ارتقا کا مطلب ہرگز ترقی نہیں۔۔۔۔ادریس آزاد
(یہ مضمون 22 مئی 2018 کو مضامین ڈاٹ کام پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ مضامین ڈاٹ کام کے شکریہ کے ساتھ یہا ں شائع کیا جا رہا ہے)
یہ بات ہی غلط ہے کہ دنیا نے کوئی ترقی کی۔ سکندراعظم ہو یا ڈونلڈ ٹرمپ تاریخ کے ہردور میں صرف طاقتور نے اندھا دُھند اپنی منوائی ہے۔ دیکھنے کو یہ جو آئن سٹائن جیسے سائنسدان اور بڑے بڑے فلسفی ماضی کے علوم اور ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ترقی کرگئے ہیں، یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ انسان چھ ارب ہیں۔ زمین پر انسان جیتے ہیں۔ یہ فلسفی اور سائنسدان اُس وقت سکندر کی بغل میں بیٹھتے تھے اور آج سب مل کر آج کے طاقتوروں کی طاقت میں اضافے کے مراقبوں کو جدید فلسفیانہ اور سائنسی اکتشافات کا نام دیتے ہیں۔ امریکہ جس نے سب سے پہلے ایٹم بم بنایا آئن سٹائن کے افکار کی وجہ سے ایٹم بم بناسکنے کے قابل ہوا۔ اور اس نے تو بم گِرایا بھی۔ ہم سمیت باقی سب نے تو بنایا اور پھر چھپاتے پھرے۔لیکن امریکہ نے تو بنایا بھی اور پھاڑا بھی۔ پھر بھی وہ امن کا سب سے بڑا نمائندہ ٹھہرا۔ ساری تاریخ ایسے ہی بدمعاشوں کی بدمعاشیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہٹلر کو طاقت کا بخار چڑھا تو اس وقت کی تمام تر جرمن دانش، فلسفہ اور سائنس ہٹلر کے جنونی سپنے کو تعبیر دینے میں جُت گئی۔ تاریخ کا کوئی عہد ہو۔ ظالم ہمیشہ پہلے سے بڑھا۔ علم و عقل نے پہلے سے بڑھ کر قاتلوں کی مدد کی۔ عدل و انصاف ہمیشہ پہلے سے زیادہ پامال ہوا۔ غرض دنیا بتدریج زوال پذیر ہوتی گئی اور ارتقا کے نام پر ایک مسلسل انحطاط جاری رہا۔
سوال یہ ہے کہ دنیا تو چھ بلین انسانوں کے دم سے دنیا کہلاتی ہے۔ چار پانچ فلسفی یا سائنسدان جو بڑے سپیشل ہوتے ہیں، وہ ایلیئنز ہیں، عوام تو ایلیئنز نہیں ہوسکتے۔ یہ زمین عوام کی ہے۔ عوام کے ہیں یہ سارے چشمے، ساری ندیاں، سارے دریا اور سب جنگل۔ عوام چھ ارب ہے۔ عوام رشتے بناتے اور رشتوں میں رہتے ہیں۔ وہ لڑتے جھگڑتے، پیار کرتے، روتے ہنستے، کھیلتے، مرتے اور جیتے ہیں۔ ان کی سوچ اصل فلسفہ ہے۔ اُن کی فکر اصل فکر ہے۔ یہ ان پڑھ جاہل، بے عقل، بازاری، دوٹکے کے مزدور اور بدزبان قسم کے کلینر، ڈرائیور، پُلسیے، اُچکے، ٹھیلے والے، رکشے والے، پان فروش، گلی کی نکڑ پر بیٹھ کر مُوتنےاور چوک میں ریڑھی پر کھڑے ہوکر دہی بھلے کھانے والے عوام۔ یہ لوگ ہیں۔ انہی کو لوگ کہا جاتاہے۔ لوگ جو سوچیں گے، وہ کہلانا چاہیے فلسفہ۔ لوگ جو بولیں گے وہ کہلانا چاہیے نظریہ۔ لوگ جو دل سے پسند کریں وہ کہلانا چاہیے اچھائی۔ لوگ جو دل میں برا جانیں وہ کہلانا چاہیے بُرائی۔ لوگوں کا فلسفہ اور لوگوں کی سائنس کو کتابوں میں ہونا چاہیے تھا۔
بادشاہوں کے ادوار میں یہی لوگ اُن چند ایلیئنز کے لیے جیتے اور مرتے رہے۔ آج بھی بادشاہوں کے لیے یہی عام لوگ جیتے اور مرتے اور پہلے سے زیادہ مرتے ہیں۔ کہاں ہے وہ ترقی جو اکیس صدیوں میں مسلسل اور مختلف بیانیوں کا حصہ رہی ہے۔ یہاں تو انحطاط اور زوال کی ایک المناک داستان بکھری ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس کے عقلمند کبھی ارسطو بن کر سکندر کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں کہ جاؤ! شریف اور پُرسکون ہندوستان کو لُوٹ لاؤ! اور کبھی آئن سٹائن بن کر روزویلٹ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’جرمنی سے پہلے ایٹم بم بنالو، ورنہ اگر ہٹلر نے بنالیا تو وہ دنیا کو تباہ کردے گا‘‘۔ ایک ظلم کی ایسی خون آشام داستان کہ جس کے ایک ایک صفحے پر کربلا بچھے ہیں۔
