یہ عارض ،یہ لب و رخسار (نظم)

یہ عارض ،یہ لب و رخسار

27 مئی 2020

 

یہ عارض، یہ لب و رخسار

یہ خُوشُبو

یہ دے جا وُو ہے

تم محسوس کرتے ہو

کہ تم نے یہ سماں

پہلے بھی دیکھا ہے

کسی کا خواب سچا ہو

تو مطلب ہے کہ مستقبل میں

ایسا واقعہ ہوگا

اور ایسا واقعہ جو

اِک جہاں

یعنی ہمارے اِس جہاں میں

ہونہیں پاتا

وہ جھوٹا خواب ہوتاہے

مگر مغرب میں کچھ اہل ِ ریاضی

یوں بتاتے ہیں

کہ ہم جیسی کئی دنیائیں ہیں

اس سرزمیں جیسی زمینیں ہیں

جہاں ہم ہیں

ہمارے ان گنت بہروپ ہیں

ہرروپ، ہر امکان میں ہم جی رہے ہیں

جی رہے ہیں کتنی صدیوں سے

یہ دے جا وُو

کسی ایسی ہی دنیا کی جھلک ہے

خواب بھی امکان ہیں

ہرخواب اِک امکان ہوتاہے

یہ امکانات باقی سب جہانوں میں

حقیقت ہیں

حقیقت کے حقیقت میں

کوئی معنیٰ نہیں ہوتے

حقیقت ایک ہے یا ایک سے زیادہ

حقیقت دائمی ہے یا مبدّل ہے

کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا

کسی کو جاگتی آنکھوں سے

مافوق السبب

چیزیں دکھائی دیں

تو ماہر لوگ کہتے ہیں کہ

دھوکا ہے

یہ اِلّیوژن ہے

بیماری ہے

یوں چیزیں دکھائی دیں

تو سمجھو آپ کو

کوئی دماغی عارضہ لاحق ہے

ورنہ دوسروں کو بھی

وہی چیزیں دکھائی دے رہی ہوتیں

کسی دعوے کی سچائی

پرکھنے کو

گواہی چاہیے سب کی

زبان ِ خلق بننے کے لیے

کتنا ضروری ہے

شہادت ہو

کئی آنکھوں نے دیکھا ہو

یہ آنکھیں

خون کی باریک شریانوں

سے چلتے کیمرے

جن میں لگے عدسوں

کی فوکل لینتھ

تھوڑی ہے

اور اس پر مستزاد

آنکھوں کے پردے ہیں

جہاں موجود ہراِک عکس

الٹاہے

یہی طے ہے

حواس ِ عارضی

محدود ہیں

معروض کے شاہد

ہزاروں ہوں کہ لاکھوں ہوں

کوئی عارض شہادت کے تقاضوں کو

کبھی پورا نہیں کرتا

تو پھر کیسی گواہی؟

کون سے شاہد؟

زمانے کی طرح

ہرفرد کا کردار

خود اپنی گواہی ہے

زمانہ آپ شاہد ہے

کہ جو کردار کا

غازی ہے

اورجوش ِ عمل سے

اپنی سچائی پہ قائم ہے

جو سر سے پاؤں تک

رحمت ہی رحمت ہے

وہ جو خُلق ِ حسیں، صبرورضا

ایثار، ہمّت، استقامت

اور خودداری کا پیکر ہے

جسے جرأت

صداقت اور دیانت

سے محبت ہے

وہی تنہا شہادت ہے

وہ جو کچھ دیکھتا

سنتاہے

اور سب کو بتاتاہے

وہی حتمی حقیقت ہے

ادریس آزاد