یہ دریا چل کے آیا ہے جہاں سے(نظم)۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
یہ دریا چل کے آیا ہے جہاں سے(نظم)۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
27 مئی 2020
یہ دریا چل کے آیا ہے جہاں سے
وہاں پربت کھڑے ہیں برف بردوش
انہیں چھوتی ہیں جب سورج کی کرنیں
تو بھرجاتی ہے دریاچے کی آغوش
پگھلتی برف، بِلّوری سلاخیں
جواں جھرنوں کا سرگم چھن چھنا چھن
پہاڑی راگ بج اُٹھتا ہے گویا
کوئی اُستاد کرتا ہے دھنادھن
یہ جھرنے ہیں کہ چاندی کے کٹورے
پریشاں ندّی ندّی گھومتے ہیں
ندی پہ سر بہ سر سایہ فگن پیڑ
اِسی بربط کی دھن پر جھومتے ہیں
یہ وادی ہے جہاں سانپوں کے جوڑے
چمکتی دھوپ میں آ بیٹھتے ہیں
جہاں پر جھیل کے نیلے پرندے
نشیلے روپ میں آبیٹھتے ہیں
جہاں پر چاندنی راتوں میں اکثر
اُتر کر دیویاں غم چھیڑتی ہیں
حضور اُن کے چٹانیں دست بستہ
طرب انگیز سرگم چھیڑتی ہیں
اُترتی ہیں فلک سے آبشاریں
سناتی ہیں ترانے ارمغانی
فضا ہوتی ہے جب سیف الملوکی
شجرکہتے ہیں پریوں کی کہانی
وہ پی لیتاہے جس دم جھیل کی مَے
تو دریا رب کی بولی بولتا ہے
نکلتا ہے زمیں کی آنکھ سے وہ
رگِ کشور میں جا رس گھولتا ہے
زمرّد راستے میں ہار لے کر
اِسی دریا کو استقبالتے ہیں
ہوا کی کوکھ میں بیٹھے فرشتے
اِسی سرمست کو سنبھالتے ہیں
یہی دریا ہے وہ جو وادیوں میں
الٰہوں کی زبانیں بولتا تھا
یہی دریا ہے جو اپنے جُنوں سے
نئی دنیاؤں کے در کھولتا تھا
مرے کھیتوں میں یوں خاموش کیوں ہے
مرے ماحول میں مدہوش کیوں ہے
یہاں آکر زمیں میں سو گیا ہے
خُدا جانے اِسے کیا ہوگیا ہے
ادریس آزاد