آئیڈیالسٹس اور میٹیریالسٹس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
آئیڈیالسٹس اور میٹیریالسٹس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
2 فروری 2020
برٹرینڈ رَسل نے آؤٹ لائن آف فلاسفی میں لکھا ہے کہ فلسفہ میں دو طرح کے مکاتب ِ فکر کا ہمیشہ غلبہ رہا ہے۔ ایک وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ حواس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا بایں ہمہ عقل پر بھی نہیں کیا جاسکتا فلہذا یہ دنیا دامِ خیالِ محض ہے۔ دوسرے وہ جو حواس پر اعتبار کو زیادہ اہمیت دیتے اور مشہود دنیا کو حقیقی بایں ہمہ عقل و شعور کی واردات کو قطعی سمجھتے ہیں۔
انہی دو مکاتبِ فکر کو علی الترتیب آئیڈیالسٹس اور میٹیریالسٹس کہا جاتاہے۔ دونوں کے پاس دلائل کی کمی نہیں۔ منطق دونوں کا ساتھ دیتی ہے۔ کانٹ نے کہا تھا کہ عقلِ محض مابعدالطبیعی دلائل کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ غزالی نے بھی یہی کہا۔ اور یوں ایک حدِ فاصل قائم ہے دونوں کے مابین۔ کبھی کبھی سوچتاہوں شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول شہیدؒ کا نُور ِ مجرد اور آئنِ سٹائن کا ’’نُور ِ برق پا‘‘ دونوں ایک ہی دائرے میں واقع ہیں۔ یہ ایک مرکزی دائرہ ہے۔ دو طرف سے لوگ آرہے ہیں۔ میٹیریالسٹس ایک خطِ مستقیم پر چلتے ہوئے اِسی دائرے میں جس طرف سے پہنچ رہے ہیں، آئیڈیالسٹس اُس کی الٹی سمت میں واقع راستے پر سفر کرتے ہوئے اُسی ایک ہی دائرے تک پہنچ رہے ہیں۔
اقبالؒ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔’’ایک کا کام ہے جزواً جزواً حقیقت تک رسائی حاصل کرنا اور دوسرے کا کام ہے مِن حیث الکل اس کے ساتھ بغلگیر ہوجانا‘‘۔
میں سمجھتاہوں۔ یہ طبائع ہیں۔ دو طرح کی طبعتیں ہیں۔ایک خواب دیکھنے والے اوردوسرے تعبیر دیکھنے والے۔ ایک آئیڈیالسٹ طبیعت ہے اور دوسری میٹیریالسٹ۔ دونوں کے بغیر افسانۂ ہستی ادھورا رہتاہے۔ آپ نے کبھی غور کیا؟ مشرق میں ہمیشہ انبیأ آئے ہیں اور مغرب میں زیادہ تر فلاسفہ ۔ اور یہ عمل تھا بھی فطری نوعیت کا۔ یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ مشرق میں آنے والوں نے ہمیشہ ہی مذہب کا سہارا لیا اور بالفاظِ شخصے جھوٹ بولا۔ اقبالؒ نے لکھا ہے کہ ’’ عالم ِ فطرت کی آنکھ اپنی ضروریات کا مشاہدہ کرلیتی ہے‘‘۔ شاید مشرق کی ضرورت رُوح اور مغرب کی ضرورت عقل رہی ہوگی۔ آرکیالوجی اور علم ِ تاریخ ِ قدیم کے طلبہ ان حقائق کے اسباب یقیناً جانتے ہونگے۔
یوں لگتاہے شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول شہیدؒ کا نور ِ مجرد اہل الرُوح کی جانب سے وہیں تک کا سفر ہوگا جہاں آئن سٹائن اہل العقل کی طرف سے پہنچتاہے۔اوپر میں نے کہا کہ منطق دونوں کا ساتھ دیتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ منطق دونوں کا ساتھ ایک حد تک دیتی ہے۔ آخر تک نہیں دے پاتی۔ دونوں کو اپنے ساتھ لے کر بہت آگے تک چلتی ضرور ہے لیکن پھر اس کے پرجلتے ہیں اور ایک مقام پر ہاتھ کھڑے کردیتی ہے کہ میں اس سے آگے نہیں جاسکتی۔
ایک عقل کا جہان ہے اور دوسرا محسوسات کا۔ دونوں راستوں سے مرکزی دائرے میں آتے ہی سالک و عاقل اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’حقیقت ِ اصلی کا علم ابھی بعید ازقیاس ہے‘‘۔ فلہذا لمحۂ موجود پر ہی اکتفا کیا جائے۔ جس پل میں جینے کا موقع ملا ہے وہی ’’ہوا بھر‘‘ حقیقی لگتاہے باقی سب پتہ نہیں کیا ہے۔
ادریس آزاد