عقل عادی ہے نارسائی کی۔۔۔۔۔ادریس آزاد

عقل عادی ہے نارسائی کی۔۔۔۔۔ادریس آزاد

عقل عادی ہے نارسائی کی

دل نہیں مانتا جُدائی کی

طوق نکلے ہیں چابکیں نکلیں

جس دفینے کی جب کھدائی کی

یہ غلامی کی یادگاریں ہیں

توڑ دے چوڑیاں کلائی کی

تم نے تاروں کو رہنما جانا

ہم نے تاروں کی رہنمائی کی

کون جانے کہ کیسے دلہن کو

رسم لگتی ہے منہ دکھائی کی

مست ہیں سب خدا خدا کرتے

بات کرتے نہیں خدائی کی

اُس نے زیروزبر نہیں چھوڑے

حد ہوئی حرف آزمائی کی

ہم گنہ گار تھے گناہ کیے

پارساؤں نے پارسائی کی

ہم کہ آزاد ؔہونہیں پائے

گانٹھ کھلتی نہیں تھی ٹائی کی

ادریس آزاد