دے جاوُو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

دے جاوُو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

تقریباً ہرانسان ‘دیجا و ُو ‘ کے تجربہ سے گزرتاہے۔ لیکن علم کی پوری تاریخ میں آج تک اس مظہر کو سمجھنے کے لیے جس قدر بھی مفروضے قائم کیے گئے ہیں ان میں سے کسی ایک پر بھی سچے دل سے ایمان لانے کو جی نہیں چاہتا۔ صرف میرے ساتھ یہ معاملہ نہیں، کسی انسان کو بھی اُن توجیہات پر یقین نہیں آتا جو آج تک کسی بھی زبان، مذہب یا علم کی شاخ کی طرف سے پیش کی گئی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم "دیجاو ُو” کو سمجھنے کی ناکام کوششیں کریں۔ قبل ازیں جو کوششیں ہوچکی ہیں ، اُن پر پہلے ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔

سب سے پہلا سوال اس لفظ کی ادائیگی کا ہے۔ کیا یہ لفظ "دی جا و ُو” ہے یا "دے جاو ُو”؟ اس مضمون کو آغاز کرتے وقت میں نے باقاعدہ فرانسیسی زبان میں ادا کیا گیا لفظ باربار سنا ۔ لفظ کی ادائیگی "دے جاو ُو” ہے۔

فرانسیسی زبان میں اِس لفظ کا معنیٰ ہے، پہلے سے دیکھا ہوا۔ انگریزی میں ‘آل ریڈی سِین’۔ یہ بلاشبہ ایک ایسی یاداشت کی جھلک کا شائبہ ہوتاہے جو ٹھیک سے غور کرنے کا پورا موقع کبھی نہیں دیتی ۔ یہ تجربہ انسان پر خود بخود طاری ہوجاتاہے یعنی کوئی بھی انسان دے جاوُو کو اپنی مرضی سے نہیں دہرا سکتا۔ کوئی نہیں جانتا، کس وقت، کس لمحے، کس دن، کس مقام اور کس بات کے لیے آپ کو دے جاو ُو کا تجربہ ہوسکتاہے۔ دے جاوُو اس کائنات کا ایک نہایت عجیب و غریب مظہر اور سربستہ راز ہے۔

عام انسان کے مطابق دے جاو ُو کیا ہے؟

"دے جاوُو ایک شعوری تجربہ ہے جس کے مطابق آپ ‘حال’ میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں محسوس کرتے ہیں کہ یہ واقعہ قبل ازیں بھی آپ کے ساتھ پیش آچکا ہے”۔

کچھ باتیں جو دے جاو ُو کے مطالعہ کے لیے الگ الگ کرکے جاننا ضروری ہیں ، مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ یہ تجربہ تقریباً ہرانسان کو ہوتاہے۔

۲۔ اس تجربہ کے دوران سب کو ایک جیسا لگتاہے۔ یوں لگتاہے کہ حال میں پیش آنے والا واقعہ ، ماضی میں بھی پیش آچکا ہے۔

۳۔ بڑوں کی نسبت ، بچوں کو زیادہ ‘دے جاو ُو’ ہوتاہے۔

۴۔ دے جاو ُو ہمیشہ نہایت مختصر وقت کے لیے پیش آتاہے۔ایک سیکنڈ سے بھی بہت زیادہ مختصر وقت کے لیے۔

۵۔ کبھی کسی انسان کو یاد نہیں آتا کہ جو واقعہ پیش آرہا ہے یہ ماضی میں کب پیش آیا تھا۔

۶۔ اِس تجربے کے دوران اور اِس کے کچھ دیر بعد تک ہر انسان کو نہایت عجیب و غریب سی ایک کیفیت محسوس ہوتی رہتی ہے کہ اس کے ساتھ کچھ بہت ہی منفرد اور مختلف پیش آیا ہے۔

۷۔ کبھی کوئی انسان دے جاو ُو کو عام یاداشت کے دوبارہ یاد آنے جیسی کیفیت سے نہیں دیکھتا۔ حیران ہونے کی یہ قسم بالکل مختلف ہے اور ایک کیفیت کی طرح دل و دماغ پر کچھ وقت کے لیے چھائی رہتی ہے۔

