اظہار ِ ذات سے ترکِ اظہار ذات تک
ظہار ِذات کے مختلف مراحل ہیں۔ جب تک انسان اپنی انفرادی شناخت قائم کرنے اور پھر بعد میں اُسے استحکام دینے کی غرض سے ہمہ وقت اپنے ہونے کا اظہار کرتا رہتا ہے، اُس کے لیے یہ حقیقت پوشیدہ رہتی ہے کہ اظہار ِ ذات کے منتہیٰ پر وجود اپنی ہستی کھو کرعدم میں تحلیل ہونا شروع ہوجاتاہے۔ شیخ احمد سرہندی ؒ کو کسی شاگرد نے خط لکھا کہ اب مجھے ہرطرف اپنا آپ دکھائی دیتا ہے تو آپ نے اپنی محفل میں فرمایا کہ یہ شخص ابھی معرفتِ حق کی پہلی منزل کے پہلے زینہ پر ہے”۔ سر ِ خفی کے بعد سر ِ اخفیٰ ہے یعنی اگر ہم تصوف کی اصطلاحات سے مدد لیں تو مقام ِ فنا کے عروج پر مقام ِ بقأ کا آغاز ہوتاہے، جہاں ذات کو کسی وجود کی محتاجی نہیں رہتی۔
ذاتِ انسانی اپنے ہونے کے اظہار سے کسی صورت نہیں بچ سکتی۔ حتیٰ کہ فاترالعقل اور غبی بچے بھی اظہار ِ ذات کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ اسی طرح اہل ِ صنعت و حرفت، اہل علم، اہل حکمت غرض ہرمیدانِ حیات میں ذاتِ انسانی اپنے اظہار کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتی۔ ذاتِ انسانی کے اس بچگانہ شوق سے بے شمار مسائل بھی جنم لیتے ہیں جو نہ صرف فرد بلکہ معاشرے تک کو بری طرح متأثر کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر صاحبان ِ اقتدار اپنے ہونے کا جو احساس دلاتے رہتے ہیں وہ بسا اوقات ظلم کی حدود تک وسیع ہوجاتا ہے۔اظہارِ ذات کے یہ تمام درجات پست ہیں۔ مثلاً ایک عورت محض قیمتی جواھرات سے سنگھار کرکے محفل میں منفرد نظر آنے کی کوشش کررہی ہے تو وہ اظہار ِ ذات کے ایک پست درجہ پر فائز ہے۔ اس سے بلند درجہ پر وہ عورت ہے جو زیورات کی بجائے اپنے حسن کی وجہ سے مرکز ِنگاہ ہے، لیکن یہ درجہ بھی بہت پست ہے۔ایک تیسری عورت جو اپنی بات کی وجہ سے اہل ِ بزم کی توجہ کا مرکز ہے، اُن دونوں عورتوں سے بلند درجہ اظہارِ ذات کررہی ہے ۔انہی خطوط پر درجات مقرر ہوتے ہوتے اظہار ِ ذات کے مراحل میں وہ مقام بھی آجاتا ہے جسے تخلیق کہتے ہیں۔ ایک تخلیق کار اظہار ذات کےمزید بلند درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ لیکن یہ تمام درجات بھی فی الحقیقت بلند نہیں ہیں بلکہ پست ہیں بشمول تخلیق ۔ اظہار ذات کے درجات کو بیان کروں تو پہلے میں اسے دو بڑے حصوں میں تقسیم کرونگا۔
۱۔ کثافت میں اظہار
۲۔ لطافت میں اظہار
سونا، چاندی، مال، متاع، تحفظ ِ خویش، زیور اور جائداد کے ذریعے اپنے انفرادی تشخص کو سہارا دینے والے لوگ کثیف واسطوں کے ذریعے اظہارِ ذات کا موجب بن رہے ہیں۔
تخلیق، بیان، اخلاق اور احسان جیسے لطیف واسطوں کے ذریعے ذات کا اظہار کرنے والے بدرجہا بلند سہی مگر ابھی تک وہ مرہون ِ وجود ہیں۔
امام غزالیؒ کا قول ہے کہ، "تم اُس آدمی کے ساتھ اپنے اخلاق پر غورکرو جو تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، توتمہیں پتہ چلے گاکہ تم کتنے اچھے انسان ہو”۔
اظہارِ ذات کا عمل عالم ِ وجود میں مکمل ہوتا ہے۔ذات وجود کی شکاری ہے اور وجود ذات کا شکار۔ وہ اپنے اظہار کے لیے اشیائے مادی سے لے کر انسان کی انفرادی شناخت تک، وجود کی کسی ہییَت کو معاف نہیں کرتی۔ اُس کا شکار کرنے کا انداز نرالا ہے۔ وہ اپنے شکار کی شہ رگ سے اُس کے پورے وجود میں داخل ہوجاتی اور پھر اُسی کے توسط سے اپنے ہونے کا اظہار کرتی رہتی ہے۔لیکن وجود اپنے ارفع ترین درجے میں بھی محض وجود ہی رہتا ہے۔ وہ عدم کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔عدم ، وجود سے بےپناہ وسیع، بسیط اور محیط ہے۔عدم کی مثال ناممکن الحصول ہے۔ بالفاظ دگر عدم عدیم المثال ہے۔میرا ایک شعر شاید آپ کی مدد کرے،
رہے عدم کے مقابل نہیں مجال ِ وجود
ستم تو یہ ہے کہ ہم ہیں، عدم نہیں ہیں میاں!
