مابعدیات۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

مابعدیات۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

19 اپریل 2020

زمین خالی پڑی ہوئی ہے

کوئی نہیں ہے

تمام انسان مرچکے ہیں

درخت پھر سے سنور چکے ہیں

سمندروں میں حیات باقی ہے

مچھلیاں گیت گارہی ہیں

اکیلے رستوں پہ اور کوئی نہیں سوائے

فسردہ پیلے نحیف پتّوں کی آہٹوں کے

کوئی درندہ نہیں بچاہے

کوئی چرندہ، کوئی پرندہ نہیں بچاہے

سنا ہے اُن بانس کے درختوں میں

سنسناتی ہوئی ہواؤں سے بجنے والی

فراق روتی ہوئی کسی بانسری کی لئے پر

وہاں

وہی سانپ ہے

کھڑا رقص کررہا ہے

جو عہدِ فردوس میں رفیق سفر ہوا تھا

وہ جس کی باتوں سے ہار کے

میں بشر ہوا تھا

ادریس آزاد