علامہ اقبال کا تصوف – ادریس آزاد
علامہ اقبال کا تصوف – ادریس آزاد
2 اکتوبر 2017 (یہ مضمون "دلیل ” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ دلیل کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)
یہ جو ہم عموماً کہتے ہیں کہ اقبال نے عجمی تصوف کو اسلامی تصوف سے الگ کیا اور دونوں کی الگ الگ تشریحات پیش کرکے اوّل الذکر کو قوم اور فرد کے لیے یکساں قاتل اور ثانی الذکر کو حیات بخش قوت قرار دیا تو اس بات کا اصل مفہوم کیا ہے؟
ہم، جو عام لوگ ہیں اور تصوف کی گہری باتوں کو مطلقاً نہیں سمجھ پاتے، ہمارے لیے اقبال کی اس تحقیق کے نتائج کو کماحقہُ سمجھنا کیونکر ممکن ہے؟
واقعہ یوں ہے کہ جب اقبال نے حافظ ِشیراز اور ابن عربی کو تنقید کا نشانہ بنایا تو پہلی بار یہ قضیہ لوگوں کے سامنے آیا کہ عملی طور پر اور اجتماعی نتائج کے اعتبار سے تصوف کی کم ازکم دو بڑی قسمیں ہیں:
نمبر1۔ عجمی تصوف
نمبر2۔ اسلامی تصوف
اقبال نے اپنی بقیہ تمام عمر تصوف کی ان دو بڑی اقسام کی وضاحت اور تشریحات کرتے ہوئے گزار دی تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو عجمی تصوف کی ضرررسانیوں سے آگاہ کیا جا سکے اور اسلامی تصوف کی تخلیقی اور تعمیری قوت سے متعارف کروایا جاسکے۔
اقبال کے نزدیک عجمی تصوف کی پہچان یہ ہے کہ اس میں ترکِ دنیا کی تعلیم پائی جاتی ہے۔ اب ترکِ دنیا کی تعلیم کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ فرد کی ذاتی طاقت میں بتدریج کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک سالک کم غذا اس لیے کھانے لگتا ہے کہ اس میں حیوانی خواہشات کم سے کم نمودارہوں تاکہ وہ سلوک کی اعلیٰ منزلیں جلد سے جلد طے کرسکے۔ وہ قیمتی لباس پر کھدر کو ترجیح دیتاہے۔ ازدواجی زندگی سے پرہیز کرتا ہے تاکہ خویش اور اقربأ کی تعداد کم سے کم ہو اور وہ ان کے ساتھ جڑی حیوانی خواہشات سے محفوظ رہ سکے۔ وہ روزگار حیات پر خلوت گزینی کو ترجیح دیتاہے تاکہ اپنی ضرورت سے زیادہ نہ حاصل کرے اور نہ اس غیر ضروری مال کے مضمرات اور برے اثرات اُس پر پڑیں۔ تصوف کی اِس قسم سے وابستہ سالکین دنیا کو شر اور فساد اور گناہ کی جگہ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض تجرد کے ساتھ ساتھ جنگل میں نکل جانے کو شہری زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ بعض دنیا تیاگ دینے میں بھی انتہا پسند ہوتے ہیں، وہ خود کو اذیتیں دیتے ہیں تاکہ اپنی حیوانی خواہشات کا مکمل طور پر قلع قمع کرسکیں۔ بعض خود کو باندھ لیتے ہیں۔ بعض کھانا پینا ترک کردیتے ہیں۔ غرض عجمی تصوف کی جو کوئی بھی سرگرمی ہے وہ مجموعی طور پر ’’فرد‘‘ کو ذاتی طور پر کمزور سے کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔
