وجدان کیا کہتا ہے؟۔۔۔۔ادریس آزاد

وجدان کیا کہتا ہے؟۔۔۔۔ادریس آزاد

8جون 2020(یہ مضمون "مکالمہ "پر  تین قسطوں میں شائع ہو چکا ہے۔ادارہ مکالمہ کے شکریہ کے ساتھ یہاں  مکمل مضمون شائع کیا جا رہا ہے )

عقل نائنٹی نائن پوائنٹ نائن نائن نائن نائن اور بہت سارے نائن تک تو درست علم فراہم کرنے کی اہل ہے لیکن ہنڈرڈ پرسنٹ علم فراہم کرنے کی اہل نہیں ہے۔ یہ ایک اُصولی بات ہے۔

اس کے برعکس جب ہم اپنی ناک کو چھونا چاہتے ہیں تو ہماری جبلت (وجدان) ہمیں سوفیصد علم فراہم کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ ہماری ناک کہاں واقع ہے۔

قرآن کے بقول، شہد کی مکھی کو وحی کی جاتی ہے۔ شہد کی مکھی کو وحی کی جاتی ہے تو اس وحی کی وجہ سے وہ پھولوں پر گھومتی اور شہد بناتی پھرتی ہے۔ گویا جبلت ہی وجدان ہے۔ وجدانی علم کے کئی درجات ہیں۔ جانوروں کی جبلت ان کا وجدانی علم ہے۔ انسانوں میں یہ علم ترقی کرجاتاہے۔ اس کے ہردرجہ میں جو جو کچھ حاصل ہوتاہے وہ ہمیشہ سوفیصد درست علم ہوتاہے۔

عقل تصورات کو شناخت کرنے کا آلہ ہے۔ عقل کی عقلیت کو عقل ہی شناخت کرپاتی ہے۔ لیکن وجدان کی عقلیت کی شناخت کے وقت عقل ناکام رہتی ہے۔ دراصل وجدان عقل سے بلندترہونے کی وجہ سے عقل کی گرفت میں نہیں آتا کیونکہ وجدان کسی تصور کی صورت وجود نہیں رکھتا۔ جس طرح پارٹیکل کی اِنٹینگلمنٹ میں کوئی خفیہ متغیرات (Hidden variables) نہ ہونے کی وجہ سے پارٹیکل کا اپنے اِنٹینگلڈ پارٹیکل تک سپن کی معلومات پہچانا ایک ایسا عمل ہے جو سپیس ٹائم کا محتاج نہیں بعینہ اسی طرح وجدان کے ایک ’’احساس‘‘ کا وجدان کے دوسرے ’’احساس‘‘ تک کسی بھی قسم کا زمانی یا مکانی رشتہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے اِن احساسات کی منطقی تفہیم ناممکن ہوجاتی ہے۔ بالکل وہی بات وقوع پذیر ہوتی ہے کہ جب زمانِ متسلسل یعنی سیریل ٹائم یا وہ زمانہ جو آگے پیچھے(یا ماضی حال اور مستقبل) کے تصور پر قائم ہے، کسی غیر منطقی خیال کو ایک دھاگے میں پرونے سے قاصر ہے بایں ہمہ وہ دو اِنٹینگلڈ پارٹیکلز کے درمیان معلومات کے تبادلے کی اس تفہیم سے بھی قاصر ہے جو ظاہراً موجود کائنات اور اس کے اجزا کے بارے میں ہم نے اب تک تشکیل دی۔

وجدان بھی ذریعۂ علم ہے اور عقل بھی۔ اس لیے وجدان کو بھی شناخت کرنے کے آلہ کے طورپر استعمال کیاجاسکتاہے۔ دونوں ذرائعِ علم یا دونوں آلات کا زیادہ درست استعمال سیکھنا پڑتاہے۔ لیکن دونوں بغیر سیکھے بھی اپنے کمال کا مظاہرہ کرسکتے اور کرتے ہیں۔

