تری یادوں سے پھر محفل کو گرما لوں تو آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
تری یادوں سے پھر محفل کو گرما لوں تو آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
12 مارچ 2020
تری یادوں سے پھر محفل کو گرما لوں تو آتا ہوں
یہی دوچار انگارے ہیں دہکا لوں تو آتا ہوں
میں اپنے رزق سے، حصّے کا غم کھا لوں تو آتاہوں
تری دہلیز تک دامن کو پھیلا لوں تو آتاہوں
یہ حسنِ خلق کا پرچہ بہت کمزور ہے میرا
سبق پھر سے ذرا اِک بار دہرا لوں تو آتاہوں
کنویں کھاری، سفردشوار، رستے ناتراشیدہ
میں پیچھے آنے والوں کو یہ سمجھا لوں تو آتا ہوں
کتابِ زندگی دلچسپ ہے، رُکنا نہیں ممکن
بس اِک دو صفحہ باقی ہے یہ نمٹا لوں تو آتاہوں
ترے دربار میں سج دھج کے آنا چاہتا ہوں میں
ذرا سا سَر اضافی ہے یہ کٹوا لوں تو آتا ہوں
خرد! تُو بوریا بستر لپیٹ! اور میرے پہلو میں
جو بچہ رو رہا ہے اِس کو بہلالوں تو آتا ہوں
قیامت میں بلایا جاؤنگا، اس سے نہیں ڈرتا
رسائی مسندِ انصاف تک پا لوں تو آتا ہوں
مسیحا! دو گھڑی ضبطِ غضب! صدقے محبت کے
ابھی جو چوٹ کھائی ہے یہ سہلا لوں تو آتا ہوں
تمہاری لَے پکڑنا ہاتفا! مشکل نہیں لیکن
بس اِن اَشکوں کے ٹھیکے پر غزل گا لوں تو آتا ہوں
میں آتا ہوں کہ میں بھی تھک گیا یہ پاٹ کرکرکے
کوئی اپنی جگہ کردار بُلوا لوں تو آتا ہوں
یہ رہ پُرخار تھی نشتر زنوں کو ساتھ رکھ لیتے
چلو! اب پیر کے کانٹے نکلوا لوں تو آتا ہوں
سنا ہے حشرمیں بھی کارروائی کاغذی ہوگی
کسی سے نامۂ اعمال لکھوا لوں تو آتا ہوں
ادریس آزاد