اقرارِ خدا فلسفہ نہیں انسانی واردات ہے
اقرارِ خدا فلسفہ نہیں انسانی واردات ہے
17 اپریل 2020
استاذی المکرم و محترم جناب جلیل عالی صاحب کی پوسٹ کہ
"اقرارِ خدا فلسفہ نہیں انسانی واردات ہے”
پر حسن نقوی صاحب کا تبصرہ کہ
"فلسفہ بھی انسانی واردات ہے”
اس پر جلیل عالی صاحب کی رائے کہ،
’’فلسفہ فکری فعلیت ہونے کے ناطے انسانی شخصیت کا جزوی ذہنی عمل ہے۔ واردات پوری شخصیت کا تجربہ ہوتا ہے۔
خدا کا اقرار صرف ذہنی عمل نہیں ۔ عقلی دلیل کے بغیر بھی انسان خدا کی موجودگی کا احساس جیتا ہے ۔
آسانی کے لیے ادبی تجربے کی کلیت اور فلسفے کی جزویت سے بھی بات سمجھنی جا سکتی ہے۔ ۔۔۔۔ ادبی واردات شخصیت کی کلیت سے جنم لیتی ہے صرف ذہنی و فکری فعلیت نہیں ہوتی۔
کیا فلسفے میں وارداتِ عشق کی طرح پوری شخصیت مبتلا ہوتی ہے؟
کسی فرد کو فلسفے سے عاشقانہ لگاؤ ہو سکتا ہے۔ مگر اسے فلسفیانہ بیان بناتے ہوئے معروضیت کی شرط پوری کرنا ضروری ہے۔ ۔۔۔۔۔ اور فلسفہ اسی معروضی بیان کو کہتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ جو موضوعیت سے پاک ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ خدا کا اقرار سراسر موضوعی مسئلہ ہے جسے معروضی بنانا لازمی نہیں۔
فلسفہ معروضی ہے واردات موضوعی۔ فلسفہ عقلی ہے جبکہ واردات جذبے،احساس ، وجدان ، ایقان، وابستگیوں ، جانبداریوں ، سب کی شمولیت کا پیچیدہ تجربہ ہے۔ ۔۔۔۔۔ فلسفہ غیر ذاتی بیان ہے، واردات ذاتی و شخصی تجربہ ہے۔ ۔۔۔۔ فلسفہ تجزیاتی ہے ، واردات تاثراتی۔ ۔۔۔ فلسفہ تعبیری ہے، واردات کیفیاتی‘‘