اب چونکہ دونوں میں ایک فرق ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ عقل کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کبھی پورا سوفیصد درست نہیں ہوسکتا اور وجدان کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کبھی سوفیصد سے کم درست نہیں ہوسکتا اس لیے وجدان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن مشکل یہ پیش آتی ہے کہ وجدان کی بابت کچھ بھی سمجھنے کی پہلی جستجُو عقل ہی انجام دیتی ہے۔ اور اپنی مخصوص کمزوری یعنی نناوے فیصد ہونا یا اس سے کم ہونا، کی وجہ سے وجدان کو بطورذریعۂ علم قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ حالانکہ ایسا کرتے ہوئے بھی بعض اوقات وجدان ہی اُس اہلِ عقل کی رہنمائی کررہاہوتا ہے، جو ایسا کرتاہے۔

ایک سائنسدان لیبارٹری میں فقط عقل کے بل بوتے پر نہیں کھڑا ہوتا بلکہ اس کا وجدان ہی دراصل اس کا رہنما ہوتاہے۔ جسے ہم سائنسدان کا ذوق شوق اور جذبہ کہتے ہیں وہ اس کی عقل کی نہیں اس کے وجدان کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اس کا وجدان اسے علم کے اجزأ فراہم نہیں کرتا بلکہ من حیث الکل علم کو اس کے سامنے رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے عقل وجدان کے اُس جونیئر یا اسسٹنٹ کا فریضہ انجام دیتی ہے جو وجدان کے اکتشافات کی انفعالی حیثیت کو پرکھنے اور ان کے خالص وہبی ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق و تطبیق کا کام کرتی ہے۔ وہبی ہوا تو وجدان تھا بایں ہمہ سوفیصد درست علم تھا، وہبی نہ ہوا تو ضرور عقل کا التباس تھا۔

یہ کائنات اور اِس کی ہرشئے کو دونوں طریقہ یا ذریعہ ہائے علم کے ذریعے سمجھاجاسکتاہے۔ عقل کے ذریعے جب ہم اس کائنات کی اشیأ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وجدان ہمارا ممد ومعاون ہوتاہےلیکن وجدان کے ذریعے جب ہم اشیائے کائنات کا (سوفیصددرست) علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عقل اس کی راہ میں روڑے اٹکاتی اور التباس پیدا کرتی ہے۔ بقول خواجہ فریدالدین عطار،

زاں کہ ایں علم لزج چوں رہ زند
پیشتر راہِ دلِ آگاہ زند

وجدان نے ہماری زندگیوں کا احاطہ کررکھاہے۔ ہمارے چاروں طرف، ہمہ وقت کارفرما رہنے والا یہ ذریعۂ علم ہمہ وقت ہماری رہنمائی کرتا رہتاہے۔ ہم جب کبھی بھی وجدان کے بتائے ہوئے سوفیصد علم پر عمل کرنا چاہتے ہیں عقل مشکلیں پیدا کرتی اور اُسے سوفیصد نہیں رہنے دیتی۔ لیکن جب کبھی بھی ہم اپنے وجدان پر ایسا بھروسہ کرلیں کہ عقل اس کے تیقن میں نقص نہ ڈال سکے تو ہمیں ہمیشہ سوفیصد علم حاصل ہوتاہے۔

اگر آپ شہر اور آبادی سے بہت دورنکل جائیں اور کسی ایسے صحرا میں جہاں ہوا کی بھی آواز نہ ہو اپنے آپ کے ساتھ سرگوشی کریں تو آپ کو جس عجیب و غریب حضوریت کا احساس ہوتاہے وہ وجدان کا اپنا سپیسٹائم ہے۔ یہ حضوریت بالکل ویسی ہے جیسی ایک ذی شعور ہستی کے دوسری ذی شعور ہستی کے ساتھ ملنے پر محسوس کی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی روبوٹ یا مشین سے مل رہے ہوں تو ایسی حضوریت کو محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب آپ آئینے کے سامنے اکیلے ہوں تو اپنی ہی آنکھوں میں دیکھ کربھی یہ کیفیت جسے انگریزی میں علامہ اقبال نے اِمِّیڈی اے سی (Immediacy) کہا ہے، محسوس کی جاسکتی ہے۔ لیکن کھلے اور خاموش میدان میں تنہا اِس کیفیت کو اس قدر واضح طورپر محسوس کیا جاسکتاہے کہ بعض اذہان کے لیے تو شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ کوئی بھی شخص سرگوشی کرتے ہوئے انجانی سی احتیاط جیسی کیفیت میں جاسکتاہے، جیسے آپ کی سرگوشی کو کوئی سن رہاہو۔

اتنی تسکیں پس فریاد کہاں ملتی ہے
کوئی مائل بہ سماعت ہے یہ دل جان گیا!

