ڈینش فلاسفر کیرکے گارڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

ڈینش فلاسفر کیرکے گارڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

21 مئی 2020

ڈینش فلاسفر کیرکے گارڈ (Kierkegaard) جس کے نام کا ٹھیک ٹھیک ڈینش تلفّظ ’’کھرکے کو‘‘ میں نے محترمہ صدف مرزا سے سیکھا، جو ڈینش زبان کی ماہر ہیں اور حال ہی میں اُن کی ’’زبانِ یار ِ من دانش‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی آئی ہے جن میں ڈینش تاریخ، تہذیب، ثقافت وغیرہ کے ساتھ ساتھ ڈینش ادب کو براہِ راست ڈینش سے اردو میں ترجمہ کیا گیاہے۔ نام کی بابت اتنی تفصیل سے میرا مقصد فقط کیرکے گارڈ کے نام کی ڈینش ادائیگی ’’کھرکے کو‘‘ کی سند فراہم کرناہے۔

کھرکے کو، کو ایگزسٹینشلزم کا بابا آدم یعنی فادر مانا جاتاہے۔ ایگزسٹینشلزم دنیائے فلسفہ میں ایک ایسی تحریک کا نام ہے جو صرف ’’انسان‘‘ کو فوکس کرتی ہے۔ انسان کو فوکس تو اینتھروپولوجی بھی کرتی ہے بلکہ اینتھروپولوجی کا تو اردو ترجمہ بھی ’’علم الانسانیات‘‘ ہے۔ اسی طرح انسان کو فوکس تو سائیکالوجی (نفسیات) بھی کرتی ہےتو پھر ایگزسٹینشلزم کا فوکس کس نوعیت کا ہے؟ دراصل ایگزسٹینشلزم سقراط کی طرز پر انسان کو اپنے موضوع کا مرکز بناتاہے۔ مخترترین تعریف کے مطابق،

’’ایگزسٹینشلزم حیاتِ انسانی میں ’مقصد کی تلاش‘ کا علم ہے‘‘

ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہوش سنبھالنے سے بہت پہلے ہمارے والدین ہماری زندگی کے مقاصد ہمارے ذہنوں میں ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔ مذاہب میں بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اُس کے کانوں میں زندگی کے مقاصد پھونکنا شروع کردیے جاتے ہیں، جیسا کہ ہم مسلمانوں میں نومولود کے کانوں میں آذان دی جاتی ہے۔ غرض ہم ابھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں جب ہمیں یہ پتہ چل جاتاہے کہ ہم انسان ہیں اور ہر انسان کی زندگی کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ ایگزسٹینشلزم اِس خیال پر شک کرتاہے۔ ایگزسٹینشلزم کے شک کرنے کا انداز بھی بالکل سقراط والا ہے۔ یعنی فقط ایسا شک جو کسی خاص عقیدہ کو جھٹلانے کے لیے نہ ہو اور نہ ہی اسے سچا ثابت کرنے کی نیّت سے ہو۔ بلکہ بس سیدھا سیدھا ایک طالب علم والا شک ہو۔

بعض لوگ تو کیرکے گارڈ (فادر آف ایگزسٹینشلزم) کو یورپ کا سقراط بھی کہتے ہیں۔ خود کیرکے گارڈ کو بھی سقراط کا فلسفہ، طریقِ گفتگو اور تشکیک کا انداز بہت پسند تھا۔ سقراط کا شک کرنے کا انداز کیا ہے؟ سقراط کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے ساتھ مکالمہ کرتے وقت، پہلے سے یہ ذہن بنا کر بات نہیں کرتا کہ اُس نے اپنا فُلاں فُلاں نظریہ منوانا یا ثابت کرناہے اور ہرحال میں ثابت کرناہے۔ سقراط بڑے آرام سے صرف شک کرتاہے۔ ہر اُس بات پر شَک جسے بغیر تحقیق کے قبول کرلیا گیاہو۔ وہ بعض اوقات خود اپنے ہی خیالات پر اُسی شدت کے ساتھ گرفت کرتاہے جس شدت کے ساتھ وہ مخالفین کے خیالات پر گرفت کرتاہے۔ کسی بھی بحث سے سقراط کو کوئی خاص مقصد کی برآوری مطلوب نہیں ہوتی۔ یہ ایک خالص ایگزسٹینشلسٹ طرز فکر ہے۔

