کیا خدا کا وجود ہے؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
کیا خدا کا وجود ہے؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
7 مارچ 2017 (یہ مضمون "دلیل ” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ دلیل کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)
’کیا تصورِ خدا فقط انسانی ذہن کا کرشمہ ہے؟‘‘ یہ ایک ایسا پُرانا سوال ہے جو ہمیشہ تروتازہ رہا۔ ’’کیا خدا ہے؟‘‘۔ اِس موضوع کو لے کر صدیوں پر محیط سوالات اور ان کے جوابات کے سلاسل سے کتابوں کی الماریاں بھری پڑی ہیں۔ لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ خدا کو ماننے اور نہ ماننے کا تعلق کتابوں اور عقلی دلائل سے نہیں بلکہ جذبات سے ہے۔ ہم اگر ایک ’’کوانٹی ٹیٹِو‘‘ (Quantitative) ریسرچ کریں اور چھ ارب انسانوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے تصورِ خدا کا مطالعہ کرنے کی کوشش کریں تو ایک بات پورے ثبوت کے ساتھ سامنے آسکتی ہے کہ اِس تصور کا تعلق انسانی کی عقلی زندگی کے ساتھ نہیں بلکہ جذباتی زندگی کے ساتھ ہے۔
اس بات کو ہم ایک فرضی مثال سے سمجھتے ہیں، فرض کریں ایک شخص خدا کو مانتا ہے۔ وہ اہل ِعلم اور عقل والا ہے۔ وہ صبح شام، خدا کے ہونے کے حق میں دلائل دے سکتا ہے اور دیتا رہتا ہے، لیکن اگر زندگی میں کسی موڑ پر اس کے ساتھ پے درپے ایسی زیادتیاں ہونا شروع ہوجائیں جن کا سبب بظاہر پوشیدہ ہو۔ وہ دیکھے کہ، ’آج پھر بچے بھوکے سوگئے‘۔ وہ دیکھے کہ اُس کی بیوی نے اِس بار بھی گرمیوں کے کپڑے نہیں بنائے۔ وہ دیکھے کہ دنیا کی زندگی کو بہتر کرنے کی ہر کوشش رائیگاں جا رہی ہے۔ وہ اِن مسائل کو عقل کے زور پر متصوفانہ رنگ میں بیان کرنے کی ہزار کوشش کرے۔ وہ خدا کے اور زیادہ قریب ہوجانے کی نام نہاد خوشی کو باقاعدہ نفسیاتی طور پر محسوس بھی کرنے لگے، لیکن سچ یہ ہے کہ اُسے ’’خدا‘‘ سے ایک گِلہ، ایک شکوہ سا ہمیشہ رہے گا۔ وہ دل ہی دل میں اُسی خدا سے خفا ہوگا جس کے نام کا وہ کلمہ پڑھتا ہے۔
یہ سب جذباتی چیزیں ہیں۔ غصے سے خدا کو چھوڑ دینا۔ خوشی سے خدا کو پیار کرنے لگنا۔ ضرورت پڑنے پر خدا سے مانگنا۔ ڈر کے عالم میں خدا کو ایسے پکارنا جیسے بچہ ماں کو پکارتا ہے۔ شدتِ غم میں اُس سے ناراض ہو جانا۔ یہ سب جذباتی کیفیات ہیں، عقلی نہیں۔ تمام تر جذباتی کیفیات جسم میں موجود رطوبتوں کے نظام کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ خوشی، غم، غصہ، خوف، یہ سب کیمیائی تعاملات ہیں۔ کیمیائی ہیں تو لازمی بات ہے کہ ہم انھیں لیبارٹری میں بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ خوشی، غم، افسوس، پریشانی، غصے اور نفرت کو ایک انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں منتقل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ جذباتی کیفیات جسم میں موجود مختلف محلولوں کے اُتھل پتھل ہوجانے سے پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ ’’خدا‘‘ کو عقل کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش یکسر فلسفیانہ عمل ہے، جس کی فی الاصل کچھ خاص اہمیت نہیں، کیونکہ لوگوں کا خدا کو ماننا یا نہ ماننا عقلی نہیں بلکہ جذباتی فیصلہ ہوتا ہے۔
چنانچہ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ایسی ہستی کا وجود ممکن ہے جس کے ساتھ انسانوں کا عقلی نہیں بلکہ جذباتی تعلق ہے، ہمیں انسان کو پہلے اس کی جذباتی سطح پر دیکھنا ہوگا نہ کہ عقلی۔ تاکہ ہم اُس کے جذبات میں صداقت کی کسی گنجائش پر سائنٹفک طریقے سے غور کر سکیں۔ بظاہر تو انسان جذباتی سطح پر محض ایک جانور ہے۔ لیکن کیا ’’سرشاری‘‘، ’’استغنا‘‘، ’’اُنس‘‘، ’’بےنیازی‘‘ اور’’دے جاؤ‘‘ بھی کیمیائی تعامل کے ذریعے پیدا ہونے والی کیفیات ہیں؟ کیا دیانتداری سے کام کرنے کے بعد جو سکون ملتا ہے، وہ بھی خون میں پیدا ہونے والا کیمیکل ری ایکشن ہے؟ یقیناً نہیں۔ یقیناً ہم انسانی کیفیتات کی بعض منفرد شکلوں کو فقط مادے کا ارتقاء کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے۔ اور ایسی کیفیات بھی قطعاً غیر سائنسی نہیں۔ فطرت پر رُوحانیت کا راج ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ ’’مست قلندر درویش‘‘ ہے۔ دو بھیڑیں بھی ایک دوسرے کو کسی رُوحانی رشتے کی بنا پر پہچان لیتی ہیں، چاہے انھیں مدت بعد ایک دوسرے سے ملوایا جائے۔ یوگا کے ماہرین بتاتے ہیں کہ سرشار کر دینے والی کیفیات کا ایک جہان ہے جس کا کچھ تعلق خون میں ہونے والے کیمیائی تعامل کے ساتھ نہیں۔