ذات کے ہردوطرح کے اظہار یعنی کثیف و لطیف رہتے پھر بھی "پابندِ وجود” ہی ہیں۔ جو کہ کوئی اچھی بات نہیں۔ یہ حقیقت تک پہنچنے کے ناقص طریقے ہیں۔جن سے تصوف کے قنوطی مکاتب جنم لیتےہیں۔ بعض لوگ اظہارِ ذات کے مراحل طے کرتے کرتے جب اخلاق واحسان کی عظمتوں کو چھُولیتے ہیں تو بدقسمتی سے اِس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ بس حقیقت، اُن پر کھُل گئی”۔ لوگوں کو اظہارِ ذات کے حق میں دلائل دیتے ہوئے سنا گیا ہے کہ
"خدا بھی تو یہی چاہتا ہے یعنی اپنی ذات کا اظہار
وہ استدلال میں کُنتُ کنزاً مخفیاً والی حدیث یعنی "میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اظہارِ ذات کا کوئی بھی مرحلہ قابل ِ تحسین نہیں ہوتا اور نہ ہی ہوسکتاہے۔منصورؒ نے تو خود کو تماشا بنا لیا۔اظہارِ ذات کے بلندترین مرتبہ پر بھی اجزائے مادی کے اثرات سے نہیں بچا جاسکتا۔مداری خود سے مداری بن کر تماشا دکھاتا پھرے، اُسے کچھ دُکھ نہیں۔ لیکن اگر آپ کسی شخص کو اُس کے علم میں لائے بغیر تماشابنا دیں اور اُسے بعد میں معلوم پڑے کہ آپ اُسے مداری سمجھ رہے تھے تو اُسے بہت دُکھ ہوگا۔ یہی فرق وجود و عدم میں ذات کے قیام کا بھی ہے۔وجود میں ذات کی نقب زنی ہماری اخلاقیات کی رُو سے قابلِ مذمت سمجھی جائیگی۔ چنانچہ عدم میں ذات کا قیام مسحور کن تصور ہوسکتاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ۔ لامتناہی کے سامنے متناہی نہیں ٹھہر سکتا۔انسان کو اس قدر مستحکم تشخص درکار ہے جو لامتناہی کے مقابل ٹھہر سکے۔ عدم لامتناہی ہے، وجود متناہی فلہٰذا وجود عدم کے مقابل نہیں ٹھہر سکتا۔ذات وجود کا شکار کرتی ، اور بالآخر اُسے تشخص میں تبدیل کرکے گویا وجود سے الگ ایک اور ذات بنادیتی ہے، یوں گویا وہ گھر میں اپنا دشمن پال لیتی ہے۔لیکن ذات ِ لامتناہی کے سامنے ذاتِ متناہی(انسان) کا استقلال اُصولی طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ عالم وجود میں پایا جاتاہے۔ اُسے لامتناہی کے سامنے استقلال کے ساتھ ٹھہرنے کے لیے عالم وجود سے باھر آکر عالم عدم میں واپس لوٹنا ہوگا۔
اب جو انسان اظہارِ ذات کے مراحل سے گزرچکا ہے، اور درجات میں لطیف ترین مقامات پر فائز رہا ہے فرض کریں وہ باکمال تخلیق کار، بیان میں قادرالکلام، اخلاق میں ارفع ، احسان میں یکتا بلکہ فرض کریں کہ پوچھیں جو تصوف کی تو منصور کا ثانی بھی ہے تو بس یہیں تک وجود اُس کا ساتھ دے پائے گا۔ اظہار ِ ذات کا منتہیٰ انالحق ہے۔ اس سے زیادہ تشخص ِ ذاتی کا اظہار وجود ِ انسانی کی حدود میں ناممکن ہے۔ یہاں سے اُسے عدم کی طرف لوٹنا ہوگا۔ اُسے واپس آنا ہوگا۔ اگر وہ معاشرے میں رہ رہا ہے تو اُسے اظہار ذات کے لیے اب کسی لطیف و کثیف پیکر ِ وجود کی ضرورت نہیں۔ اُسے کرنا ہے تو صرف اتنا کہ اپنے ہونے کا مزید ڈھنڈورا پیٹنا بند کرنا ہے۔ وہ عدم ہونے کی مشق کرتے کرتے رفتہ رفتہ اُس بلیک ہول کی طرح ہوجائے گا جو اپنے ارد گرد کے سارے ستاروں کو نگل کر بھی سائز میں مزید چھوٹا ہوجاتا ہے۔ مزید عدم ہوجاتا ہے۔ اور جس طرح اظہار کے زمانے میں وہ ظاہر سے ظاہر ہوتا چلا گیا تھا اگر اُسی تناسب کے ساتھ معدوم سے معدوم ہوتا چلاجائے تو ممکن ہے وہ کہکشائیں تک نکل جانے والا بلیک ہول بن جائے۔
