عشق را اندیشه نبود زانک اندیشه عصاست۔۔۔۔۔ادریس آزاد

عشق را اندیشه نبود زانک اندیشه عصاست۔۔۔۔۔ادریس آزاد

7 مارچ 2020

انسان کا بھی عجیب حال ہے

اس کے اندر جب کسی خیال تصور یا شے کے بارے میں تشکیک پیدا ہونے لگتی ہے تو بالعموم اس کا فوری و ابتدائی سبب کوئ عقلی استدلال نہیں ہوتا بلکہ حسی ارتسامات ہوتے ہیں۔ اس کے کچھ تجربات، کچھ احوال اس پر بیتنے والی کچھ واردات کچھ محرومیوں کے احساسات اس کے مزعومات میں دراڑیں ڈالنے لگتے ہیں۔

یہی حال تشکیک کی برعکس صورتحال یعنی ایقان کا بھی ہے۔ انسان جب کسی شے کو "ماننا” چاہتا ہے تو یہ بھی عموما عقلی دلائل کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ نفسی تجربات اور کچھ حسی واردات ایک خود کار طریقے سے اس سے کچھ "منوانے” لگتے ہیں۔ بقول کسے انسان کا سب سے بڑا تجربہ تو اس کے اندر اپنے "ہونے” یعنی ہستی کا کا احساس ہے جو اس کے اندر اس شے کے فعال ہونے سے کہیں پہلے ایک ننھی کونپل کی طرح پھوٹنے لگتا ہے جسے "عقل” کہتے ہیں۔

انسان کا دوسرا سب سے بڑا تجربہ عشقیہ واردات کا وجدان و گیان ہے جو اسے نہ صرف "میں” سے "تو” کی طرف لے جاتا ہے بلکہ اسے اپنی "میں” کو "تو” کے تابع کرنے کی طرف بھی مائل کرتا ہے اور بعض انتہائی صورتوں میں وہ اپنی جان بھی اس "تو” پر قربان دینا چاہتا ہے۔ غور کیا جائے تو "میں” کی طرح اس "تو” سے التہابی محبت کا تجربہ بھی کوئی عقلی دلیل نہیں رکھتا بلکہ ایک ایسی واردات بن کر اس پر بیتتا ہے کہ محبوب کے علاوہ انسان کو کسی اور شے کی سدھ بدھ نہیں رہتی۔ حتیٰ کہ زندگی کی ٹھوس ترین حقیقتیں ـــ دکھ، تکلیف، بھوک، نقصان و خسران، نام و نمود، عزت و ناموس ـــ بھی اس کے لیے سیال بن جاتی ہیں۔

ذرا سوچئے کہ اس واردات کی بنیاد کسی عقلی استدلال پر ہوتی ہے؟ کیا اس پر یہ امر بطریق دلیل واضح ہوا ہوتا ہے کہ اسے فلاں کا عاشق بننا چاہیے؟ کیا اسے معلوم نہیں ہوتا کہ فلاں سے زیادہ حسین بھی دنیا میں موجود ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اس راہ میں تکلیفیں اور رسوایاں اس کا مقدر ہونے والی ہیں؟ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ محبوب کا وصال ممکن نہیں ہوتا؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سب معلومِ عقلی کو وہ جان بوجھ کر جھٹلاتا رہتا ہے۔ کولریج کے معروف تنقیدی اصول willing suspension of disbelief کا اطلاق یہاں بھی کر دیکھئے تو یقیناً مزہ آئے گا۔ دکھ تکلیف نقصان نام و نمود عزت و ناموس جیسے ٹھوس حقائق کو عاشق ارادے کی پوری قوت سے جھٹلاتا ہے یا نہیں؟ عام حالات میں ایسا کرنے والا یقیناً مورکھ کہلاتا ہے مگر عاشقوں کے امام مولائے روم تک فرماتے ہیں کہ عشاق کو نفع نقصان کے ان حسابی امور سے غرض نہیں ہوتی

ملتِ عشق از ہمہ ملت جُدا است

سوال ہے کہ انسان یہ سب کیوں کرتا ہے؟ اس کی زندگی میں بہت سے مرحلے ایسے کیوں آتے ہیں کہ جب وہ اپنی سوچھ بوجھ فہم دانش اور عقل و فکر کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتا ہے؟ ایسا وہ صرف اس لیے کرتا ہے کہ بس وہ ایسا کرنا "چاہتا” ہے۔ کسی عقلی استدلال کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف ایک حسی واردات اور طبیعت کے میلان کی وجہ سے۔ "عقل کی حتمی رہنمائی” کی بحث میں فلسفیوں کے فلسفی اور فنکاروں کے فنکار دستوئیفسکی کے The Underground Man کا پورا استدلال بھی اسی رخ پر ہے۔ وہ قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ ، جدید تہذیبی مظاہر سے اس کے شواہد بھی دیتا ہے۔

