خوب تھا دونوں کا رشتہ شام تک۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

خوب تھا دونوں کا رشتہ شام تک۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

27 اپریل 2020

خوب تھا دونوں کا رشتہ شام تک

لے گئی دیوار سایہ شام تک

کون جانے کس قدر تھا جاں گُسل

کشٹ جو سورج نے کاٹا شام تک

اُس کی آنکھیں دیکھ کر ایسا لگا

جھیل سے نکلے گا دریا شام تک

شام تک آئیگا وہ اُس نے کہا

بیت جائے گا زمانہ شام تک

شہر کے جنگل میں حسبِ آگہی

زندگی کا مور ناچا شام تک

دُور پربت پر کہیں، کوہ ِ ستم

برف پر سورج نے توڑا شام تک(۱)

تم نہیں آئے تھے چندا! اس لیے

آج بھی سورج نہ ڈوبا شام تک

رات تو اپنی ہے کٹ ہی جائیگی

بس مجھے دے دو سہارا شام تک

آج بھی نکلا نہ جب وہ آفتاب

آج بادل خوب برسا شام تک

ادریس آزاد

(۱) معروف شاعر سیدسلمان گیلانی کا ایک مضمون اس میں دہرایا گیا ہے، فقط فی البدیہہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ کتاب میں شامل نہ کرونگا۔ ان کا شعر زیادہ اچھاہے جو کہ یہ،

برف پر سُورج نے توڑا ظلم کا ایسا پہاڑ

آبشار اُتری فرازِ کوہ سے روتی ہوئی

دوبارہ ادریس آزاد