ایک دو دن کا بچہ سوتے میں ہنستا کیوں ہے؟۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

ایک دو دن کا بچہ سوتے میں ہنستا کیوں ہے؟

28 مئی 2020

کل ارشد بھائی نے ایک موضوع چھیڑدیا کہ نومولود یعنی ایک دو دن کا بچہ سوتے میں ہنستا کیوں ہے؟ مُسکراتا یا روتا کیوں ہے؟ کیا ایک آدھ دن کا بچہ بھی کوئی یاداشتیں رکھتاہے، جو اس کے خواب بن سکیں؟ اور اگر اس کی یاداشتیں اِس جہان کی نہیں ہیں تو پھر کس جہان کی ہیں؟ کیا پیدائش سے پہلے وہ کسی اور جہان میں تھا؟ کیا جب ایک آدھ دن کا بچہ روتا ہے، مُسکراتا ہے، یا ہنستا ہے تو اُس کی یاداشتیں کسی گزرے ہوئے جہان کی یاداشتیں ہوتی ہیں؟

ارشد بھائی! نے کہا کہ گوگل پر کچھ سمجھ نہیں آئی، اس لیے احباب بحث کریں۔!

اس بحث میں نعمان علی خان صاحب سمیت کافی سارے پیارے اور معتبرنام شامل ہیں جنہوں نے مجھ سے کہیں زیادہ علمی اور اہم باتیں کیں۔ لیکن میں نے ذیل میں فقط اپنے کمنٹس جمع کیے ہیں کیونکہ سب کے کمنٹس جمع کرنا میرے لیے بوجہ طوالت مشکل تھا۔ اور جمع کیوں کیے ہیں؟ یونہی، تاکہ اِس پوسٹ کے ذریعے محفوظ ہوجائیں۔ پوری بحث دلچسپ ہے اور ارشد صاحب کی وال پر موجود ہے۔

میرا پہلا کمنٹ تھا کہ،

’’کیمیائی جذبات کے لیے کسی یاداشت کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ جیسے مثلاً ایک فاترالعقل بچہ بڑا بھی ہوتا جائےتو بلاوجہ ہنستا رہتاہے۔ دماغ میں سیروٹنین کا لیول مناسب رکھنے کے لیے اب تو دوائیں بھی آگئی ہیں۔ جیسے کہ زولافٹ۔اگر آپ کا سیروٹنین لیول کنٹرول سے باہر ہوجائےتو بلاوجہ ہنسنا یا رونا معمول ہوجاتاہے۔ یہاں تک کہ ایک فلم دیکھتے ہوئے یا شعر سنتے ہوئے بھی آپ کے جذبات شدید تر ہوسکتے ہیں۔ بعض بزرگ آخری عمر میں زیادہ رونے لگ جاتے ہیں یا زیادہ ہنسنے لگ جاتے ہین۔ اس کی وجہ بھی کیمیائی ہوتی ہے۔بچے کو خواب دکھائی دیتے ہیں۔ جن کی کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔ اسے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ جو کچھ، وہ دیکھ چکا ہے فقط اتنا ہی دکھائی دیتاہے۔‘‘

پھر ارشد صاحب نے کہا،

’’بچہ تو شروع میں بہت کم جاگتا ہے سو بہت کم دیکھتا ہے. پھر اس میں خوش کن اور پریشان کن میں تمیز کیسے ؟‘‘

اِس پر میرا خیال یہ تھا،

’’بچہ نوماہ سویا ہوتاہے۔ اس وقت کی بے پناہ یاداشتیں ہوتی ہیں۔ جن میں ماں کے پیٹ کے باہر پیش آنے والے واقعات، حادثات، آوازیں بھی شامل ہیں اور پیٹ کے اندر کے مسائل جیسا کہ بیماریاں اور تکلیفیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ حمل کے آخری دنوں کی یاداشتیں اور بھی شدید ہوتی ہیں اور پیدا ہوتے ہی چند گھنٹوں میں نہایت مختصر دکھائی دینےوالی یاداشتیں بھی اصل میں لاکھوں کی تعداد میں ہوتی ہیں۔‘‘

