علم حجاب ِ اکبر ہے۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
علم حجاب ِ اکبر ہے۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
22 مارچ 2020
علم حجاب ِ اکبر ہے۔ یہ ایک صوفی عالم کا قول ہے۔یعنی حضرت علی ھجویری رحمۃ اللہ علیہ کا۔ صوفیا کے ہاں اس مضمون کے اقوال عام پائے جاتےہیں۔ مثلاً خواجہ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر دیکھیے،
زانکہ ایں علم ِ لزج چوں راہ زند
پیشتر راہ ِ دل ِ آگاہ زند
یہ علم ِ عقلی جو ہے یہ راہ زن ہے۔ یہ دلِ آگاہ کے آگے آکر اُس کا راستہ روک اور اُسے لوٹ لیتا ہے۔
لیکن اگر ہم اِس حدیث کی روشنی میں،
العلم ُ علمانِ ۔ علم الادیانِ وعلم الابدان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم دو ہوتے ہیں۔ علم الادیان اور علم الابدان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادیان دین کی جمع ہے اور ابدان بدن کی۔ یعنی اجسام کا علم ۔ دوسری قسم یعنی اجسام کا علم معروضی کائنات کا علم ہے۔ یہ علم بقول اقبالؒ بتکدۂ صفات کا علم ہے۔
میری نوائے شوق سے شور حریم ِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ ٔ صفات میں
معروضی دنیا کا علم یا خارج کا علم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راہ زن ہے اور حجاب ِ اکبر ہے۔کیونکہ جب ہم اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ پیاز کی چھلکے کی طرح ثابت ہوتا ہے اور حقیقت تک کبھی رسائی ممکن نہیں ہوپاتی۔
لیکن اگر تھوڑی توجہ سے دیکھیں تو ایک اور پہلو بھی اس بات کا۔
اللہ نورُالسّمٰواتِ والارض (قران)
العلم نورُ (حدیث)
استنتاج: اللہ علم السمٰواتِ والارض
یعنی اللہ زمینوں اور آسمانوں کا علم ہے۔ اگر اس استخراج کو دیکھا جائے تو حضرت علی ھجویری رحمۃ اللہ علیہ کا قول کنٹراڈکٹری ٹھہرے گا۔ لیکن اگر بنظر ِ عمیق مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس ناقص عقل کے ذریعے اللہ سے ملاقات کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے علم۔ اللہ زمینوں اور آسمانوں کا نور ہے اور علم بھی نور ہے۔ گویا اللہ ہی علم ہے۔ جانتے چلے جاؤ۔ ایک تہہ کو حقیقت سمجھ کر کھولو اور دوسری تہہ تک جاپہنچو۔
یہ واحد اسلام ہے جس نے زمانے کے دائرہ ہونے کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے ایک خط ِ مستقیم قرار دیا جس کی مختلف منازل (طبق) ہیں۔ زمانہ دائرہ ہو تو بوریت اور تقدیر پرستی جنم لیتی ہے۔ زمانہ طبق در طبق ہو تو تجسس کبھی فنا نہیں ہوتا ۔ کسی بھی زندگی میں۔
چنانچہ علم حجابِ اکبر بایں معنیٰ ہے کہ اللہ سے ملاقات کا واحد راستہ یہی ہے۔ بڑا حجاب۔۔۔۔۔۔۔ اِسے اُٹھاتے چلے جاؤ اور دیدار ِ الٰہی سے سرشار ہوتے چلے جاؤ۔
ادریس آزاد