اللہ تعالیٰ کے ناموں کی صفات۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
اللہ تعالیٰ کے ناموں کی صفات۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
26 فروری 2020
اللہ کے ناموں میں سے کسی بھی نام کی صفت کا عملی طورپر خود میں پیدا کرلینا ایک خاص قسم کا لطف عطاکرتاہے۔ یہ لطف ، لذت سے سرشاری تک ایک صعودی تدریج کے ساتھ موجود ہے۔ صفتِ ربوبیت، صفتِ رحیمیت اوراس نوع کی چند اورصفات کا عملی حصول ’’خدمت‘‘ سے ممکن ہے۔ خدمت سےسرشاری ملتی ہے۔ صفتِ خلّاقیت کا حصول تخلیق (آرٹ، شاعری، مصوری) سے ممکن ہے اورعلیمیت یعنی صفتِ علم کا، حصولِ علم (سائنس وفلسفہ) سے۔ ان اعمال سے بھی لطف اورسرشاری ملتی ہے۔ لیکن یہ صفات کسی نہ کسی درجے میں حیوانات میں بھی موجود ہیں۔ ان تمام درجات میں جن میں یہ حیوانات میں بھی موجود ہیں ان صفات سےلذت ملتی ہے۔ لذت اور سرشاری کا یہی فرق حیوانیت اور انسانیت کے شرف کا فرق ہے۔ یہ سب اللہ سے ملاقات کے طریقے ہیں۔ لیکن یہ سب اللہ کی صفات سے ملنے کے طریقے ہیں۔ عام انسان اللہ کی صفات سے ہی ملتے ملتے فوت ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں بہت کم انسانوں کو ہی اللہ کی ذات سے ملنے کا موقع ملتاہے۔
مُوسیٰ زہوش رفت بیک جلوۂ صفات
تُوعین ذات می نگری درتبسمی
اللہ کے ان ناموں میں موجود صفات سے ملاقاتیں ، اللہ سے ملاقاتیں ہیں کیونکہ اللہ کو جسمانی آنکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ملاقاتیں اللہ سے ہی ہورہی ہیں، اس بات کا ثبوت سرشاری کی موجودگی ہے۔ اگرکسی علمی نکتے نے سرشار کردیا تو یہ ملاقات ہوجانے کی نشانی ہے۔ اسی طرح اگر کسی تخلیقی سرگرمی نے سرشار کردیا یا خدمت نے سرشار کردیا تو یہ اللہ سے ملاقات کی نشانی ہے۔ یعنی سرشاری کے ان لمحات میں ملاقاتِ اِلٰہی نصیب ہورہی تھی۔
اللہ سے ملاقات کے لیےاسمأ کا ورد و ذکر اپنی الگ معنویت رکھتاہے لیکن وہ سلوک کا راستہ ہے۔ سلوک دراصل عام انسانوں کو ان راستوں پر چلانے کا عادی بنانا ہے جن سے اللہ کی صفات سے ملاقاتیں یعنی اللہ سے ملاقاتیں ممکن ہیں۔ اللہ کی صفات کا خود میں پیدا کرلینا متصوفانہ نکتۂ نظرہے۔اس کے برعکس علم حاصل کرنا، تخلیق کرنا یا خدمت کرنا اللہ کے اسما کا عملی ذکروورد ہے۔
اللہ سے ملاقات کے شوق میں کسی صفت تک رسائی تصوف ہے۔ لیکن کسی صفت تک رسائی کے بعد اللہ سے ملاقات کا ہوجاناعام انسانی زندگی کا خاصا ہے۔ کسی ایک صفت کے لطف میں کھوکررہ جانا پہلے پہل گمرہی اور بعدا زاں شرک ہے۔ یہ گویا سونے کی وہ ڈلی ہے جسے شوق سے ڈھلوا کرہم نے تجوری میں رکھ لیا تاکہ اس کی موجودگی کا لطف تو لیتے رہیں لیکن اس سے کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔
ادریس آزاد