۸۔ دے جاوُو کے زیادہ تر تجربات بعد میں یکسر بھول جاتے ہیں اور دوبارہ ذہن پر زور دینے سے یاد نہیں آتے کہ پیش آنے والا واقعہ کون سا تھا اور اس کی جزیات کیا تھیں۔

۹۔عام حالات میں ہرانسان دے جاوُو کے بارے میں ذاتی تجربہ کی بنا پر جانتاہے اور اس پر گفتگو کرسکتاہے لیکن اِس (دے جاوُو) کے علم میں کچھ خاص حصہ نہیں ڈال پاتا۔

دے جاو ُو کے بارے میں قدیم زمانے کا غاروں میں رہنے والا انسان جتنا جانتاہوگا ہم اکیسویں صدی کے انسان بھی بس اُتنا ہی جانتے ہیں۔یاد رہے کہ میں جاننے کی بات کررہا ہوں قیاس آرائیوں اور تاویلات کی نہیں۔کیونکہ بلاشبہ یہ بتانے کے لیے کہ دے جاو ُو کیا ہوسکتاہے ہم انسان کبھی پیچھے نہیں رہے۔ بے شمار توجیہات ہیں جو مختلف مذاہب، فلاسفرز اور ماہرینِ نفسیات نے پیش کی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اصولی طور پر قابل ِ قبول نہیں۔ جب تک د ے جا و ُو پکڑ میں نہیں آجاتا یہ تمام قیاس آرئیاں محض قیاس آرائیاں اور مفروضے ہی رہینگی۔

سب سے قدیم مفروضہ ہندومت کا ہے۔ہندومت کے مطابق یہ ہماری پچھلی زندگی کی کوئی یاداشت ہوتی ہے۔ ہندومت میں کئی جنم مانے جاتے ہیں اور انڈین فلاسفی کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ ہندومت میں کئی جنم اور آواگون کا نظریہ دراصل صرف اور صرف "دے جاو ُو” کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہی ایک لاجک ہے جو ہمیشہ سے جنم چکر کے نظریہ کو کھڑے رہنے میں مدد دیتی آئی ہے۔ ہندومت کے مطابق انسان کئی زندگیاں گزار چکاہے۔ کبھی جانور بن کر دنیا میں آتا رہا اور کبھی انسان بن کر۔ ہم صرف گاؤ ماتا کے بارے میں حتمی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کا اگلا جنم انسانی شکل میں ہوگا۔باقی تمام اشکال ِ حیات کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اگلے جنم میں کیا بن کر دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔مثلاً ہم ایک چُوہے کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اگلے جنم میں ایک کتا بن کے آئے گایا انسان بن کے۔ اسی طرح ہم گزرے ہوئے جنموں کے بارے میں بھی نہیں جان سکتے۔ اگر ہم کئی ہزار سال سے مسلسل انسان ہی بن بن کر بار بار اس زمین پر آرہے ہیں تب بھی ہمیں اگلے جنم میں پچھلے جنم کی کوئی بات یاد نہ ہوگی۔گویا آواگون کے نظریہ کے مطابق موت سڑک پر پیش آنے والے اس حادثہ جیسی ہے جس سے تمام کی تمام یاداشت ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہے۔ سو ہندومت کی طرف سے دے جا و ُو کی یہ تاویل کی جاتی ہے کہ ” جب ہم دوبارہ جنم لیتے ہیں تو ہماری کوئی سابقہ یاداشت نہیں ہوتی۔ لیکن زندگی میں کبھی کبھار ہمارے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن سے ہمیں لگتاہے کہ ہم ماضی میں پہلے بھی اسی دنیا میں رہ چکے ہیں”۔

ہندو مت کے مفروضہ کو نیٹشے کے افکار کے بعد اور زیادہ اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔کیونکہ اگرچہ نیٹشے نے کہیں لکھا نہیں لیکن معلوم ہوتاہے کہ نیٹشے جیسے بھرپور فلسفی نے اپنے "رجعتِ ابدی” کے نظریہ کی بنیاد بھی دے جا و ُو پر ہی استوار کی ہے۔رجعت ِ ابدی کے حوالے سے نیٹشے کے بارے میں اقبال کے الفاظ سید نذیر نیازی نے اس طرح ترجمہ کیے ہیں،