جب جب کبھی وجدان کو عقلی سطح پر نیچے اُتار کر سمجھنے کی بات کی جاتی ہے تو زیادہ تر مثالیں جانوروں کی زندگیوں سے دی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مثالیں آسان ہوتی ہیں۔ جوں جوں وجدان حیاتِ انسانی میں داخل ہوتا اور مختلف انسانوں کے ساتھ مختلف درجات میں ظاہر ہوتا چلاجاتاہے اس کی مثالیں پیش کرنا مشکل ہوتا جاتاہے۔ کیونکہ اس موقع پر عقل بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ حصولِ علم میں ہماری مدد گار ہوچکی ہوتی ہے چنانچہ پیچیدہ انسانی ڈھانچے میں آکر وجدان کی مثالیں عقل سے آلودہ ہوجاتی ہیں۔البتہ عقل کی یہ کوشش فطری اور عین نظریۂ ارتقأ کے اصولوں کے مطابق ہے کہ وہ ہماری رہنمائی وجدان کے مقابلے میں زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کرے، اور کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔

جس طرح عقل فردِ واحد کے پاس بھی ہوسکتی ہے اور پھر مختلف لوگوں کے گروہ مل کر بھی کسی عقلی نکتے پر تحقیق، اُس کی تصدیق یا غوروفکرکرسکتے ہیں بعینہ اسی طرح وجدان بھی فردِ واحد کے پاس ہوتا ہے تو انفرادی وجدان ہوتاہے لیکن جب معاشرے کا مشترکہ وجدان عمل پیرا ہوتاہے تو سماجی شعورکی صورت ظاہر ہوتاہے۔ کسی بھی سماج کی ثقافت اُسی مشترکہ وجدان کا نتیجہ ہے جو کسی اجتماعِ انسانی کا اجتماعی الہام تھا۔کسی بھی سماج کا ادب اس سماج کے مشترکہ وجدان کا سب سے مناسب نمائندہ ہوتاہے۔ادب گویا ایک مسلسل نازل ہوتا ہوا الہام ہے۔ ادب، فوک وزڈم، لوک ورثہ، شاعری، افسانے، ناول، خطوط، انشایے، یہ سب کچھ اور ہرزبان میں، کُل ملاجُلا کر کسی بھی سماج کا مشترکہ وجدان یا الہام ہوتاہے۔

سائنس اور آرٹ کا سب سے بنیادی فرق ہی یہی ہے کہ ادب وجدانی و روحانی جبکہ سائنس عقلی و حِسّی سرگرمی ہے۔البتہ ایک اور فرق جو عام طورپر نوٹ نہیں کیا جاتا وہ یہ ہے کہ سائنس چند لوگوں جبکہ آرٹ پورے سماج کی مشترکہ کاوش ہے۔دُور ملتان کے کسی گاؤں میں سرائیکی کا عامیانہ سا شعر کہنے والا مزدور بھی سماج کی اس اجتماعی وحی کا حصہ ہے۔ یہ اجتماعی وحی سماج کی اخلاقیات مرتب کرتی ہے اور اسی اخلاقیات کی بنا پر معاشرے آگے بڑھتے یا پیچھے ہٹتے رہتے ہیں۔ دراصل معاشرے کا اجتماعی وجدان کسی باغ میں پھوٹتے پھول پودوں جیسا ہے۔معاشرہ بذاتِ خود ایک زندہ وجود کی مانند ہے، جسے سوشیالوجی کی زبان میں شوشل آرگنزم کہتے ہیں۔ رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بھی سماج کو وجودِ زندہ قراردیاہے۔بایں ہمہ کسی معاشرے کا ادب اس سماج کی واحد اجتماعی وحی کا نمائندہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عقل ِ محض سے مرتب کیے گئے نظام ہائے معاشرت ، سماج کے حقیقی نباض نہیں ہوتے۔ ایسے نظاموں کی موجودگی میں فرداپنے مرکزی دھارے سے جدا ہوکر جینے لگتاہے کیونکہ وہ وجودِ زندہ کے، ایک عضؤ کے طورپر مزید باقی نہیں رہ پاتا۔وہ محض اپنے ہی وجود کےتحفظ کی تگ و دو میں جُت کر مشترکہ تخلیقی عمل سے دُور ہوتا چلاجاتاہے۔ایسے معاشرے سوسال سے زیادہ قائم نہیں رہ پاتے اور جلد ہی کسی اور طرح کے معاشرے میں تبدیل یا مکمل طورپرمعدوم ہوجاتے ہیں۔مثلاً جمہوریت کوئی تازہ نظام نہیں ہے۔ صدیوں پہلے بھی جمہوریت کے بہت سے تجربات کیے گئے ہیں ۔ پھر یہ خودبخود معدوم ہوئی ۔پھر یہ خودبخودظاہرہوئی۔دراصل بقول اقبال ’’عالمِ مشہودات کی آنکھ اپنی ضروریات کا مشاہدہ کرلیتی ہے‘‘۔چنانچہ جب جہاں جس طرح کی مداخلت درکار ہوتی ہے کائنات کا نظام، خود ہی وہ مداخلت کردیتاہے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے کی مشترکہ وحی یعنی ادب اور اس کی تمام شاخوں کو دراصل سماج کے جبر کے مترادف سمجھاجاتاہے۔

