چاہت، مری مٹی میں عجب چھوڑ گیا ہے
چاہت، مری مٹی میں عجب چھوڑ گیا ہے
دل جل کے بھی خاشاک ِ طلب چھوڑ گیا ہے
جب چھوڑ گیا تھا تو کہاں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہے تو لگتا ہے کہ اب چھوڑ گیا ہے
میں تیرا پجاری تھا مگر اے مرے خورشید!
تو ڈھل کے مرے شہر میں شب چھوڑ گیا ہے
پہنچا ہے مسیحائی کو اِس رہ سے گزر کر
اس رہ کو مگر جان بلب چھوڑ گیا ہے
ہم لذتِ آشوب کے رسیا ،ترے غمدار
تو سینے میں جینے کا سبب چھوڑ گیا ہے
غم اُس کی جدائی کاتجھے مار نہ ڈالے
اب تو بھی اُسے چھوڑ، وہ جب چھوڑ گیا ہے
دانستہ یہیں چھوڑگیا ہے وہ مرا دل
جو اُس کا تھا اسباب وہ سب چھوڑ گیا ہے
کچھ دن سے مرے دل میں عبادت کی طلب ہے
کچھ دن سے مجھے لگتا ہے رب چھوڑگیا ہے
اک پھل کے روادار نہ تھے خلد ِ بریں میں
دل تیری بہشتوں کی طلب چھوڑ گیا ہے
ادریس آزاد