عجمی تصوف کا بنیادی زور ہی اِسی ’’کمزوری‘‘ پر ہے۔ تصوف کی اس قسم کے پیچھے سارا فلسفہ ہی یہی کارفرما ہے کہ جب کسی شخص میں زیادہ توانائی نہ ہوگی تو اس میں زیادہ حیوانی خواہشات بھی نہ ہونگی۔ ظاہر ہے اگر آپ گوشت نہیں کھاتے اور کھانا کم سے کم کھاتے ہیں اور مرغن غذاؤں سے پرہیز کرتے ہیں تو لامحالہ آپ میں جنسی خواہش بھی نسبتاً کم پیدا ہوگی۔ بظاہر نہایت معقول فلسفہ ہے۔ یعنی فرد کو انفرادی سطح پر اس قدر کم زور اور اکیلا کردیا جائے کہ وہ خویش کے جھمیلے سے پاک، حیوانی خواہشات سے کوسوں دُور معرفت کی صاف ستھری منزلیں طے کرتا چلا جائے۔
اس قسم کے تصوف کو اقبال نے عجمی تصوف کہہ کر پکارا ہے اور کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کے برعکس اقبال رومی کے تصوف کا قائل ہے اور رومی کو اپنا پیر و مرشد مانتاہے۔ ہم جیسے عام لوگوں کو کیسے فرق پتہ چلے گا کہ آخر اقبال نے تصوف کی عجمی قسم کے مقابلے میں رومی کے اندر ایسا کیا دیکھ لیا تھا جو اقبال جیسے ناقد کو تصوف کا قدردان ہی نہ بنا گیا بلکہ اقبال رومی کو پیر رومی اور خود کو مرید ہندی کہنے لگا۔ رومی کا تصوف ، دوسری قسم کے تصوف سے کیونکر الگ ہے؟ وہ کیا عناصر ہیں جو رومی کے تصوف کو بقول اقبال کے عجمی تصوف سے الگ کرتے ہیں؟
رومی کے ہاں ’’اقلیم تا اقلیم‘‘ کا تصور ہے۔ یعنی رومی فرد کی کمزوری کی بجائے فرد کی طاقت کو معرفت کا اصل راز مانتاہے۔ یہ دونوں بالکل ایک دوسرے کے الٹ باتیں ہیں۔ یعنی عجمی تصوف میں ہم نے دیکھا کہ فرد کی کمزوری ہی دراصل اسے دنیاوی آلائشوں سے محفوظ رکھنے کا سبب بنی ہے جبکہ رومی اس کے برعکس فرد کو زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کا درس دیتاہے۔ رومی کے بقول ہم کائنات کے ہر مرحلے میں موجود تھے، چنانچہ ہم کائنات کے ہر مرحلے میں موجود رہینگے۔چنانچہ اس کائنات کے ساتھ ہمارا رشتہ ہے۔ اقبال کو رومی کا لب و لہجہ اس لیے پسند ہے کہ اقبال کو رومی کی مثنوی سے پہلے صرف قران ہی ایسی کتاب دکھائی دیتی ہے جس میں طاقت حاصل کرنے اور اس طاقت کی مدد سے کائنات کو تسخیر کرنے کا درس موجود ہے۔ شاید اسی لیے اسے ’ہست قراں درزبان ِ پہلوی‘ بھی کہا جاتاہے۔
