جس کی تحریر میں تقریر کی لذت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

جس کی تحریر میں تقریر کی لذت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

2 جون 2020

جس کی تحریر میں تقریر کی لذت نہیں ہے

اُس کو اِک لفظ بھی لکھنے کی اِجازت نہیں ہے

کل، کہ دنیا کی کسی چیز سے نفرت نہیں تھی

آج دنیا کی کسی شئے سے محبت نہیں ہے

ذرّۂ نُور ہوں، ہستی ہے مری سب سے الگ

میری حالت پہ کسی چیز کی حالت نہیں ہے

آپ نے آج بھی اظہار کیا ہے لیکن

آپ کے لہجے میں وہ پہلی سی شدت نہیں ہے

دل کی سُنتا ہوں تو لگتاہے خدا کی سُنی ہے

یوں ہی تواپنی رگِ جان سے قربت نہیں ہے

میں بُجھا ہوں تو میں اپنی ہی خوشی سے بُجھا ہوں

مجھ کو پھونکوں سے جلانے کی ضرورت نہیں ہے

کیا کرونگا میں سجا کر مَے فردوس کے جام

اِن میں تو ہوش اُڑانے کی بھی طاقت نہیں ہے

مال اموال بھی دولت ہے، انا بھی دولت

آپ کے پاس وہ دولت ہے، یہ دولت نہیں ہے

ادریس آزاد