فلیش بیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
فلیش بیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
28 جنوری 2020
اتنی مدت کے بعد لوٹا ہوں
لوگ اپنی گلی کے یاد نہیں
حافظے پر بھی اعتماد نہیں
کون رہتا تھا اِس محلے میں
کس کی خاطر میں روز بن ٹھن کر
گھر سے سہ پہر میں نکلتا تھا
کون خوش ہوتا، کون جلتا تھا
نام کس کا لہُو میں چلتا تھا
اتنی مدت کے بعد لوٹا ہوں
سارے دیوارو در بدل گئے ہیں
رستے بدلے ہیں گھر بدل گئے ہیں
سب پرانے نشان جل گئے ہیں
یہ جو دروازہ، جس پہ تالہ ہے
یہ کبھی بند ہی نہ ہوتا تھا
صاف سُتھری تھیں اِس کی دہلیزیں
اور یہاں گند بھی نہ ہوتا تھا
یہ جو دیوار سی اُٹھی ہوئی ہے
اس جگہ، اس سے پہلے رستہ تھا
رستہ، ہردم جو ہنستا بستا تھا
لوگ آتے تھے لوگ جاتے تھے
رات دن جن پہ ہُن برستا تھا
اور وہ سامنے جو تختی ہے
جس پہ لکھی ہے افتتاح کی بات
اس جگہ سبز برگ پیپل کا
ایک بوڑھا درخت ہوتا تھا
جس کی ٹہنی پہ لِیرا باندھنے سے
پیسے ملتے تھے، بخت ہوتا تھا
کالے جادُو کا توڑ تھے لِیرے
عمر بھر کا نچوڑ تھے لِیرے
اتنی مدت کے بعد لوٹا ہوں
سارے پینڈُوس کھیلنے والے
شہر کو چھوڑ کرچلے گئے ہیں
کوئی فوجی ہے کوئی پُلسیا ہے
کوئی دوبئی، کوئی ابوظہبی
کوئی مسقط چلا گیا ہوا ہے
اور کچھ مرگئے ہیں بے مقصد
ایک دو بچ گئے مگر وہ سب
چڑچڑے مالیخولیائی ہیں
ایک درزی ہے دو قصائی ہیں
تیرے گھر نے تو بس رُلا ہی دیا
کیا چمکتی، دمکتی بلڈنگ تھی
چھت پہ لَٹھے کبوتروں کی قطار
ایک دم سے ہوا میں اُٹھتی تو
پھڑپھڑاہٹ فضا میں گونجتی تھی
اور ممٹی پہ ایک پیتل کا
چاند تھا اور چند تارے تھے
گل گیا چاند، سڑگئے تارے
رنگ و روغن اُکھڑ گئے سارے
اب بھی منڈیر ہے وہیں پہ مگر
اب غُٹر غوں نہیں کبوتروں کی
گھر ترا بھوت گھر بنا ہوا ہے
رنگتیں اُڑ گئیں چبوتروں کی
ادریس آزاد