پھل بھی زخموں کی طرح پکتے ہیں، پھٹ جاتے ہیں۔۔۔۔غزل (ادریس آزاد)

پھل بھی زخموں کی طرح پکتے ہیں، پھٹ جاتے ہیں۔۔۔۔غزل (ادریس آزاد)

24 مئی 2020

پھل بھی زخموں کی طرح پکتے ہیں، پھٹ جاتے ہیں

ہم یہی سوچ کے پیڑوں سے لپٹ جاتے ہیں

تم توسچائی پہ تھے، کیوں نہ ٹھہرپائے تم

اتنی سی دیر تو کذّاب بھی ڈٹ جاتے ہیں

نیچے اُتروں تو زمیں روکتی ہے، نیچے نہ جاؤ

اُوپر اُٹھوں تو فلک رستے سے ہٹ جاتے ہیں

یہ توپھر وقت ہے ہرطورگزرجائےگا

ریت کی دھار سے تو آئینے کٹ جاتے ہیں

دِل کو میں اِس لیے رکھتا ہوں سدا پہلو میں

کتنے غم چھوٹی سی تھیلی میں سمٹ جاتے ہیں

ہجر میں، ٹھیک ہے، کچھ دھوپ بھی آجاتی ہے

گیسوؤں کے گھنے بادل بھی تو چھٹ جاتے ہیں

غم عطا کرتے ہی وہ چلدیا واپس ، جیسے

رستے ساماں کوئی پہنچا کے پلٹ جاتے ہیں

کتنی رہتی ہے طلب پہلے اُسے دیکھنے کی

اور پھر جیسے خیالات ہی بٹ جاتے ہیں

ادریس آزاد