اقبال کے ہاں قوائے فطرت کو تسخیر کرنا ہی سالک کا حقیقی راستہ ہے۔ عجمی تصوف میں قوائے فطرت سے دور رہنے کی تلقین ہے۔اقبال کا تصوف فطرت سے ٹکر لیتاہے۔ اقبال کا سالک کائنات سے الگ ہونے کی بجائے کائنات کو اپنا مطیع بنانے کی کوشش کرتاہے۔ وہ جنگل میں جا بسنے کی بجائے شہر بلکہ محلے میں رہنے کی تلقین کرتاہے۔ وہ تجرد کی بجائے شادی کرنے اور بچے پیدا کرکے ان کے لیے بھی اچھی صحت اور تعلیم کے ذریعے طاقت حاصل کرنے کی ترغیب دیتاہے۔ اقبال کے تصوف میں بھی دنیا کی چیزوں سے محبت نہ کرنے کی تلقین ہے لیکن اس تلقین کا انداز یہ ہے کہ اشیأ سے محبت کرکے انہیں حاصل کرنے کی بجائے انہیں تسخیر کرکے حاصل کرو! تاکہ دنیاوی اشیأ کی طاقت کا رعب و دبدبہ سالک کے دل سے نکل جائے۔ وہ ان کے ہوتے ہوئے ان کی طرف اپنے دل کو مائل نہ پائے۔ وہ معاشرے کا کارآمد فرد ہو لیکن دنیاوی مقامات، عہدے، مال متاع، زمین، نسل، گھر بار، کھیت کھلیان ۔۔۔۔۔۔ اُس کی نگاہوں میں کم تر حیثیت کی حامل متاع ِ حیات ہوں کیونکہ وہ انہیں تسخیر کرچکاہو۔ وہ روزگار کے لیے لڑا ہو اور اس نے مسلسل مشقت سے اپنے لیے روزگار خود حاصل کیا ہو۔ وہ تعلیم کے لیے لڑا ہو اور اس نے ہرمشکل سہہ کر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو۔ وہ اچھی زندگی کے لیے لڑا ہو۔ وہ حصول ِ علم کے لیے لڑا ہو۔اس کی یہ لڑائی کس کے ساتھ ہے؟ فطرت سے۔ کائنات سے۔ وہ ہمہ وقت کائنات کے پست و بلند کے ساتھ نبرد آزما رہے اور آئندہ بھی انہیں ہمیشہ اپنا مطیع رکھنے کی صلاحیت حاصل کرلے۔
اقبال کا تصوف رومی کے تتبع میں قران کا وہ روحانی سبق ہے جو بقول اقبال ’’قرآن میں موجود تھا لیکن اوّل اوّل کی فعال عرب ذہانت کی نظروں سے اوجھل رہا، اور ظاہر ہوا تو بعد میں ایران کی فتح کے ساتھ، کیونکہ ایران میں روحانی واردات کے لیے پہلے سے ماحول سازگار تھا‘‘(اصل کا مفہوم)۔
اقبال کو قرآن میں کہاں نظر آتا ہے ایسا تصوف؟ قرآن کی وہ کون سی آیات ہیں جن سے اقبال نے یہ اخذ کیا اسلامی تصوف فرد کی انفرادی صلاحیتوں کو بڑھاتا اور اُسے انفرادی سطح پر طاقت حاصل کرنے کے راستے پر لے جاتا ہے۔
قرآن نے جس طرح تسخیر ِ کائنات کی تبلیغ کی ہے اور جس طرح ارض و سموات کی مثالوں سے بتایاہے کہ انسان کے لیے قوائے فطرت پر نہ صرف قابو پالیناہی ممکن ہے بلکہ اس جہان جیسے بے شمار نئے جہان۔ بلکہ اس جہان سے بہتر بے شمار نئے جہان تخلیق کرنے کی صلاحیت بھی خود خدا نے ہی انسان کو عطا کردی ہے۔
يا معشر الجن و الانس ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموات و الارض فانفذوا لاتنفذون الا بسلطان (الرحمن 33)
اے جنوں اور انسانوں کے معاشرے اگر تم میں اتنی ہمّت ہے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو۔ تو نکل جاؤ! تم ’’سلطان‘‘ کے بغیر نہیں نکل سکوگے۔
سلطان ایک قوت ہے۔ جو انسان کی مدد گار قوت ہےلیکن یہ قوت کہاں سے آتی ہے؟
من الدنک سلطان نصیرا
