ایک دریا تو مرے سامنے رکھاہواہے
ایک دریا تو مرے سامنے رکھا ہوا ہے
ایک دریا مرے اندر سے گزرتا ہوا ہے
تم ہوئے جب سے زمانے کے، ہمیں چھوڑ گئے
تم سے بچھڑے ہوئے اب ہم کو زمانہ ہوا ہے
میں تو خوش تھاکہ ترے غم میں گزارونگا حیات!
غم یہی ہے کہ ترا غم ہی تو بھولا ہوا ہے
دل کے آئینے کا ہرعکس مری آنکھ میں ہے
اشک بھی شیشہ ہے بس یہ ہے کہ بہتا ہوا ہے
طنزکا، آنکھ کا، لفظوں کا، ادا کا اے دل!
اُس نے ہر تیر ترے واسطے رکھا ہوا ہے
کچھ وفا، کوئی مروّت، کوئی احساس نہیں
ہم نے محبوب کو ہر بات میں پرکھا ہوا ہے
وہ تری عمردرازی کی دعا کیوں مانگے؟
اے شبِ ہجر! تجھے جس نے بھی کاٹا ہوا ہے
یہ تری سرد مزاجی ہی رُلادے گی تجھے
برف کا تودہ بھی آخر کو تو دریا ہوا ہے
ادریس آزاد