اَدُھورا اعمالنامہ۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

اَدُھورا اعمالنامہ۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

26 مئی 2020

میں اپنی فکری حیات کے ارتقأ

کی آدھی صدی کے یوم الحساب میں ہوں

مرے عمل کا ورق مرے دائیں ہاتھ میں ہے

لکھاہے،

میں عنفوانِ بچپن میں سوچتا تھا

میں سوچتاتھا

تو خود کو منظر سے کھینچ لیتا

نکال لیتا

اور اپنا منظر بنا کے اُس میں

میں اپنی مرضی کے رنگ بھرتا

میں دن بناتا تو روزِ روشن،

مَیں شب بناتا تو چودھویں رات ہی بناتا

نہ میری شب کالی رات ہوتی

نہ میرے خورشید کی حرارت شدید ہوتی

شجراگاتا، ہوا چلاتا

پرندے شاخوں پہ گیت گاتے

وہ میری جنت تھی

میں نے اُس میں

نہ سانپ پالے، نہ کوئی ممنوع پیڑ رکھا

نہ میں نے ابلیس کو بُلایا

نہ اپنے آدم کو آزمایا

۔۔

شباب عزت مآب کا سُرخ باب آیا

توجیسے رنگوں کے سارے سُورج

جو بادلوں پیچھے جاچُھپے تھے،

مگر وہ بادل

وہ کالے کالےدراز گیسو، دبیز گیسو

جوبجلیوں کے نقیب تھے

اور گرج رہے تھے

شمال سے بے مُہار اُٹھے،

جنوب کے سُورجوں کو ڈھانپا

تو سُرخ یاقوت بن کے برسے

شمال کے بے مُہار بادل

وہ کالے کالے دراز گیسُو

شباب عزّت مآب کی چادرِ حیا تھے

عجیب دور ِ جلال تھا وہ

یہ مانتے تھے،

خدا، شرَف، ظرف، صِدق، اخلاق

اورزمیں پر

معاشرت کے متون سارے، اُصول سارے

شکم زدہ ہیں۔

زمین پاپی نہیں ہے

پاپی تو آسماں ہے

جہاں سے صبراورشکر کے سب بیان اُترے

زمین پاپی نہیں ہے

پاپی تو روٹیاں ہیں

وہ جن کی خاطر

فلک سے آئے بشر کے

پاپی شکم نے سارے پہاڑ توڑے

یہ مانتے تھے کہ

جانِ جاں کو بھی وقت دیں گے

مگر ابھی انقلاب آناہے

ایک بار انقلاب آجائے

پھر تو بس ہم جئیں گے جی بھرکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور دورِ شباب گزرا تو یاد آیا

کہ سُرخ کے بعد

باقی رنگوں کی زندگی کو بھی وقت دینا تھا

جانِ جاں سے بھی ربط رکھنا تھا

دل کی سننی تھی

عقل کی دسترس میں رہ رہ کے

ہم محبت کے لفظ کوبھی

نگاہِ غربت سے دیکھتے تھے

نشاطِ معنی میں مَست تھے ہم

نشے میں دُھت تھے

بلند مقصد کے سُلجھے دھاگوں کا

ایک انبار تھا نظر میں

غضب کا روشن تھا منطقی فہم کا ستارہ

وہ اتنا روشن تھا، اتنا روشن

کہ اُس کی بے اَنت روشنی نے

ہماری آنکھوں کے نُور کو بھی اُچک لیا تھا

گُماں کی مِیٹھی شراب کے

ساغر ِ تلذّذ نے

سادہ دِل کے شعور کو بھی اُچک لیا تھا

ہوا چلی تو

ہَوا کے رُخ پر، ہَوا کی رفتار دیدنی تھی

اگرمگر کی بہشت سے

منظروں نے بہہ بہہ کے

شہر جاں کی سِلوں پہ نقشے بنادیے تھے

ستم تو یہ تھا

کہ ہم جو لفظوں کے دم سے زندہ تھے

وقت آیا تو ہم نہیں تھے

ہم اپنے لفظوں، ہم اپنے یاروں پہ

کوئی وعدہ معاف شاہد بنے کھڑے تھے

مشامِ زیرک سے لذّتِ بُوئے ناف چھُوٹی

تو آہُوئے منتظر کی دیرینہ آس ٹُوٹی

۔۔۔

اوراب جو بعد ازشباب کا

دوراِشتمالی گزرگیاہے

توسارا نشّہ اُتر گیاہے

ادریس آزاد