ایگزسٹینشلزم ایسی ہی سقراطی تحریک کا نام ہے۔ سقراط کے شاگرد افلاطون کا نظریہ الگ ہے۔ افلاطون نامکمل کو مکمل دیکھنے کا آرزو مند ہے اوریوں گویا اس کے سامنے ایک بڑا مقصد موجود ہے۔ فلہذا ہم سقراط کو پہلا ایگزسٹینشلسٹ کہہ سکتے ہیں جبکہ افلاطون کو سرے سے ایگزسٹینشلسٹ ہی نہیں کہہ سکتے۔ فلسفہ ہو یا مذہب جو کوئی بھی حیاتِ انسانی کے سامنے کسی قسم کا کوئی مقصد رکھتاہے، ایگزسٹینشلزم کو اُس پر اعتراض ہے۔ نہایت شدید اعتراض۔ کوئی بھی بڑا مقصد انسانوں کے سامنے رکھنا، انسانوں کی شخصی اور انفرادی آزادی کا خاتمہ کردینے کے مترادف ہے۔ کسی بھی بڑے مقصد کے ساتھ منسلک لوگ کسی ریوڑ کی بھیڑوں جیسے ہیں۔ ان میں فکروعمل کی آزادی اور اختیار مفقود ہے۔ وہ خود اپنے لیے نہیں جیتے اور نہ ہی جی سکتے ہیں۔ وہ دباؤ میں زندگی گزارتے ہیں۔ ایسا دباؤ جو فی الحقیقت اُن پر لاد دیا گیاہے۔ یہ سب عقیدے، یہ سب تہذیب و تمدن، یہ سب عہدے، مقام اور مرتبے، یہ سب دھن، دولت، جائیدا، پیسہ، اولاد، گھوڑے اور کامیابیاں، یہ سب جنّت، جہنم، آخرت، یہ سب کے سب مقاصد بے معنی ہیں۔ مذاہب کی طرف سے عطاکردہ بڑے مقاصد جیسا کہ ’’خدا کی زمین پر خدا کا نظام‘‘ نافذ کرنے جیسے نعرے، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو انسان اپنے ماحول کی مجبوریوں کی وجہ سے نہ صرف اختیار کرتا بلکہ ان لایعنی چیزوں کو مقاصدِ حیات مان کر خود کو عمر بھر خوارکرتاہے۔ انسان آزاد ہے تو اس کو اپنے مقاصد کا تعیّن کرنے کی آزادی بھی ہونا چاہیے۔ یہ ایگزسٹینشلزم کا پہلا مطالبہ ہے۔

کیرکے گارڈ خدا کو مانتاہے۔ وہ صرف خدا کو مانتا ہی نہیں بلکہ عیسائیت کا اچھا خاصا مبلغ ہے، لیکن وہ اپنے وقت کے چرچ کو ’’ڈرامہ ہال‘‘ کہہ کر پکارتاہے۔ وہ کہتاہے کہ ایک طرف چرچ کا سٹیج ہے اور دوسری طرف آرٹس والا ڈرامہ سٹیج۔ دونوں پر اداکار موجود ہیں۔ فرق صرف اتناہے کہ آرٹس والے سٹیج کا اداکار یہ تسلیم کرتاہے کہ وہ اداکار ہے اور اداکاری کررہاہے جبکہ چرچ کے سٹیج پر موجود ادکار یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ اداکار ہے اور اداکاری کررہاہے۔ اگر کیرکے گارڈ چرچ کی کھلم کھلا مخالفت کرتاہے تو پھر وہ خدا کو کیسے مانتاہے؟

قطع نظر اِس کے کہ کیرکے گارڈ کے نزدیک خدا اور وجود ِ خدا کی بحث کیا ہے، کیرکے گارڈ کا کہنا یہ ہے کہ انسان کا خدا کے ساتھ ذاتی تعلق بہت ضروری ہے۔ یہ مذہب ہی ہے جو ہر انسان کو اس کی ’’انفرادیت‘‘ فراہم کرتاہے۔ کیرکے گارڈ کے زمانے میں کارل مارکس پیرس میں تھا۔ کارل مارکس خدا اور مذہب کا منکر تھا۔ کیرکے گارڈ تک اس پیش آمدہ سُونامی کی گونج پہنچ رہی تھی جو مارکسزم کی کامیاب تبلیغ کے بعد شمال مشرق سے اُٹھنے والا تھا۔ کیرکے گارڈ نے انہی بنیادوں پر کہا کہ اشتراکیت میں انسان کی انفرادیت کا کوئی وجود نہیں۔ ایک اشتراکی معاشرے کا فرد اپنی انا کو مکمل طور پر کھو بیٹھےگا۔ اس کے معاشرے میں خدا نہیں رہے گا۔ وہ خدا جس کے سامنے اُس کی انفرادی ذات بالکل الگ سے باقی اور قائم دائم رہتی ہے ۔ وہ زمانے بھر کا دھتکارا ہوا ہوتا ہے تو تب بھی اپنے خدا کے ساتھ باتیں کرکے اپنی انفرادی اہمیت کا احساس زندہ رکھ سکتاہے۔ انفرادی شخصی اہمیت کسی بھی معاشرے کے افراد کے لیے ضروری ہے۔ یہ انفرادیت ہی ہے جو ہرپل انسانوں کے اندرونِ ذات سے نت نئے تخلیقی شاہکار برآمد کرتی اور معاشرے کی صعودی حرکت کو برقرار رکھتی ہے۔ خدا اور خدا کے ساتھ تعلق کسی بھی معاشرے کی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ کمیونسٹ معاشرے کا شہری ایک بہت بڑے ریوڑ میں موجود بھیڑ جیسا ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہاں ساری کی ساری حیثیت معاشرے کی ہے۔

ادریس آزاد