فکرعقلی عمل ہے لیکن اندازِ فکر جذباتی۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

فکرعقلی    عمل ہے  لیکن   اندازِ فکر   جذباتی۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

11 اپریل 2020

فکرعقلی عمل ہے لیکن اندازِ فکرجذباتی۔فکرکے لیے عقل استعمال ہوتی ہے لیکن اندازِ فکر کے لیے جذبات۔ فکر کے عمل سے نتائج وجود میں آتے اورذخیرۂ علم میں اضافہ ہوتاہے لیکن جذبات کے متواتراظہارسے مزاج مرتب ہوتاہے اور شخصیت اپنی شناخت کے راستے پر آگے بڑھتی ہے۔ اندازِ فکر یعنی سوچنے کا انداز جذباتی عمل ہےجبکہ بذاتِ خود فکر یعنی سوچنا عقلی عمل ہے۔ ایک لحاظ سے یہ فکر اور جذبات کا مقامِ اتصال ہے، یعنی اندازِ فکر۔مثلاً اندازِ فکر مایوس ہوسکتاہے جسے قنوطی کہتے یا اندازِ فکر اُمید پسند ہوسکتاہے۔ اسی طرح اندازِ فکر جارحانہ ہوسکتاہے یا متحمل اور معتدل ہوسکتاہے۔ اندازِ فکر مزاج کی وجہ سے ہے اور مزاج جذبات کے متواتر اظہار سے وجود میں آتے ہیں جبکہ فکری عمل یعنی سوچنا ، یہ عقل کا وظیفہ ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک ہی نکتہ ہے، جس پرغور کرناہے اور غور کرنے والے دو مختلف المزاج اشخاص ہیں۔ ایک شخص طبعاً قنوطیت پسند ہے اور دوسرا پُرجوش طبیعت کا مالک ہے۔سوال یہ ہے کیا وہ دونوں ایک ہی نکتے پر سوچتے ہوئے ایک جیسے نتیجے پر پہنچیں گے؟

بظاہر دیکھا جائے تو جواب ہوگا کہ ’’ہاں‘‘۔ وہ دونوں ایک ہی جیسے نتیجے پر پہنچے گے کیونکہ جس شئے کے بارے میں نتائج اخذ کیے جارہے ہیں وہ تعقلی ہے۔مثلاً اگر وہ سوچ رہے ہیں کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں تو دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہوگا کہ چار ہوتے ہیں۔لیکن یہ بات جتنی سادہ نظرآتی ہے، اتنی سادہ ہے نہیں۔دواوردوچار ہوتے ہیں ایک منطقی مقدمے کا نتیجہ ہے اور لازمی بات ہے کہ جواب درست آئے گااور ایسے منطقی نتائج پرمزاج اثرانداز نہیں ہوتا لیکن منطق جوں جوں پیچیدہ ہوتی جاتی ہے اندازِ فکر نتائج پر اثراندازہوتا چلا جاتاہے۔

انداز فکر کئی طرح کا ہوتاہے لیکن اس کی بڑی قسمیں دو ہیں۔ رجعت پسند اور رجائیت پسند۔ قنوطی اور پُراُمید۔ سکون پسند اور حرکت پسند۔ ساکن اور متغیر۔ سٹیٹک اورڈائنامک۔

انداز ِ فکر سے نتائج ِ فکر بھی دو ہی طرح کے مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ دنیا میں دو طرح کے نظام ہائے فکر پروان چڑھتے چلے آئے ہیں۔ ایک ساکن دوسرا متحرک ہے۔

ڈارون کے نتائج پر غورکریں تو حیرت ہوتی ہے۔ درست ترین علوم تک رسائی کے باوجود ڈارون نے بالآخر نتائج اخذ کیے تو دنیا مایوسی اور قنوطیت کے دلدل میں گرتی چلی گئی۔ کیونکہ یہ ڈارون کا اندازِ فکر تھا جو چند مخصوص نتائج تک پہنچا۔ ڈارون کے نتائج نے غم و اندوہ کو ترقی دی ہے۔ دو عظیم جنگیں اس کی گواہ ہیں۔

سوال یہ ہےکہ ایسے نظام ہائے فکر کیوں نمودار اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا کا تعلق معاشرے کی تاریخی ساخت اور حیثیت کے ساتھ ہے۔ تاریک ادوار میں لوگ وجودی ہوتے ہیں بایں ہمہ مایوس۔ تب "جاگ اُٹھو” جیسے نعرے اقوام کی ضرورت ہوتے ہیں اور بالآخرمتحرک انداز ِ فکر کے مفکرین پیدا ہوتے ہیں جبکہ روشن ادوار کے روشن معاشرے عظمت کی بلندیوں پر اپنے وجود کی سرمستیوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ سب کچھ تو رُک گیا۔ جبکہ سب کچھ رُک چکاہوتا ہے۔

ادریس آزاد