"البتہ ایک نظریہ ہے جو فکر جدید نے بقائے دوام کے بارے میں قائم کیا ہے۔ ہمارا مطلب ہے نیٹشے کا عقیدۂ ‘رجعت ابدی’ جو صرف اس لیے غور طلب نہیں کہ نیٹشے نے اسے ایک پیغمبرانہ جوش کے ساتھ پیش کیا بلکہ اس لیے بھی کہ آج کل کی طبائع کا رجحان فی الواقع اسی جانب ہے۔ دراصل رجعتِ ابدی کا خیال ایک ہی وقت میں متعدد انسانوں کے دل میں پیداہوا۔ چنانچہ اس کے کچھ مبادیات ہربرٹ اسپنسر میں بھی موجود ہیں۔ لیکن یہ اس خیال کی اندرونی قوت تھی نہ کہ منطقی صحت جس سے نیٹشے کا ذہن متأثر ہوا ، اور جو پھر اس امر کا ثبوت ہے کہ حقائق کی کنہ اور ماہیت کے بارے میں ہم جو نظریات قائم کرتے ہیں فیضان ِ باطن کی بنا پر کرتے ہیں۔ مابعد الطبیعی غوروفکر کے زور پر نہیں کرتے۔بایں ہمہ نیٹشے نے یہ خیال چونکہ ایک باقاعدہ اور مدلل نظریے کی شکل میں پیش کیا ہے، اس لیے ہم اس کی تحقیق میں حق بجانب ٹھہریں گے ۔ رجعت ِ ابدی کی بنا اس مفروضے پر ہے کہ کائنات میں توانائی کی مقدار ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ لہذا ہم اسے متناہی ٹھہرائیں گے۔ مکان صرف ایک صورت ِ باطنی ہے اور اس لیے کائنات کے وقوع فی المکان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی خلائے محض میں واقع ہے۔ ایسا کہنا ایک بے معنی سی بات ہوگی۔رہا زمانے کا تصور سو اس میں نیٹشے نے کانٹ اور شوپن ہاوئردونوں کے خلاف یہ رائے قائم کی کہ اس کا تعلق محض ہمارے داخل سے نہیں۔ وہ ایک حقیقی اور لامتناہی عمل ہے جسے دوری ہی ٹھہرایا جاسکتاہے۔ لہذا مکان کے لامتناہی خلا میں توانائی کے زوال اور فساد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یوں بھی اس توانائی کے مراکز چونکہ بہ اعتبار تعداد محدود ہیں اس لیے ہم ان کے امتزاجات کا بھی باسانی تخمینہ کرسکتے ہیں۔مزید یہ کہ اس دواماً فعال توانائی کا کوئی آغاز ہے نہ انجام، نہ اس میں توازن کا سوال پیدا ہوتاہے، نہ کسی پہلے اور آخری تغیر کا۔ زمانہ لامتناہی ہے اور اس لیے توانائی کے جتنے بھی ممکن امتزاجات ہیں سب کے سب ظہور میں آچکے ہیں ۔ کائنات کا کوئی حادثہ نیا حادثہ نہیں۔ جو کچھ ہورہا ہے پہلے بھی ہوچکاہے۔ ایک نہیں کئی بار اور آئندہ بھی ہوتارہیگا۔لہذا نیٹشے کے اس نظریے کی رو سے حوادث کائنات کی ترتیب مقرر بھی ہے اور ناقابل ِ تغیر و تبدل بھی، اس لیے کہ زمانے کی اس لامتناہی مدت میں جس کا گزر ہوچکا ہے توانائی کے جملہ مراکز بھی اپنے طور طریق کا ایک قطعی راستہ اختیار کرچکے ہونگے ۔ لفظ ‘رجعت’ کا زور بھی دراصل اسی قطیعت پر ہے، لہذا یہ ماننا لازم آئے گا کہ مراکز ِ توانائی کا وہ امتزاج جو ایک مرتبہ ظہور میں آچکا ہے اس کا بار بار ظہور ناگزیر ہے، ورنہ اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ فوق البشر کی رجعت یقینی ہے۔ نیٹشے لکھتاہے،

