وجدان، اَندھی بصارت یا دماغ کی آنکھیں؟۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

وجدان، اَندھی بصارت یا دماغ کی آنکھیں؟۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

1 دسمبر 2019

بلائینڈ سائیٹ (Blindsight) جس کا ترجمہ میں نے ’’اندھی بصارت‘‘ کیا ہے، ایک عجیب و غریب مظہر ِ فطرت ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک بیماری ہے اور اِس کے مریضوں کو نابینا ہی سمجھا جاتاہے لیکن اِس کے مریض نابینا ہوکر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ آنکھوں سے نہیں دیکھتے، وہ بیرونی دنیا کو فقط اپنے دماغ سے دیکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق،

’’بلائیڈ سائیٹ ایک قابلیت ہے جو اُن میں سے بعض مریضوں کے پاس خود بخود آجاتی ہے جن کا ’’پرائمری وژول کورٹیکس‘‘ خراب ہوجاتاہے۔ پرائمری وژول کورٹیکس دماغ کے پچھلے حصے میں واقع ہوتاہے اور جس شخص کا ’’پرائمری وژول کورٹیکس، چوٹ لگنے سے یا کسی اور وجہ سے خراب ہوجائے، وہ نابینا ہوجاتا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو نابینا ہوجانے کے باوجود چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی اِس صلاحیت کو ’’اندھی بصارت‘‘ یا بلائیڈ سائیٹ کہا جاتاہے۔

ماہرین ِ امراض ِ دماغ یعنی نیورالوجسٹس کا خیال ہے کہ یہ دراصل وہی صلاحیت ہے جسے ہم ’’اندازہ‘‘ لگانے کی صلاحیت کہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ اندازہ لگانا ویسا نہیں جیسے مثلاً ہم اندازے سے بتاسکتے ہیں کہ ’’بارش آنے والی ہے‘‘۔ بلائنڈ سائیٹ کا اندازہ اپنی ماہیت میں ’’بائیولوجیکل لوکوموشن‘‘ جیسا ہے۔ ہمارا ہاتھ کیسے جانتاہے کہ ہمارا منہ کہاں واقع ہے؟ لیکن ہم پھر بھی کبھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر لقمہ منہ میں نہیں ڈالتے۔ ہمارا ہاتھ خود بخود چمچ یا لقمے کو ہمارے منہ تک لے جاتاہے۔ اِسی طرح میز پر پڑے چائے کے کپ کو ہم دورانِ گفتگو بار بار اُٹھاتے اور واپس میز پر رکھ دیتے ہیں۔ہماری نظر چائے کے کپ پر نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ہم ٹھیک ٹھیک جانتے ہیں کہ کپ کہاں رکھاہے۔ کئی مرتبہ ہمارا چہرہ دوسری طرف ہوتاہے لیکن ہمارا ہاتھ ٹھیک اُسی چیز کو اُٹھاسکتا ہے جسے اُٹھانے کے لیے مُڑ کر، یہ دیکھنا ضروری تھا کہ وہ کہاں رکھی ہے۔

اندھی بصارت کی حالت کے شکار لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو مکمل نابینا ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جن کی ایک آنکھ کی بصارت چلی جاتی ہے۔ ایک آنکھ کی بصارت کے چلے جانے سے مریض اُس سمت کی اشیأ نہیں دیکھ سکتا جس سمت کی، اُس کی بصارت خراب ہے۔ ایک آنکھ کی بصارت والے مریضوں پر بے شمار تجربات کے بعد نیورالوجسٹس اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مریض ’’خالصتاً اندازے‘‘ کی مدد سے دیکھتاہے اور بالکل ٹھیک ٹھیک دیکھتاہے۔

بلائینڈ سائٹ کے ایسے مریض جو مکمل طور پر نابینا ہوتے ہیں اُن کو دیکھا گیاہے کہ وہ کسی راہداری میں چلتے ہوئے، مصنوعی طور پر رکھی گئی راستے کی تمام رکاوٹوں کو دیکھ کر اور اُن سے بچ کر چلتے ہیں۔ ان رکاوٹوں کا بہت بڑا ہونا ضروری نہیں۔ اگر ان کے راستے میں فرش پر ایک کتاب بھی رکھی ہو تو وہ اُس سے بھی بچ کر چلتے ہیں۔ حالانکہ وہ مکمل طور پر نابینا ہوتے ہیں۔

بلائیڈ سائیٹ کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ،

نابینا مریض چیزوں اور حرکت کا جتنا ٹھیک ٹھیک تعیّن کرلیتے ہیں اُسے دیکھ کر آسانی کے ساتھ یہ کہا جاسکتاہے کہ،

’’ایسا ہونا فقط اتفاق سے ہی ممکن تھا‘‘

نیورالوجسٹس تسلیم کرتے ہیں کہ ہم جو بھی حرکات اورافعال انجام دیتے ہیں وہ محسوسات (پرسیپشینز) کا ردِعمل (ریسپانسز) ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ہم وقت کے اس لمحے میں، جس میں ہم موجود ہوتے ہیں اپنے آس پاس ہونے والی حرکات و سکنات اور اشیأ کو دیکھنے، سننے، محسوس کرنے اور شعوری طور پر معنی پہنانے (یعنی پرسیپشن) کے بعد، ردعمل کے طور پر جو کچھ کرتے ہیں، انہی حرکات کا نام ہے شعوری اعمال و افعال۔ اس حقیقت یا قانون کی موجودگی میں ماہرین کو حیرت ہے کہ ایک نابینا شخص کیونکر اور کیسے بغیر پرسیپشن کے ٹھیک ٹھیک ردِ عمل کا مظاہرہ کرسکتاہے؟ کیا انسان کو اپنے اعمال و افعال انجام دینے کے لیے بیرونی ماحول کے ساتھ مطابقت کی ویسی ضرورت نہیں ہے جیسی ہم اب تک سمجھتے رہے ہیں؟ یہ سوال نیورالوجی کے لیے ایک معمّہ کی حیثیت رکھتاہے۔

کیونکہ اگر ہمارے جسمانی اعمال و افعال کی ہمارے بیرونی ماحول کے ساتھ ویسی کٹر سائنسی قسم کی مطابقت نہیں جیسی ہم اب تک سمجھتے آئے ہیں تو بہت کچھ بدل جانے کا احتمال ہے۔ اگر ایسے کیسز (Cases) ہیں کہ ہمیں اپنے کسی راہداری سے گزرنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم فقط اپنے ’’شعورِ محض‘‘ کے سہارے اُس راہداری میں سے گزر سکتے ہیں جس میں رکاوٹیں رکھی ہوں تو پھر یقیناً ہم اُس میدان سے بھی بخیریت گزرجائینگے جس میں بارُودی سرنگیں بچھی ہوں۔ اور یہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھے بغیر ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر کچھ ایسا بھی ضرور ہے جس کا تعلق عہدِ حاضر کی ’’خوگرِ پیکرِ محسوس‘‘ نظر کے تخلیق کردہ جہان ہائے علوم کے درست یا غلط ہونے کے ساتھ براہِ راست ہے۔

ادریس آزاد