فلہذا یہ طے ہے کہ وجدان بھی عقل کی طرح فردِ واحد کا الگ اوراجتماع کا الگ الگ ہوسکتاہے۔ لیکن یہ ذریعۂ علم سوفیصد درست علم فراہم کرسکنے کا اہل ہونے کی وجہ سےعقل کے مقابلے میں بہت زیادہ برترہے۔ اقبال نے لکھاہے کہ برگسان کے بقول، ’’وجدان دراصل فکر(عقل) کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے‘‘۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ جب وجدان کو سمجھنے کے لیے عقل مثالیں پیش کرنے لگتی ہے تو ہم اپنی آسانی کے لیے زیادہ ترمثالیں جانوروں کی زندگیوں سے لیتے ہیں۔ مثلاً ’’پرندےکاعرفان‘‘ ایک مشہور مثال ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پرندوں کی کئی انواع ایسی ہیں جو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک سفرکرتی ہیں، لیکن وہ کبھی راستہ نہیں بھولتے۔ پرندوں کے اس وجدان پر سائنسدانوں نے حال ہی میں تحقیقات کی ہیں۔ کوانٹم بیالوجی کے ماہرین نے تجربات کے بعد بتایاہے کہ سائبیریا سے امریکہ تک اُڑ کرآنے والے پرندوں کو ’’کوانٹم اِنٹینگلمنٹ‘‘ کے ذریعے راستہ معلوم ہوتارہتاہے۔ ان کی آنکھوں کے کارنیا میں اِنٹینگلڈ فوٹان داخل ہوتے ہیں جو زمین کے مقناطیسی قطب (میگنیٹک پول) کے فوٹانز کے ساتھ اِنٹینگلڈ ہوتے ہیں۔اب چونکہ اِنٹینگلمنٹ میں کوئی خفیہ متغیرات موجود نہیں ہیں اس لیے خود فزکس کا یہ مانناہے کہ دواِنٹینگلڈ پارٹیکلز کے درمیان سپیسٹائم وجود نہیں رکھتا۔ اسے اِنٹینگلمنٹ کی نان لوکیلٹی (Non locality) کہاجاتاہے۔ چنانچہ ہم نہایت محفوظ طریقے پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس چیز کو پرندے کا عرفان یا وجدان کہاجاتاہے وہ دراصل پارٹیکلز کی اِنٹینگلمنٹ ہے اور اِس لیےپرندے کا وجدان بھی سپیسٹائم کے وجود سے ماورا ہے۔ بالفاظ ِ دگر پرندے کے عرفان میں بھی نان لوکل انفارمیشن کارفرماہے۔ کوانٹم بیالوجی کے اِن تجربات سے بہت اُمید کی جاسکتی ہے کہ شاید آنے والے دور کےا نسان وجدان کی ماہیت کو عقلی طورپر کسی حدتک سمجھنے کے قابل ہوجائیں۔

