڑوں کو لمحہ کہاجاتاہے۔ ایک لمحہ بہت ہی باریک ہوتاہے۔ اتنا باریک کہ جتنا باریک (فرض کریں) پلانکیَن ٹائم ہے۔
اشعریوں کے نزدیک ٹائم کے یہ باریک سلائسز، ٹکڑے، جوہر یا کچھ بھی نام دیں، یہ لمحے مسلسل نہیں ہیں جیسا کہ قدیم یونانی فلسفی زینو نے سمجھ لیا تھا بلکہ یہ منفصل ہیں یعنی ان میں فاصلہ ہے۔ تو وہ فاصلہ کیا چیز ہے؟ مثلاً ٹائم کا ایک لمحہ ہے اورپھر اس کے بعد ایک اور لمحہ ہے تو درمیان میں جہاں کوئی لمحہ نہیں ہے وہاں کیا ہے؟
اشعری کہتے ہیں کہ ٹائم کے دو جواہر کے درمیان خالی جگہ ہے جہاں ٹائم نہیں ہے۔ ہم جب کہتے ہیں ’’اب‘‘ یا ’’ناؤ‘‘ تو ہم ٹائم کے فقط ایک جوہر کا ذکرکررہے ہوتے ہیں جسے ہم اپنے تجربے میں لارہے ہیں۔ ہمارے علم اور تجربے میں ٹائم کا فقط ’’ناؤ‘‘ والا لمحہ (ایٹم) ہی کیوں آتاہے؟ کیونکہ دو ناؤ والے ٹائم پارٹیکلوں کے درمیان خالی جگہ ہے جہاں ٹائم کا کوئی لمحہ(ٹائم پارٹیکل) نہیں ہوتا اور ہم بھی وہاں نہیں ہوتے۔ اگر ہم ٹائم کی اس خالی جگہ پر موجود ہوتے تو ہمیں ناؤ کے علاوہ باقی لمحاتِ زمانی کا بھی اسی طرح ادارک ہوتا جیسے کہ ’’ناؤ‘‘ یا ’’اب‘‘ کا ہوتاہے۔
اشعریوں کے نزدیک ٹائم کے دو ’’اب‘‘ والے لمحوں کے درمیان خالی جگہ والے لمحے میں ہم کہاں ہوتےہیں؟ ہم کہیں بھی نہیں ہوتے کیونکہ ہم نہیں ہوتے۔ ہم، یعنی ایک مادی ذرّہ ٹائم کے فقط ایک لمحے اور مکان کے فقط ایک نقطے پر ہی موجود ہوسکتاہے۔
اشعریوں کے نزدیک مکان کے بھی جواہر ہیں۔ مکان کے سلائسز، ٹکڑے، ایٹم یاجواہر بھی بہت ہی زیادہ باریک ہیں اور وہ بھی مسلسل نہیں ہیں جیسا کہ زینو نے سمجھ لیا تھا۔ مکان (سپیس) کے جواہر بھی منفصل ہیں اور مکان(سپیس) کے دوجواہر کے درمیان جگہ خالی ہے جہاں مکان کا کوئی جوہر نہیں ہے۔ چنانچہ جس وقت ہم نہیں ہوتے تو ہم صرف زمان کے خالی لمحے میں ہی غائب نہیں ہوتے بلکہ مکان کے خالی نقطے سے بھی غائب ہوجاتے ہیں۔ دراصل نہ اس وقت مکان کا کوئی نقطہ ہوتاہے اور نہ زمانے کا کوئی لمحہ ہوتاہے اور نہ ہی ہم ہوتے ہیں یعنی کوئی بھی شئے۔
توپھر یہ کیسی عجیب و غریب تھیوری ہے؟ نہیں یہ عجیب و غریب تھیوری نہیں ہے بلکہ بہت ہی منطقی اور عہدِ حاضر کی سائنس کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوئی تھیوری ہے۔ یہ ایگزیکٹلی کوانٹم لُوپ گریوٹی کی جدید ترین تھیوری کے ساتھ انیس بیس کے فرق پرموجود ہے۔ (کوانٹم لوپ گریوٹی پر الگ مضمون لکھناہے)۔
دراصل اشعاعرہ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت ہم اس لیے موجود نہیں ہوتے کیونکہ ہم ہرلمحے میں نئے سِرے سے پیدا ہوتے ہیں۔ پچھلے لمحے والے ’’ہم‘‘ غائب اس لیےہوگئے کیونکہ ہم اب نئے والے ’’ہم‘‘ ہیں۔
ہم، یعنی تھری ڈی کی کسی چیز کی حقیقت ماسوائے اس کے کیا ہے کہ وہ سپیسٹائم کے ’’نقطمحوں (point-moment) پر بے شمارنقول کی صورت ایک ترتیب سے ظاہرہوتی ہے۔ ایک ایسی ترتیب جسے ہم کازیلٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ اشعری کہتے ہیں حقیقت نام ہے جواہر ِ زمانی ومکانی کے پاپ اِن ، پاپ آؤٹ ہونے کا۔ وہ مسلسل پیدا ہورہے ہیں اور مررہےہیں۔ سٹرنگ تھیوری اور کوانٹم لوپ گریوٹی بھی اسی قسم کی بات کرتےہیں۔
ادریس آزاد