کس نے ترقی کی؟ بیانیوں سے باہر کہیں کوئی ترقی نظر آتی ہے تو دکھائیے۔ کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ برصغیر میں سندھ کی امن پسند اور جنگوں کے نام سے ناآشنا وادیوں کے زمانہ سے ہندوستان میں ویدوں کے زمانۂ عروج تک کا فکری اثاثہ ایک طرف جبکہ یونان سے شروع ہونے والی نئی قسم کی عقل جسے بعد میں فلسفہ کہا گیا اور جس نے ہمیشہ طاقتور ظالم بادشاہوں کی طاقت میں اضافے کے لیے خود کو بے دریغ صرف کیا، سیارہ زمین پر آگ اور خون سے تاریخ بنانے کا دور ہے۔ عقل نے قاتلوں کی خدمت کی۔ عوام نے دل کی مانی اور اُن کے دلوں نے کبھی کسی نعرے پر تو کبھی کسی نعرے پر لبیک کہا۔ دل کا یہ مسئلہ ہوتاہے کہ اس کے پاس دماغ نہیں ہوتا۔
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ مُلا نہ حکیم
اقبال
اگرچہ اس تاریخ میں ایسے ادوار بھی آئے جب ایسے دلوں نے دھڑکنا سیکھا اور سِکھایا جو صاحبِ ادراک بھی ہوا کرتے تھے۔
زمانہ عقل کو سمجھا ہے رہنما اپنا
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
اقبال
اور ایسے دلوں نے گاہے بگاہے اندھے اور پاگل ہاتھیوں کی غلامی کرتی عقلوں کی رہنمائی کا اہتمام بھی کیا لیکن دنیا پر جو قابض تھے وہ قابض ہی رہے اور آج تک قابض ہیں۔ ایسے دلداروں کو اگران کے چاہنے والوں کی طرف سے بھلایا نہ جاسکا تو ان کے بعد ان کی یادوں کو ہی اس بیوپار کی اجناس بنادیا گیاجس کا کام فساد فی الارض اور مسلسل فساد فی الارض تھا۔
یہ بات غلط ہے کہ دنیا میں علوم و فنون نے کوئی ترقی کی۔ سائنس نے کوئی راز کھولے۔ کائنات کے کچھ پردے سِرکے۔ فلسفہ و حکمت اور ٹیکنالوجی نے بیماروں کو شفا دی اور انسانیت کو تہذیبی عروج تک پہنچا دیا۔ یہ بات سراسر غلط ہے۔ اس کے بالکل برعکس تمام تر باتیں درست ہیں کہ انسانوں نے بتدریج زوال دیکھا۔ اخلاقی اقدار سے نکل آئے تو دوسرے ملکوں پر چڑھ دوڑنا خرگوش کے شکار جیسا کام بن کر رہ گیا۔ ’’تم نے میرا پانی کیوں گندا کیا‘‘ کی کہانی بھیڑیے اور بھیڑ کے بچے سے ترقی کرکے ٹرمپ اور فلسطین تک جاپہنچی۔ دنیا نے ہمیشہ قاتل دیکھے اور مقتولوں نے کبھی بھی اپنی جانوں کی زکواتیں دینے سے دریغ نہ کیا۔
سب فلسفہ و فن قاتلوں کا زرخرید غلام رہا اور آج تک ہے۔ ضرورت ہے تو ایسے فلسفوں کی جو چھ ارب انسانوں نے تخلیق کیے ہوں۔ وہ فلسفے روایات ہیں اور ان کے پختہ عقائد جن کی بنیاد پر وہ اپنی معاشرتی زندگی کا ایک ایک پل جیتے ہیں۔ وہ فلسفے جذبات کے قضیات پر مقدمات قائم کرتے اور آنسؤوں کی شہادت پر قدم اُٹھاتے ہیں۔ وہ فلسفے عظیم انسانی اجتماع کی اجتماعی رُوح سے برآمد ہوتے اور آسمانی صحائف کی شکل اختیار کرکے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔ وہ عقل و خرد کے کرشمے نہیں کہ عقل گمانوں اور بے یقینیوں کا گھر ہے۔ وہ فلسفے دلوں سے نمودار ہوتے ہیں جو یقین اور صرف یقین کا گھر ہے۔
الغرض یہ جو کہا جاتاہے کہ انسان نے ارتقأ کیا، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان نے ترقی کی۔ ارتقا کیا، سے مُراد ایک بیالوجیکل حقیقت کی طرف اشارہ ہوتاہے نہ کہ اخلاقی بہتری کی طرف۔ اخلاقی بہتری کا عمل سائنس کی ذمہ داری ہی نہ تھی اور نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ اخلاقی بہتری کا براہِ راست تعلق دلوں کی بہتری سے تھا۔ اور دلوں کی بہتری ہی عمل کی بہتری کی ضمانت تھی۔ یادرہے کہ ’’جہنم کی آگ وہ آگ ہے جو دلوں کو چھُو لے گی۔‘‘