لیکن وجدان کی انسانی قسمیں پھر بھی شاید دیر تک کسی کی سمجھ میں نہ آئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی وجدان درجات میں ان گنت اور بتدریج اُوپر کو اُٹھتاہوا یا یوں کہیے کہ کثیف سے لطیف کی طرف سفر کرتاہوا پایا جاتاہے۔ ایک نبی کی وحی کو سمجھنا کس قسم کی سائنس کے بس میں ہوگا یہ کہنا فقط کوانٹم بیالوجی کے تجربات کی رُو سے ابھی بے پناہ مشکل ہے۔

دیکھاجائےتو کائنات کی ہرشئے میں ہی کثیف سے لطیف کی طرف سفر کرنے کا رجحان پایا جاتاہے۔ مثلاً پوری کائنات میں جس قدر بھی مادہ موجود ہے، سپیس ٹائم فیبرک کی وجہ سے یہ ایک دوسرے کے نزدیک ہونے پر کششِ ثقل کے کنویں (Gravity Well) یا کششِ ثقل کے چاہِ خنداں(Gravity Dimple) میں گرجاتاہے۔ یوں گرنے سے یہ ایک دوسرے میں پیوست ہوکرچھوٹے کنکروں سے بڑےپتھربناتارہتاہے۔ جتنا مادہ ان کے آس پاس آکر چمٹتا ، چپکتا رہےگا، اُن کے مرکز میں دباؤ بڑھتا چلاجائےگا۔ آخرالامریہ مادہ اتنا بڑھ جاتاہے کہ اندرونی دباؤ کی وجہ سے ستارہ پھٹ جاتاہے۔ اور اگرکوئی آبجیکٹ کبھی بھی نہ پھٹے اور یہ دباؤ مسلسل بڑھتارہے تو آخرالامر(الٹی میٹلی) بلیک ہول بن کر ہی رہتاہے۔

بلیک ہول میں نہ تو کوئی ایٹم ہے اور نہ ہی کسی ایٹم کے بال بچے، یعنی پروٹان ، نیوٹران، الیکٹران، کوارکس، گلیوآنزوغیرہ وغیرہ۔ بلیک ہول میں جو کچھ بھی ہے اُسے مادے کی کسی تعریف کے مطابق بھی مادہ نہیں کہاجاسکتا۔ وہ انرجی ہے۔ فقط توانائی اور توانائی بھی ایسی کہ صرف اورصرف مرتعش سٹرنگز پر مشتمل۔

الغرض مادے میں اپنے مرکز پر دباؤ ڈالنے کا رجحان پایا جاتاہے۔ یہ رجحان چونکہ آخرالامر مادے کے فنا اورانرجی کی پیدائش کا باعث بنتاہے اس لیے یہ کہنا چنداں غلط نہیں کہ کائنات میں موجود مادے کے اندر کثیف سے لطیف کی طرف سفر کرنے کا رجحان پایاجاتاہے۔ کائنات کی ہرشئے میں یہی رجحان پایا جاتاہے۔

جتنا بھاری بھرکم ایٹم ہےاتنا ہی تابکار ہے۔ یورینیم کا ایٹم کتنا بھاری ہے؟ اس کے مرکزے میں بانوے (92) پروٹان ہوتے ہیں۔ یہ تو بہت ہی بھاری ایٹم ہوا ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن کا ایٹم سب سے ہلکا ایٹم ہے جس کے مرکزے میں صرف ایک پروٹان ہے۔ اب دونوں میں سے کس کوتوڑنا یا کس کا ٹوٹ جانا آسان ہوگا؟ ظاہر ہے بھاری ایٹم جلدی ٹوٹے گا۔ ایٹم بم کے دوران یورینیم کو توڑدیاجاتاہے۔ اس سے قدرے چھوٹے چھوٹے ایٹم وجود میں آتے ہیں یعنی یورینیم یورینیم نہیں رہتی بلکہ دوالگ قسم کے عناصر(elements) پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس عمل میں تین نیوٹران خارج ہوتے ہیں۔ ان میں سے دوکہیں غائب ہوجاتےہیں یا واپس یورینیم میں جذب ہوجاتےہیں لیکن ایک نیوٹران اگلے کسی ایٹم کو پھاڑنے کے لیے اس کے مرکزے میں کسی بم کی طرح جالگتاہے۔ اس سارے عمل میں ان نیوٹرانوں کی بائینڈنگ انرجی جسے نیوکلیس کے اندر گلیوآنز کہاجاتاہے اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ تباہی پھیر دیتی ہے۔