‘ہرشئے واپس آچکی ہے۔ شعریٰ ہو یا مکڑی! اور یہ خیالات جو اس وقت تیرے دل میں ہیں اور یہ تیرا آخری خیال کہ ہرشئے واپس آئے گی۔ اے میرے ہم جنس! تیری ساری زندگی شیشہ ٔ ساعت کی طرح پُر اور خالی ہوتی رہے گی اور یہ حلقہ جس میں تیری حیثیت ایک دانۂ ریگ سے زیادہ نہیں ہمیشہ رخشاں اور تاباں رہے گا’۔

معلوم ہوتاہے نیٹشے نے اپنے نظریۂ رجعتِ ابدی کی اساس بھی ابتدائی طور پر "دے جا وُو” پر رکھی۔ نیٹشے کا رجعتِ ابدی اور ہندومت کا آواگون اپنی ماہیت میں کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ بس اوّل الذکر کو زیادہ سے زیادہ استدلال فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بابائے نفسیاتِ جدید فرائیڈ کے نزدیک دے جاو ُو کئی وجوھات سے پیش آتاہے۔ جن میں سب سے قابل ِ ذکر وجہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی کوئی خواب دیکھا ہوتاہے جس کی جزیات آپ کے لاشعور میں محفوظ ہیں لیکن آپ کو کبھی بھی یاد نہیں تھا کہ آپ نے ایسا کوئی خواب دیکھا تھا۔ اس خواب کے بعض اجزأ جب رئیل ورلڈ میں اچانک کسی شئے یا واقعہ، یا کیفیت سے ملتے جلتے محسوس ہوتے ہیں تو ہمیں ایسا احساس ہوتاہے جیسے ہم نے یہ پہلے بھی دیکھا ہواہے۔

نفسیات کا ایک بڑا نام۔۔۔۔۔ ایڈورڈ بی ٹچنر(Edward B. Titchener) کہتاہے کہ،

"جب ہم کسی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے تجربہ سے گزرتے ہیں تو بعض اوقات یوں ہوتاہے کہ ابھی دماغ اُس واقعہ کے شعوری مشاہدہ کی مکمل تعمیر نہیں کرپایا ہوتا کہ کسی آبجیکٹ یا کسی کیفیت کی ہلکی سی جھلک ہمارے شعوری مشاہدے کو حادثاتی طور پر متاثر کردیتی ہے۔ اور ہمیں اُس واقعہ سے جھوٹی وافقیت کا احساس دلاتی ہے”۔

سائنس دے جاو ُو کی دیومالائیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ شعور کا مطالعہ کرنے والی سائنسز کے مطابق دے جاو ُو کے بارے میں اب تک جو آرأ قائم کی گئی ہیں اُن میں جو سب سے زیادہ معقول ہے اُسے سمجھنا آسان ہے بشرطیکہ اُس سے پہلے ایک اور بات اچھی طرح سمجھ لیں۔

ہمارے جسم میں رطوبتوں کا ایک نظام ہے۔ جسم کو درپیش مختلف مسائل کے لیے جسم کے مختلف اعضا ٔ متعدد قسم کی رطوبتیں خارج کرتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر ہمارے جسم میں موجود شُوگر کو ہضم کرنے کے لیے انسولین نامی ایک رطوبت ہے جو قدرتی نظام کے تحت کام کرتی ہے اور جب جب ہمارے جسم میں شُوگر بڑھنے لگتی ہے انسولین خودکار طریقے سے میدان میں اُترتی اور اُسے کنٹرول کرتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار ایسا ہوتاہے کہ ہمارا یہ قدرتی اور خودکار نظام کسی وجہ سے خراب ہوجاتاہے۔ یہ خرابی کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔ مثلاً ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب ہمارے جسم کو ضرورت نہ بھی تب بھی ایسی کوئی رطوبت حادثاتی طور پر پیدا ہونے اور ہمارے خون میں شامل ہونے لگ جائے۔ عام زندگی میں ہم ایساہوتا روز دیکھتے ہیں۔