تو کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ یقین ہو یا تشکیک ان دونوں کی بنیادیں عقلی کم اور وارداتی زیادہ ہوتی ہیں۔ جب یقین معطل ہونے لگے، جب تشکیک جڑ پکڑنے لگے یا اس کے برعکس انسان کچھ اور "ماننے” یا جھٹلانے پر مائل ہونے لگے تو کچھ خاص طرح کے دلائل معطل ہونے لگتے ہیں اور کچھ خاص طرح کے دلائل از خود مہیا ہونے لگتے ہیں۔ اصل مسئلہ ایک تناظر کی تبدیلی کا ہے۔ آپ چاہیں تو یہاں ٹامس کون کا تصور "پیراڈائم” استعمال کر لیجئے ورنہ ہمارے میرصاحب تو صدیوں پہلے بتا گئے ہیں کہ

یہ توہم* کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

معلوم ہے کہ میر صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ کہہ رہے ہیں کہ انسان کے تیقنات ہوں یا تشککات، یہ دونوں وہم کے زائیدہ ہیں۔ ان کا انحصار "اعتبار” پر ہے۔ اعتبار کی جگہ یہاں لفظ پیراڈائم رکھ لیجئے۔ ایک پیراڈائم میں کوئی شے واقعی ہے تو دوسرے پیراڈائم میں وہی شے ہے وہمی( بمعنی خیالِ فاسد) بھی ہو سکتی ہے۔ شے کی اصل نوعیت کا تعین تو "اعتبار” پر منحصر ہے۔ یعنی "پیراڈائم شفٹ” ہوجائے تو عقل و استدلال کی فعالیت اسی طرح مبنی بر صحت ہونے کے باوجود چیزوں کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ جیسے اندھیرے میں رسی کو سانپ سمجھ لینے کے بعد عقلی استدلال اسی طرح اپنی پوری قوت سے کام کر رہا ہوتا ہے جیسے کہ کسی حقیقی سانپ کو دیکھ لینے سے انسان منطقی دلیل کے مطابق کام کرتا ہے۔ مگر اس دونوں "اعتبارات” میں (عقلی طریق کار کی صحت و درستی کے باوجود ) ان کی آخری معنویت مختلف ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک اعتبار(پیراڈائم) کی درستئ عقل دوسرے اعتبار کی معطلئ عقل کے ہم معنی ہوتی ہے۔

لہذا کے دلائل کی حیثیت محض اس عصائے پیری کی طرح ہے جو قد کی خمیدگی کے بعد سہارے کے طور پر کام آتا ہے۔

بیدل کا شعر ہے

چوں یقیں منحرف افتاد ، دلائل بالید

راستی رفت کہ ممنونِ عصایم کردند

جب یقین معطل ہوتا ہے اور تشکیک پیدا ہونے لگتی ہے تو تشکیک کے حق میں دلائل بھی آنے لگتے ہیں۔ بیدل کہتا ہے کہ یقین کی معطلی کے بعد تشکیک کے حق میں آنے والے دلائل کی اہمیت خمیدہ قامتی کے بعد عصا سے حاصل ہونے والی طاقت جتننی ہی ہوتی ہے۔ عصا جتنا بھی مضبوط اور اہم ہو مگر یہ پورے قد سے کھڑے ہونے کی حقیقی قوت( یعنی شبابِ یقین) کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اور مولانا روم کے نزدیک تو عصا اندھے کی ضرورت ہے صاحبِ عشق کی نہیں۔

عشق را اندیشه نبود زانک اندیشه عصاست

عقل را باشد عصا یعنی که من اعمیستم

مقصود اس تمام دراز نفسی سے یہ ہے کہ انسان زندگی کی عمومی روش میں اول تو دلائل پر کچھ بہت زیادہ انحصار نہیں کرتا بلکہ میلانِ طبع یا تناظر یعنی "اعتبار” کے سہارے چلتا ہے۔ دوسرے اسے دلائل کی ضرورت سلامتی طبع اور صحت مندی کے حالت میں پیش نہیں آتی بلکہ یقین کے تعطل و تزلزل کے اس عالمِ ضعیفی میں پڑتی ہے جسے تشکیک کہتے ہیں۔ اس کے اندر تشکیک اول اول "دلائل” کے ذریعے سیندھ نہیں لگاتی بلکہ محسوسات کے راستے اس کے اندر زہر گھولتی ہے۔

یہی پیراڈائم شفٹ کا وقت ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

* یہاں لفظ توہم کو وہم کے عام معنی میں نہ سمجھا جائے۔ وہم اس حسِ باطنی کو کہتے ہیں جس کا کام معانئ جزیہ کا ادراک کرنا ہے۔

منطق و کلام اور تصوف و عرفان میں وہم کے بہت سے معنی ہیں۔ ان میں سے کچھ کی کارفرمائی ذیل کی اشعار میں دیکھے جا سکتی ہے۔

جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور

جز وہم نہیں ہستئ اشیا میرے آگے

کثرت آرائی وحدت ہے پرستاری وہم

کر دیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے

ہمہ از وہم تست ایں صورت غیر

کہ نقطہ دائرہ است از سرعت سیر

کل ما فی الکون وھم او خیال

او عکوس فی المرایا او ظلال