گویا اُس نے یہ راز پا لیا کہ اظہارِ ذات کا ہر منصب اضافی تھا۔ وہ ترک ِ اظہار ِ ذات کی طرف ترجیحاً مائل ہوجائیگا۔ اُس کا عدم سے وجود میں آنا اور وجود میں اظہار ِ ذات کرنا اور تشخص ِ انفرادی حاصل کرنا یہ سب کچھ اصطلاحاً غیر اختیاری تھا۔ لیکن اُس کا وجود سے دوبارہ عدم ہونا اختیاری ہوگا۔ اب وہ عالم عدم میں بھی اپنی الگ پہچان نہیں کھوئےگا۔ بقول اقبالؒ جس طرح روزِ روشن میں سورج کو چراغ دکھانے سے یہ ہوتا ہے کہ چراغ کا نُور ِ ذاتی تو سورج کے لامحدود نُورِ ذاتی میں ضم ہوجاتاہے ، لیکن بغور دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ چراغ کی لَو ابھی تھرتھرا رہی ہے۔ وہ قائم ہے، وہ زندہ ہے اگر وہ ظلمت میں واپس بھیج دیا جائے تو وہاں روشنی کرسکتاہے۔
چنانچہ تشخص کا استحکام عالم عدم میں بھی قائم رہتا ہے۔ سو اِس تمام بحث کا ماحصل یہ ہے کہ جگہ جگہ اپنے ہونے کا اظہارکرنا بچپن میں شروع ہونے والا وہ اصطلاحاً غیر اختیاری عمل ہے جو انفرادی تشخص کے ابتدائی حصول کے لیے ناگزیر سہی لیکن آخرالامرذات کا کوئی پسندیدہ مسکن نہیں۔
ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وجود جلد سے جلد اِس بات کا شعورِ نفسی حاصل کرلے کہ اظہارِذات محض تماشائے ذات کے سوا کچھ بھی نہیں۔تشخص کا دائمی استحکام اظہارِ ذات کا ڈھنڈورا پیٹنا بند کرنے سے ممکن ہے۔انسان دنیا میں اُس عظیم عدم سے وارد ہوتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں عدم سے وجود میں ڈھل جانے کے بعد وہ ذات کا شکاربن کر رہ جائے تو منصور سے آگے نہیں جاسکتا۔ اظہارِ ذات کے مراحل سے گزرکر اگر وہ دوبارہ عدم کی اہمیت کو پہچان لے تو وہ مقام ِ فنا سے مقام ِ بقا کی طرف گامزن ہوجاتاہے۔یہ گویا عدم سے وجود اور پھر وجود سے عدم تک کا سفر ہے۔اظہار ِ ذات کا منتہیٰ انالحق ہے۔ اگر منصورؒ کو شہید نہ کردیا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس سے آگے بڑھتے۔ اظہار ِ ذات سے آگے یک اور منزل ہے۔
"انالحق سے ذرا آگے”
جو پہلے تھا
وہ اظہار ِ تشخص کی تگ و دو تھی
وہ یہ ضد تھی
مجھے پہچان لو!
میں ہوں
مجھے موجود سمجھو!
میں بہت سادہ تھا
میں نے لمحہ لمحہ
دہر میں ثابت کیا
"میں ہوں”
مرے ہونے کی ضد
دنیا میں آتے ہی مرے رونے
سے ہی آغاز ہوتی ہے
جواں ہوتے ہوئے گویا
میں یوں مشہود ہوتا جارہا تھا
جس طرح تصویر بنتی ہے
میں سادہ تھا
تماشا بن گیا
لیکن خدا کا شکر ہے
اظہار ِ ہستی کی تمنا
کا حقیقی راز مجھ پر کھل گیا ہے
اور وہ ، یہ ہے کہ،
اب
موجود ہوں سے
میں نہیں ہوں تک
مجھے چلنا ہے
خدا را اب مجھے
موجود مت سمجھو!
عدم سے ہست تک
اور ہست کا پھر سے عدم تکیہ سفر
فطرت کی سازش ہے
سو اب سے اپنے ہونے کا
جھے انکار کرنا
مجھے یہ زندگی کا
تیزدریا پار کرنا ہے