دماغ بھی جسم کا حصہ ہے۔ جب ہم کسی پرانےشناسا سے ملتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے چونکتے ہیں۔ اسے پہنچاننے کی ایک دو لمحے کوشش کرتے ہیں اور پھر اچانک ہی ہمیں یاد آجاتاہے کہ وہ کون ہے۔ اس طرح اچانک یاد آجانے کا عمل دماغ کی ایک عادت ہے۔ دماغ کا ایک فنکشن ہے۔دماغ کا ایک سسٹم ہے۔ جب بھی ہم اس طرح اچانک یاد آجانے کے عمل سے گزرتے ہیں تو ہماری کیفیت، شئے مذکور کے ساتھ شناسائی کی ہوتی ہے۔

بات سمجھنے کے لیے فرض کرلیں کہ، ایک رطوبت ہے جو ہمارے خون میں جب شامل ہوجاتی ہے تو ہمیں ایک خاص قسم کی کیفیت ملتی ہے جس کا نام ہے”یاداشت کا احساس”۔ (یاد رہے کہ یہ غیر حقیقی بات ہے۔ایسی کسی رطوبت کا وجود نہیں۔ صرف اصل بات سمجھانا مقصود ہے اس لیے مثال کے طور پر ایک فرضی رطوبت کو میں نے گھڑ لیا گیا ہے)۔ہم اس فرضی رطوبت کو نام دیتے ہیں، "یاداشت کی جھلک واپس لانے والی رطوبت”۔ اور اس یاداشت کو واپس لانے والے نظام کا وقتی طور پر فرضی نام رکھ لیتے ہیں، "یاداشت کی جھلک واپس لانے والا نظام”۔ مکرر دہراتاہوں کہ یہ رطوبت اور یہ نظام سب فرضی ہیں۔خیر! تو جس طرح انسولین میں بے قاعدگی پیدا ہوسکتی ہے بالکل اسی طرح یاداشت کی جھلک واپس لانے والی رطوبت میں بھی بے قاعدگی پیدا ہوسکتی ہے۔

اب ہم اُس رائے کو سمجھ سکتے ہیں جوسائنس کی طرف سے اب تک پیش کی جانے والی آرأ میں میرے حساب سے معقول ترین ہے۔

یاداشت کا عمل خودکار ہے۔ اس کا تعلق بہت سی چیزوں کے ساتھ بیک ہوتاہے۔ تحت الشعور ( Sub-conscious) اور لاشعور (Unconscious) میں موجود یادوں کے ساتھ ، دماغ کے نیورانز کے ساتھ ، بیرونی مہیجات کے ساتھ، ہمارے منطقی فہم کے ساتھ، علت و معلول (کاز اینڈ ایفیکٹ) پر خود کاریقین کی عادت کے ساتھ، اور سب سے بڑھ کر دماغ اپنے اور اپنے جسم کے بچاؤ کے لیے خود کیا چاہتاہے یعنی سروائیول آف دی فٹّسٹ کے ساتھ۔ ہم جانتے ہیں کہ دماغ کے الگ الگ نظام ہیں۔ ہر معاملے کو برتنے کے الگ الگ شعبے ہیں۔ یاداشت اور اس کا آنا جانا اُن مختلف نظاموں میں سے ایک نظام ہے۔ اس نظام میں بھی جسم کے باقی نظاموں کی طرح کسی کسی وقت حادثے رونماہوسکتے ہیں۔ چنانچہ جب یاداشت کو واپس لانے والے نظام میں کسی جسمانی یا ذہنی وجہ سے وقتی بے قاعدگی پیدا ہوجائے تو دے جاو ُو وقوع پذیر ہوتاہے۔