جس زاویے سے بھی دیکھیے کائنات کی ہرشئے میں کثیف سے لطیف کی طرف سفرکرنے کا رجحان موجود ہے۔ چینی کا مالیکیول بہت زیادہ بھاری ہوتاہے اس لیے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہی ،خون میں موجود پانی میں حل ہوکر ٹوٹ جاتاہے۔اس عمل سے جو توانائی پیدا ہوتی ہے وہ ہمیں فوری طورپرحرکت کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ہمیں توانائی کی ضرورت ہے لیکن ہائیڈوجن کا ہلکا مالیکیول ہماری یہ ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ ہمیں چینی کا بھاری مالیکیول اس لیے چاہیے تاکہ وہ ہمارے جسم میں جاتے ہی خون میں حل ہوکر ٹوٹے اور انرجی خارج ہو۔ وہی انرجی ہمیں چاہیے۔

اشیائے کائنات کا کثافت سے لطافت کی طرف یہ سفر فقط مادے تک ہی محدود نہیں۔ انرجی کی جتنی قسمیں ہیں ان میں دیکھیں تو بھاری انرجیاں بھی ہیں اور ہلکی انرجیاں بھی ہیں۔ لیکن انرجیوں کی دنیا میں ہلکے اور بھاری کا لفظ نہیں بولا جاتا ورنہ بہت بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں۔ انرجیوں کے معاملے میں فریکوئنسیوں کا لفظ بولاجاتاہے۔ فریکوئنسی کیا ہے؟ ایک سیکنڈ میں ایک مقام سے گزرنے والی لہروں کی تعداد۔ جیسے پل کے نیچے سے گزرنے والے پانی کی لہریں۔ روشنی کی فریکوئنسی تو بہت زیادہ ہے لیکن روشنی کی شعاعوں کے مختلف رنگ ہیں۔ سات رنگوں کی روشنیوں میں سب سے کم فریکوئنسی سرخ رنگ کی ہے اور سب سے زیادہ فریکوئنسی سبز، نیلی اور نارنجی شعاعوں کی ہے۔روشنی کی شعاعیں بھی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ اگر روشنی کی دو سرخ شعاعیں مخالف سمت سے آرہی ہوں اور درمیان میں کہیں آپس میں ٹکرا جائیں تو ایک دوسرے کی توانائی جذب کرنے کی وجہ سے وہ سرخ نہیں رہتیں بلکہ زیادہ فریکوئنسی والے کسی رنگ کی شعاع بن جاتی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک ہلکی گیند دوسری ہلکی گیند کو دھکا مار کر تیز کرسکتی ہے۔انرجیوں کی دنیا میں بلیک ہول کی اندرونی انرجی تک لطیف ہوجانے کا رجحان پایا جاتاہے۔آئن سٹائن کی فیلڈ اکویشن یا جنرل ریلیٹوٹی والی مساوات میں اس عمل کو آسانی کےساتھ ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔

چونکہ کائنات کی ہرشئے میں کثیف سے لطیف کی طرف سفر کرنے کا رجحان ہے اس لیے تھرموڈائنامکس کے تینوں قوانین اس رجحان کی پیروی کرتے ہیں۔ بطورِ خاص تیسرا قانون۔ جس کے مطابق ایک مادی نظام کا انتشار (سسٹم کی اینٹروپی) اُس وقت ایک مستقل مقدار تک پہنچنے کے قریب ہوجاتا ہے جب اس کا درجہ حرارت صفر کے قریب ہوجاتاہے۔ مطلق صفر پر اینٹروپی، اُصولی طورپرصفرہوجاتی ہے۔