پھر ارشد صاحب نے کہا کہ،

’’سوال یہ ہے کہ کیا بچہ 9 ماہ سے پہلے کے بھی کوئی مشاہدات و تجربات کیری کرتا ہوگا ؟

تب میں نے کہا،

میرا خیال ہے کہ نہیں۔ اگرچہ ہندومت میں یہ تصور پایا جاتاہے کہ اس کی یاداشتیں ہوتی ہیں پچھلے یُگ کی۔ اسی طرح بعض لوگوں نے اس پر لکھا یا اسے کسی حدتک متصورکیا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اول تو ایسا ہونا نہایت ہی غیر سائنسی ہوگا اور اسے لیے اکادمیہ کے ہاں نامنظور۔ لیکن اگرہم اکادمیہ کو نظرانداز بھی کردیں تو اس کا کوئی جواز نہیں، نہ ہی اسلام میں ایسا موجود ہے۔ رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ہرپیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے‘‘۔

پھرارشد صاحب نے کہا،

’’نہ کرسو مرشد! کیا آپ لمبے عرصہ سے کسی پیشہ میں مہارت رکھنے والے خاندان کے بچوں میں گزشتہ نسل کی مہارت کی چھاپ سے انکاری ہیں ؟

میں نے مزید کہا،

’’الغرض نومولود کا نیند میں مسکرانا یا رونا وغیرہ فقط کیمیائی ہے۔ یعنی اسے کوئی خواب نہیں دکھائی دیا۔ بس چھوٹی چھوٹی سی تصویریں بطورخواب اس کے پردۂ بصارت پر نمودار ہوتی اور غائب ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے وہ ہنستا یاروتاہے۔‘‘

پھر ارشد صاحب نے کہا،

’’گویا آپ انسان کا روحانی تعلق کسی اور جہان سے نہیں مان رہے ؟ پھر انسان کے تجربات کو جینٹیلی اگلی نسل میں منتقل ہونے کو بھی نہیں مانتے ہوں گے۔ تو انسانی دماغ کے ارتقاء کو کس کھاتے میں ڈالیں گے ؟‘‘

تب میں نے کہا،

’’تجربات کی منتقلی کو اس طرح نہیں مانتا جس طرح ماننے کی طرف آپ کا اشارہ ہے۔ لیکن اس طرح مانتاہوں کہ اگر ایک نوع اپنی نسل کو کسی مشکل یا مصیبت کا تجربہ منتقل کرنا چاہے تو سالہاسال کی نیچرل سیلیکشن کے بعد وہ تجربہ منتقل ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوہاروں کے ہاتھ بڑے بڑے اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ عموماً۔‘‘

اس پر امجدعلی شاہ صاحب نے کہا کہ،

’’ جب ڈی این اے پرنٹ سے خدوخال سے خاندانی کوڈ تک منتقل ہونا ثابت ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ احساسات بھی منتقل ہوتے ہوں گے ۔ بچہ حس رکھتا ہے جب ماں کے پیٹ میں مخصوص میوزک نعت یا کوئی اور آواز جو سن رہا ہوتا ہے پیدائش کے فورا بعد اس سے مانوس ہوتا ہے انسانی تخلیق بہت کمپلیکس شے ہے۔‘‘

اس پر میں نے کہا،

’’ڈی این اے والدین کے جینٹک ٹریٹس منتقل کرتاہے جیسا کہ بالوں کا رنگ، قد آواز وغیرہ۔ بہت زیادہ باریکی سے جینز کی خصوصیات کی منتقلی کا مطالعہ کیا جائے تو بعض ایسے جینز بھی ہیں جن سے غصہ زیادہ آسکتاہے یا جذباتی زیادہ ہوسکتا ہے انسان۔ ایسے جینز بھی والدین سے منتقل ہوسکتے ہیں۔ یعنی مزاج کا کچھ مختصر سا حصہ جو جسمانی خصوصیات سے متعلق ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ جینز کوئی علم کا پارچہ منتقل کریں۔ یہ ناممکن ہے۔

علاوہ بریں اقبال کے تصورِ خودی میں بھی اس پر لکھا ہوا خاصا مواد موجود ہے، جب اقبال یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ خودی کو سمجھنے کے لیے سورہ اخلاص کے ترجمہ کو خودی پر منطبق کرکے پڑھاجائے اور لم یلد ولم یولد کا یہ معنی کیا جائے کہ خودی کی نہ کوئی اولاد ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔

حضور! خدانخواستہ اگر یاداشتیں بھی جینٹکس کے ذریعے منتقل ہوتیں تو پھر نسلیت کا تصور سوفیصد درست ہوجاتاہے۔ اچھی نسلوں کے انسان اور بری نسلوں کے انسان پائے جاتے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ سیارۂ زمین پر گورے کالے یا عربی عجمی میں سے کسی کو کسی پر کوئی فوفیت نہیں۔‘‘

میں نے مزید کہا کہ،

’’ اولاد میں انسان کچھ بھی منتقل نہیں کرسکتا۔ چاہ کر بھی۔ اولاد کی تربیت ہی کرنا ہوگی۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور تربیت البتہ اولاد کے معاملے اتنی ہی آسان اور نیچرل ہے جتنی کہ ایک مرغی اپنے چوزے کو دانہ چُگنا سکھاتی ہے۔ آپ کا بچہ پہلے چند ماہ میں ہی آپ کی چال یعنی چلنے کا انداز، قدم اُٹھانے کا انداز، سر ہلانے کا انداز وغیرہ نقل کرلیتاہے۔ جب وہ چلنے لگتاہے تو یا ماں کی طرح چلتاہے یا باپ کی طرح یا گھر کے کسی اور بڑے کی طرح۔ اس بات سے میں یہ ثابت کرنا چاہتاہوں کہ اپنے بچے کی ترتیب نہایت آسان اور نیچرل ہے۔ اس لیے اسی کو کردار کی منتقلی کہہ کر گزارا چلا لیں مرشد۔ جینز سے نہ لائیں کچھ، ورنہ برہماواد واپس لوٹ آئےگا۔ اگرچہ پوری طرح سے گیا تو کبھی تھا ہی نہیں۔

پھرآصف جاوید صاحب نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ،

’’ آپ نے ہندو مت میں قبل از پیداٸش کی یاد داشت کا تذکرہ کرتے ھوۓ جب کہا اسلام میں اس طرح کی بات نہیں تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔۔۔۔عالم ارواح کے حوالے سے بات کی جائے تو ہمیں بہت کچھ ملتا ہے۔۔۔پیدائش سے پہلے روحیں عالم ارواح میں ہوتی ھیں۔۔گویا ان کی وہاں بہت طویل زندگی ہوتی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے آشکارا ہے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ بُرْقَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْأَصَمِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ يَرْفَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ .

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روحیں ( عالم ارواح میں ) الگ الگ جھنڈوں میں ہوتی ہیں یعنی ( بدن کے پیدا ہونے سے پہلے روحوں کے جھنڈ الگ الگ ہوتے ہیں ) تو ان میں سے جن میں آپس میں ( عالم ارواح میں ) جان پہچان تھی وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہیں اور جن میں اجنبیت تھی وہ دنیا میں بھی الگ الگ رہتی ہیں ۔ علاوہ ازیں قرآن میں بیان کردہ اَلَست بِرَبِّکم ۔۔۔۔ والا سوال بھی عالم ارواح ھی میں ھوا تھا۔‘‘

اس پر میں نے عرض کیا کہ،

’’ اس سے کسے انکار ہے۔ یہاں بات ہورہی ہے کہ دنیا میں آجانے کے بعد یعنی جسمانی شکل میں بچہ عالمِ خواب میں کیوں مُسکراتاہے؟ اگر اسے عالم ِ ارواح کی یادیں کہا جائے تو پھر ان یاداشتوں کا زندگی کے دیگر اداور میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی مظاہرہ موجود ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح غبی اور فاترالعقل بچوں کے ہاں بھی یہ یاداشتیں موجود ہونا چاہیے تھیں۔ اگرچہ ایم آر ائی سکین میں بھی ان کی فعّالیت نظر آنا تو چاہیے تھی لیکن ہم یہاں وقتی طورپر اکادمیہ کی ہر ترکیب و تشکیل کو درخوراعتنا ہی نہیں سمجھ رہے، اس لیے ایم آر آئی سکین کو الگ کردیں۔ لیکن پھر بھی زندگی میں عالم ِ ارواح کی یاداشتوں کا کوئی اور مظاہرہ موجود ہونا بنتاہے اگر جسمانی شکل کے نومولود کے پاس وہ موجود ہیں تو۔