اس وضاحت کے پیچھے یہ منطق پوشیدہ ہے کہ ہماری وہ حس جو خود کار طریقے سے مختلف مدلولات کو اکھٹا کرتی رہتی ہے وہ ضرورت سے زیادہ فعال ہوکر دے جاوُو کا سبب بنتی ہے۔ یعنی جب ہم کوئی سا بھی مشاہدہ کررہے ہوتے ہیں تو ہماری ایک حس مصروف ِ عمل ہوتی ہے جو ہمارے ذہن میں موجود مختلف چیزوں کو جمع کرکے دوبارہ ترتیب دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم روزانہ جب آفس پہنتے ہیں تو اپنے ٹیبل پر پہلی نظر ضرور ڈالتے ہیں۔ ٹیبل پر کچھ چیزیں رکھی ہیں۔ پہلی نظر پڑتے ہی ہمارا ذہن تیار ہوجاتاہے کہ آج سارا دن ان چیزوں کو ذہن کے ایسے خانوں میں رکھنا ہوگا جو بار بار استعمال کی چیزیں رکھنے کے خانے ہیں۔ اسے کہتے ہیں، "دوبارہ جمع کرنے کی حس”۔ چھٹی کے دن ہمارا ذہن آفس کے ٹیبل پر پہلی نظر نہیں ڈالتا تو اُس دن ہمارا ذہن ٹیبل پر رکھی چیزوں کو اُن خانوں میں نہیں رکھتا جو "آج” کے استعمال کی چیزیں رکھنے کے خانے ہیں۔چنانچہ یہ حس کبھی کبھار بلاضرورت اور اچانک چیزوں کو "دوبارہ جمع کرنا” اور "آج کے استعمال کی چیزوں کے خانے” میں رکھنا شروع کردیتی ہے۔اسی طرح ہمارے ذہن کی یاداشتوں کا نظام دو حصوں میں منقسم ہے۔ نمبرایک جو شارٹ ٹرم میموری کو سنبھالتاہے اور آفس کی ٹیبل کی چیزوں سمیت روز کے روز یاد رکھنے اور روز روز بھلا دینے کا پورا سسٹم کنٹرول کرتاہے اور دوسرا وہ جو لانگ ٹرم میموری کو سنبھالتاہے۔ جس میں ہماری بچپن کی یادوں سے لے کر آج تک کی تمام ایسی یادیں شامل ہوتی ہیں جو لمبے عرصہ کے لیے سنبھالی گئی ہیں اور کبھی کبھی استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ چنانچہ جب لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم میموریز کسی وجہ سے آپس میں اوورلیپ کرنے لگیں تو دماغ پیش آنے والے واقعہ کے وقت کچھ اس طرح سے کنفیوز ہوجاتاہے کہ دے جاو ُ و کا تجربہ سرزد ہونے لگتاہے۔

مذکورہ نظریات کے علاوہ بھی بہت سی تھیوریز ہیں۔ ہرکسی نے اپنے طور پر دے جاو ُو کے بارے میں رائے دی ہے اور جیسا انہیں لگا ہے کہہ ڈالا ہے۔ لیکن ان میں سے ہر ایک تھیوری پوری طرح سے مشکوک ہے۔ہر ایک پر کئی کئی اعتراضات اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ کسی بات کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ دے جا و ُو کا تجربہ آج بھی ایک راز ہے۔

دور َحاضر میں کوانٹم فزکس کے محیر العقول نظریات کی آمد کے بعد دے جا و ُو کو بھی فزکس کی مدد سے دیکھنے کی کوشش کی جانے کے خبریں ملتی رہتی ہیں۔ مثلاً ملٹی ورس کے نظریہ کے مطابق کائناتیں بہت سی ہیں۔ یا پیرالل کائناتیں ہیں۔ یا ملٹی پل پرابیبلٹی لائنز ہیں جنہیں ٹائم لائنیں بھی کہاجاتاہے۔ ممکن ہے کل کو دے جاوُو کو اہل فزکس دریافت کرلیں اور یہ بتائیں کہ دے جاوُو پرابیبلٹیز کی سپرپوزیشن ہےجسے ہم کولیپس کردیتے ہیں۔ بہرحال سردست ہم فزکس کے حوالے سے کوئی قیاس قائم کرتے ہوئے احتیاط کادامن تھامنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ادریس آزاد