یہ قوت اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ یعنی لَدنّی قوت ہے۔ یہ وہی قوت ہے جو رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ اقطار السموات والارض سے باہر نکل گئے ۔۔۔۔۔۔ اور خدا سے روبرُو ملاقات کرکے واپس آئے۔ ایسی زبردست قوت لیکن اپنی نوعیت میں ’’لدُنّی‘‘۔ یعنی اندرونی قوت، من کی شکتی۔ باطنی قوت۔ بالفاظ دگر وہی قوت جس کا حصول تصوف کا مقصد حقیقی ہے یعنی اللہ سے ملاقات کروانے والی قوت کس طرح، کیسے اور کہاں سے حاصل کی جائے؟ یہاں پہنچ کر اقبال اسلام کے ’’نظام عمل‘‘ کو ہی اسلام اور قران کا حقیقی سبق کہتاہے۔ دی ری کنسٹرکشن کا دیباچہ شروع ہی ان الفاظ سے ہوتاہے کہ، ’’قران تصور سے زیادہ عمل پر زور دیتاہے‘‘۔ یہ لدنی قوت، جسے قران نے سلطان کہہ کر پکارا عمل سے آتی ہے۔ صادق اور امین بن کر دکھانے سے آتی ہے۔ کردار کی بلندی سے آتی ہے۔ دیانت داری، سوال نہ کرنا، عزت اور آبرو کو ہرشئے پر ترجیح دینا، اخلاق کا سہارا کبھی نہ چھوڑنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض عمل عمل عمل اور سارے کا سارا حسن ِ عمل۔ حسن ِ عمل کے تواتر سے شخصیت میں جو توازن پیدا ہوتاہے وہ انسان کو خود بخود سلطان نصیر کا مالک بنا دیتاہے۔ وہ بے پناہ قوت جو اس سے نہ صرف قوائے فطرت کی تسخیر کرواتی ہے بلکہ اسے بالآخر خدا سے بھی ملواتی ہے۔ تو پھر جب اللہ سے ملاقات کروانے والی قوت حاصل کرنے کی کوشش ہی ترک کردی جائے گی۔ یعنی فرد خود کو کمزور کریگا۔ ’’نہ کھا کر‘‘، ’’زیادہ صومی صلاتی بن کر‘‘، ’’عورت سے پرہیز کرکے‘‘۔ بچوں اور خویش اور خواہشات ِ جسمانی سے پرہیز کرکے۔ اپنی شخصیت، ذات اور انفرادیت کی جابجا نفی کرکے۔ غرض اپنے آپ کو جب وہ بے پناہ کمزور کرلیگا تو اس کو ایسی طاقت کیسے نصیب ہوسکے گی جو اقطارالسموات والارض سے بھی اسے باہر نکال لے جائے؟
اقبال کے بقول تو،
مؤمن نہیں جو صاحب ِ لولاک نہیں ہے
یعنی وہ مؤمن ہی نہیں جو زمین و آسمان کی بیکرانی کو ایک جست میں طے نہ کرسکے۔ اور جب طے کرکے خدائے بزرگ و برتر کے حضور میں پیش ہو تو خدا کے دیدار میں چار لمحے بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ رہ سکے یہاں تک کہ حقیقت ِ سرمدیہ کی لامتناہیت اس کے متناہی وجود کو نگل نہ لے۔ اقبال کہتاہے خدا کی ذات میں گم ہوجانا کمال ِ معرفت نہیں ہے۔ خدا کی ذات سے الگ رہتے ہوئے ، خدا کی ذات کے سامنے آجانا اور پھر اس کا روبرو دیدار کرنا کمال ِ معرفت ہے اور یہی خدا کو پسند ہے۔ خدا کو اپنی انفرادیت کی طرح اپنے بندے کی انفرادیت بھی پسند ہے۔ اس نے خود اپنے بندے کو یہ عجب انفرادیت عطا کی ہے۔ یہ انفرادیت فنا ہوگئی تو کائنات کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ تھی کہ اقبال ابن ِ عربی اور حافظ کے فکری بنیادوں پر مخالف تھے۔