مسئلہ تقدیر و اختیار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
مسئلہ تقدیر و اختیار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
11 اپریل 2020
جہاں تک تقدیر اور اختیار کے مسئلہ کا تعلق ہے تو تقدیر کے حق میں ہمیشہ سے زیادہ وزنی دلائل موجود رہے ہیں۔ خاص طور پر انسان اس دنیا میں اپنے آنے اور جانے پر قادر نہیں تو درمیانی مدت پر کیسے قادر ہوسکتا ہے۔
جیسے خواب میں ہم نہیں جان سکتے کہ ہم ایک خاص ماحول میں کہاں سے نمودار ہوگئے، ہم بیداری میں بھی اپنے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ ہم یہاں، اِس دنیا میں کیسے اور کیونکر نمودار ہوگئے۔ ہمیں بس کسی کی گواہی پر یقین کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اور پھر وہ ماحول جو ہمیں ملا، وہ ہماری مرضی کے مطابق نہیں تھا تو ہم کیونکر اس میں اپنے لیے کوئی مناسب راہ منتخب کرپاتے۔
جہاں تک انسانی فیصلے کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ظاہری حیات میں انسان کا کوئی بھی فیصلہ ماورائے فطرت نہیں ہوتا، بایں ہمہ متعین اور غیر اختیاری ہوتا ہے۔ اوراتنی قدرت تو جانوروں کو بھی حاصل ہے۔ ایک ہرن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ فُلاں راستے سے نہیں جانا کیونکہ راستے میں درندہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اُس کا یہ فیصلہ بھی بعینہ غیر اختیاری ہے جیسا کہ اُس انسان کا جس نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں یہ کہنا کہ وہ اُس کا انتخاب تھا ماحول کے مشاہدے سے غیر منطقی معلوم ہوتاہے۔
لیکن پھر انسان کا اختیار ثابت ہوتا ہے تو اس امر سے کہ ابھی تک انسان سے بڑھ کر بااختیار ہستی لباس ِ مجاز میں کہیں بھی نظر نہیں آئی۔لباس ِ مجاز میں تو صرف انسان ہی ہے جو اپنے پہلے سے متعین شدہ فیصلوں کا بھی ادراک رکھتا ہے، وجہ اور جواز جانتا ہے۔
دیکھنا پڑیگا کہ اُمید کی نفسیاتی ماہیت کیا ہے؟ اگر یہ بھی بدن میں ہونے والے کیمیکل ری ایکشن کا نتیجہ ہے تو پھر کائنات کے میکانکی ہونے میں شبہ کی گنجائش نہیں۔ لیکن اگر اُمید کے پس پردہ کوئی غیر مادی عنصر کارفرما ہے تو پھر یقیناً وہی غیر مادی عنصر منبع ِ اختیار ہے۔ دعا جس گہرائی اورگیرائی کا تقاضا کرتی ہے وہ اُمید کی شدت کا پیمانہ ہے۔ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ اُمید ہی وہ معمار ازلی ہے جس نے انسانی تہذیبی کی اتنی بڑی عمارت کھڑی کردی۔ کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ اس اُمید نے کسی خوف کی گود میں جنم لیا اور خوف کی جڑ ہمیشہ مادی ہوتی ہے، فلہٰذا اُمید خالصتاً مادی عنصر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر کیوں نہ کہا جائے کہ مادی دنیا کو چلانے والی قوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اِس لحاظ سے فطرت (نیچر) ، بذاتِ خود اس اختیار ِ شخصی کی خالق اور ذمہ دار ہے۔
یونہی سہی! مگر تہذیب کی اتنی بڑی عمارت اور اخلاقیات کا اتنا عظیم نظام تخلیق کرنے والی یہ مخلوق انسان کیسی خودکار ہے کہ اپنے "شوقِ تکمیل ِ ذات” کو "خدا” اور جب تک خدا نہیں مل پاتا تب تک خود کو اُس کا نائب مان کر کاروبار دنیا کو لے دوڑنے کا زعم اپنے فانی تن و توش میں بصد شوق لیے لیے پھرتی ہے۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ فطرت ہمارا انتخاب کرتی ہے کہ ہم اُس کا واپس انتخاب کریں۔
ادریس آزاد