ان تمام سائنسی حقائق کی مزید تفصیل سے وضاحت کی جاسکتی ہے لیکن یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہمارا قاری دورجدید کا قاری ہونے کی وجہ سے ان تصورات سے آگاہ ہے ہم پھر ایک بار محفوظ طریقے پر یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ کائنات میں ایک خاص قسم کی ٹینڈینسی کارفرماہے اور وہ ٹینڈینسی یا رجحان یہ ہے کہ ہرشئے کثیف سے لطیف ہونے کی طرف مائل رہتی ہے۔ لیکن اس سے یہ غلط فہمی ہرگزپیدا نہ ہو کہ کہیں کہیں جو اس کے برعکس نظرآتاہے وہ اس رجحان کے منافی ہے۔ مثلاً جب سپیس ٹائم کی کسی قوس (Curve) میں مادہ جمع ہورہاہوتاہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں تو مادہ لطیف سے کثیف ہوتاجارہاہے؟ بالکل بھی نہیں۔ یہ منظر اسی جانب گامزن ہے جو کائنات کا حتمی مطمحِ نظرہے۔

بعینہ ایسا ہی رجحان پہلے انسانی شخصیت اور پھر شخصیت سےذات تک کے سفر میں دیکھاجاسکتاہے۔ نیا پیدا ہونے والا بچہ فقط ایک وجود جسمانی کی شکل میں پیدا ہوتاہے۔ جس کا کوئی نام نہیں، کوئی شناخت نہیں، کوئی پہچان نہیں اور کوئی جوہر نہیں۔ وہ ایسا زندہ وجود ہے جو پرندے کے عرفان تک سے بظاہر محروم دکھائی دیتاہے۔ اس کی اسی محرومی کو دیکھ کر اہل وجودیت نے وجود کو جوہر پر متقدم قرار دیاتھا۔ حالانکہ وہ لمبی عمر پانے کے جِینز لے کر پیدا ہوا اور اِس لیے اس کی جبلت یا اس کا وجدان جانوروں کی جبلت اور ان کے وجدان سے مختلف ہے۔ وہ شناخت کرنے کا وجدان رکھتاہے، جو ایک زیادہ بڑا وجدان ہے۔ وہ معصوم ہے لیکن اس کے پاس ایک ایسا ذریعۂ علم موجود ہے جواُسے سوفیصد یقینی علم فراہم کرتاہے۔ وہ اتنی ننھی سی عمر میں کسی چہرے پر موجود محبت اور نفرت کے فرق کو صاف پہچان لیتاہے اور اس کا فیصلہ سوفیصد درست ہوتاہے۔

ابھی اس کی عقل اپنی کارفرمائیوں پر نہیں اُتری۔ ابھی اس کے علم ِ وجدانی میں عقل کا التباس شامل نہیں ہوا اس لیے عقلی علوم میں ناقص ترین لیکن وجدانی علم میں باکمال ہستی کے طورپر اپنے ہونے کا اظہار کرتاہے۔ لیکن جوں جوں اس کے عقلی علوم کی شمع روشن ہوتی چلی جاتی ہے اس کے وجدانی علم کا دروازہ تنگ ہوتے ہوتے فقط ایک روزن بن کر رہ جاتاہے۔

لیکن جب ہم اس کے تجربات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو حیرت انگیز طورپراس کے ابتدائی بچپن کا تمام عہد کثیف سے لطیف کی طرف سفر کا عہد ہے اور یہ سفر مرتے دم تک جاری رہتاہے یعنی چھوٹا بچہ عقلی جستجو کے اعتبار سے مادی کائنات میں غرق ہوتاہے۔ وہ کسی اچھے سائنسدان کی طرح ہوتاہے۔ اس کا تجسس یہ ہے کہ چیزوں کو جان لے۔ اس کے لیے رستوں کے گرد اُگے پھول اور ان پر اُڑتی تتلیاں کُل توجہ کا مرکز ہیں۔ جوں جوں وہ بڑا ہوتاجاتاہے اپنےگردوپیش سے ماورا ہوتا چلاجاتاہے۔ یہ پھراس کے فقط ایک روزن بھر وجدان کی کارفرمائی ہے۔جوپھیل کر دوبارہ کھلا دروازہ بھی بن سکتاہے اور زیادہ نہیں بھی پھیل سکتا۔