ایک میں ساعت بدست
دائرے میں گھومتے دن رات
آتاوقت، جاتا وقت
استمرار کے آثار
سے آراستہ شئے کا زمانے سے گزر
یہ واقعے، یہ حادثے
ہرہرگھڑی، ہرپل کی ٹِک ٹِک
اورسب معلول
جن کی علّتیں ناقص دلیلِ کائناتی ہیں
زمانہ، وہ زمانہ کون سا ہوگا؟
جہاں لمحات کےجامد تراشے
تہ بہ تہ رکھے نہ ہوں
بلکہ جہاں سے چوکھٹہ درچوکھٹہ
سب چوکھٹے اِک ساتھ دِکھتے ہوں
وہ بُعدِ خامسہ
جس میں تسلسل کاتصور ختم ہوجاتاہے
جس میں،
رنگ کو تصویر کی حاجت نہیں رہتی
جہاں سے ہرجہاں پہلا جنم لے کر نکلتاہے
اور اس کے بعد جنموں کے جنم لیتاہوا، دیتاہوا
راہِ تسلسل کھول دیتاہے
زمانِ قار کا یہ ساختہ پرداختہ جبروت
قہقہری نہیں ہے
وگرنہ لوٹنا پڑتا
وہیں پر لوٹنا پڑتا جہاں سے یہ تواتر
اُس توہم میں بدلتاہے
جسے آواگَوَن لکھے بنا
ویدوں کے سارے فلسفےبیکار جائیں گے
زمانِ استدام البتہ وہ دورانیہ ہے
جس کی وسعت
حاشیہ درحاشیہ پھیلے ہوئے آفاق میں تشکیل پاتی ہے
جہاں سے زندگی آواز دیتی ہے
جہانِ حرکت و غایت قیامت بن کے اُٹھتاہے
کوئی بِگ بینگ پھَٹتا ، پُھولتاہے
سانس لیتاہے
میں دس ابعاد کے سارے فسانے کا لکھاری ہوں
مجھے بے بُعد رہناہے
مجھے بے بُعد رہ کر وقت کا سارا غبارہ پھاڑناہے
وقت سے باہر نکلناہے
زمانِ قار میں سُوئی چبھونی ہے
مجھے خلّاقِ عالم کی تمنّائیں سمجھنی ہیں
مجھے کچھ کائناتیں اور بھی تخلیق کرنی ہیں
نئی الواح لکھنی ہیں
نئے کاتب بٹھانے ہیں
ضروری کام کرنے ہیں
میں اپنے آپ سے اب تک یہ سمجھاہوں
کہ کچھ تبدیلیاں ہیں جوضروری ہیں
زمانے کے تواتر کی یہ سب ترتیب بس تھوڑی بدلنی ہے
مجھے تھوڑی بدلنی ہے
ادریس آزاد