یا پھر اگر آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس کے بعد بھول جاتی ہیں کیونکہ وہ اِس دنیا میں اپنا دماغ لگانا شروع کردیتاہے، تو پھر ان کے پاس ضرور موجود ہونا چاہیے تھیں جو کبھی اس دنیا میں اپنا دماغ نہیں کھپا پاتے۔ غبی اور فاترالعقل بچے۔‘‘

ادریس آزاد

 

جب یہ پوسٹ کی گئی تو اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ”اللہ نے خود کہا ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم کی نسل کو امامت کیلئے چن لیا ہے  تو پھر یہ کیا ہےنیز یہ امامت کب تک چلی کیا یہ حضر ت اسماعیل اور پھر نبی کریم ﷺ کے آبائو اجداد سے ہوتی ہوتی آپ ﷺ تک نہیں پہنچی؟؟”؟؟ اسکے جواب میں ادریس آزاد صاحب نے کہا کہ نہیں۔ پورا بیان اس طرح ہے کہ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام سے عین اس وقت کہا،ا ينال عهدي الظالمين ’’میں ظالموں کے ساتھ عہد نہیں باندھتا‘‘ جب ابراہیم ؑ اللہ سے اپنی اولاد کے لیے امامت مانگ رہے تھے۔ میرا خیال ہے آپ ساری بات خود ہی سمجھ گئے ہونگے۔الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔بنی اسرائیل تو آج بھی بڑی عجب اور باکمال قوم ہے۔ جینز کی بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں تو میں آپ سے متفق ہوں۔ آئن سٹائن بنی اسرائیل میں سے ہے، مارکس بنی اسرائیل میں سے۔ کون سا بڑا دماغ اور بڑا آدمی ہے جسے سائنسی اور معاشرتی اکتشافات اور الہامات نہیں ہوئے؟ جو بنی اسرائیل سے نہیں ہے؟انہی صاحب نے دوبارہ سوال کیا کہ جب نسلی کی کوئی بات نہیں ہے اور ماضی سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے تو پھر بنی اسرائیل کے تذکرہ کے کیا معنی ہیں؟میرا گمان ہے کہ انسانی ذہن اور سائنس ابھی بچپن کے دور سے گزر رہے ہیں اور شاید انہیں کائنات کے راز سمجھنے میں ہزاروں سال لگیں گے؟؟ اسکے جواب میں ادریس آزاد صاحب نے کہا کہ سیدِ من! اس سے کسے انکار ہے کہ انسان فطرت کے حضور ابھی بچہ ہے۔ رہ گئی نسل کی بات تو جینٹکس کی حد تک انسان کو جو علم اب تک مل چکا ہے، اس میں شک کی گنجائش کم ہی ہے۔ کیوں بھلا؟ اس لیے کہ ڈی این اے میں جینز کی ایک مخصوص اور محدود تعداد ہے اور انسانی ڈی این اے جو سب سے زیادہ پیچیدہ ہے، اسے بھی پوری طرح کھول کر پڑھ لیا گیا ہے۔ اگرچہ موڈیفائی ابھی تک کامیابی کے ساتھ نہیں کیا جاسکا۔ لیکن کیا جارہاہے۔ بنی اسرائیل ایک جین پول کیا ہوتاہے؟ ایسی جگہ جہاں بہت سارے جینز اکھٹے ہوجائیں اور مل کر اپنے لیے ایک الگ ماحول پیدا کرلیں۔ سمندر کے نیچے چھوٹی بڑی مچھلیوں کے کتنے ہی جین پول آئے روز بنتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں۔انسانی بچہ کوئی یاداشت پیچھے سے لاتا ہے یا نہیں؟ اس کا تعلق جینز کے ساتھ نہیں ہے۔ میں نے فقط اس بات پر زور دیا۔ باقی سب باتوں میں بڑی بڑی لچکیں ہیں۔ بے شک۔ (یہ کمنٹس ادریس آزاد صاحب کے پیج سے نقل کئے گئے ہیں۔)