تحیّر سے مُکرتی ہوئی آنکھ۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
تحیّر سے مُکرتی ہوئی آنکھ۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
24 اپریل 2020
حسن خود شاہد ِ اوّل بھی ہے اعظم بھی ہے
حسن خود دیکھتاہے
اپنی حسیں آنکھوں سے
حسن خود چنتا ہے ناظر اپنے
کون دیکھے گا اُسے
کون نہ دیکھے گا اُسے
کس کی موجودگی میں پردہ گرانا ہے اُسے
کس کے ہوتے ہوئے چہرے کو چھپانا ہے اُسے
کس کی آنکھوں سے جھلکتے ہوئے شکووں
پہ عنایت کی نظر کرنی ہے
کس کی بے باک نگاہی پہ تڑپنا ہے
مزہ لینا ہے
کس کو حق دینا ہے
اور چھیننا ہے کس سے حق
کس کی نظروں کو ہٹانا ہے پرے
جلوۂ بے پردہ سے قبل
مرتکب کون ہے آوارہ نگاہی کا یہاں
کس کی آنکھوں کو نکلوانا ہے
حسن خود بھی تو حسین آنکھوں کا مالک ہے
جو خود دیکھتاہے
ہرگھڑی دیکھنے والوں کی نظر دیکھتا ہے
وہ حسیں آنکھیں
جو اندھوں کو سلامت کردیں
وہ حسیں آنکھیں کہ دیکھیں تو قیامت کردیں
وہ حسیں آنکھیں جو خود دیکھتی رہتی ہیں
سبھی آنکھوں کو
وہ جو سب جانتی پہچانتی ہیں
کتنی بے تابی سے تکتی ہیں
اُس اِک دید کی راہ
بس وہ اِک دید
وہ رازوں کو چھپاتی ہوئی دید
وہ نظر جو کسی پردے کو اُٹھاتی ہی نہیں
دیکھ لیتی ہے مگر شور مچاتی ہی نہیں
جس کی آنکھوں کی طلب حسن کو ہے
حسن خود بھی تو حسیں آنکھوں کا شیدائی ہے
بے نیازانہ تحیّر سے مُکرتی ہوئی آنکھ
شوکتِ حسن کی پرواہ نہ کرتی ہوئی آنکھ
ادریس آزادؔ