اس پر مستزاد انسان اپنی نفسیاتی زندگی میں توھّمات کا مرقع ہے۔ یہ توھّمات اُس میں ’’بِلٹ اِن‘‘ (Built in) ہیں۔ دماغ کا ایک حصہ جس کا نام ’’ایمِگڈالا‘‘ (Amygdala) ہے، مامور ہی اِسی کام پر ہے کہ ذرا سی تبدیلی کو چونک کر دیکھے اور روز کے معمول سے کچھ ہٹ کر پیش آئے تو توھّم کو بیدار کر دے۔ بس، پھر توھّم کا کام ہے کہ وہ اس واقعہ کو معانی پہناتا چلا جائے۔ کوئی سائنسفک دماغ ہوگا تو وہ کئی جہات پر غورکرے گا لیکن واقعہ میں ’’تکرار‘‘ کی صورت وہ بھی بالآخر توھّمات زدہ تخیلات قائم کیے بغیر نہ رہ سکے گا۔ کیونکہ ذہن میں پیدا ہونے والے خودکار خیالات کو روکنے کا ابھی کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا۔ کوئی بڑے سے بڑا سائنس پسند ملحد اپنی جبلت میں سے توھّمات پسندی کو نہیں نکال سکتا۔ جن معاشروں سے ’’مذہب‘‘ بطور مذہب کے مفقود ہوتا جا رہا ہے، اُن معاشروں میں توھّمات بدستور موجود ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ توھّم پرستی انسان کو فطرت سے بطور تحفہ ملی ہے۔
’’وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی عمل (یعنی اپنے ذاتی، نفسیاتی تجربے) کے تکرار کو فطرت کے ساتھ اپنی کمیونیکیشن سمجھتا ہے‘‘۔ وہ چونک جاتا ہے۔ بار بار ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ وہ سوچتا ہے فطرت اسے کچھ سمجھانا چاہتی ہے۔ وہ ہمیشہ اُس تکرار کو کوئی نہ کوئی پیغام سمجھتا ہے اور اسے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اِس کیفیت سے وقت کا بڑے سے بڑا ملحد بھی نہیں بچ سکتا۔ آپ روز گھر سے نکلیں اور روز ایک بادل آپ کو دُور سے نظر آئے جو ہر روز ایک گھوڑے کی شکل میں ہو، اور آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک جہاز کی شکل بنا لے تو کب تک آپ اِس بات سے انکار کریں گے کہ وہ کوئی میسج نہیں ہے؟ دس بار کہ بیس بار؟ توھم میں ’’تکرار‘‘ کا ہونا ضروری ہے، حالانکہ وہ بادل ہر روز، اوروں کو بھی تو ویسے ہی نظر آنے چاہییں جیسے آپ کو دکھائی دیتے ہیں۔ کسی انسان کے اعصاب جس قدر کمزور ہوتے ہیں، اتنے ہی کم ’’تکرار‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی انسان کے اعصاب جتنے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، واقعہ میں اتنے ہی زیادہ تکرار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہی ’’تکرار‘‘ ہی تو ہے جسے ہم نام نہاد ’’سائنسی طریقِ کار‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ سائنس کیا ہے؟ کسی بھی تجربے کو دہرایا جاسکے۔ اگر آپ نے آکسیجن کے ایک ایٹم کے ساتھ ہائیڈروجن کے دو ایٹم ملائے اور پانی بن گیا اور یہ عمل، آپ نے بار بار دہرایا اور ہر بار پانی بنا، تو ہم کہیں گے کہ آپ نے ’’سائنس سرانجام دی ہے‘‘۔ یہی تکرار توھّم کا بھی خاصہ ہے۔ اس سائنسدان کو کمزور اور نالائق سمجھا جاتا ہے جس کا تجربہ ’’تکرار‘‘ کے کرائی ٹیریا سے کامیابی کے ساتھ نہ گزر سکے۔ بالکل ویسے جیسے کمزور اعصاب کا مالک شخص اپنے توھّم میں کم سے کم تکرار دیکھ کر بھی معنی تلاش کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ سائنسی تجربے اور توھّم کے شخصی تجربے میں فرق یہ ہے کہ اوّل الذّکر کو دوسرے انسانوں کی موجودگی میں بھی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ ثانی الذکر کو دوسرے انسانوں کی موجودگی میں اس لیے سرانجام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ فرد کا ذاتی، نفسیاتی تجربہ ہے۔
انسان کے ذاتی، نفسیاتی تجربے میں توھّم ایک لازمی عنصر کے طور پر موجود رہتا ہے۔ اُسے نکالنا ممکن نہیں۔ ایک موٹر مکینک کام کے دوران، ایک ڈرائیور ڈرائیونگ کے دوران، ایک ٹیچر کلاس میں، ایک سائنسدان لیبارٹری میں، غرض کوئی بھی اپنی ذاتی، نفسیاتی واردات کو نظرانداز نہیں کرسکتا، اگر اس میں ’’تکرار‘‘ کا عنصر ہو۔ آپ کو لوہا راس آتاہے۔ آپ کو کوئی ہندسہ راس آ سکتا ہے، کوئی لَکی نمبر۔ آپ کو کسی شخص کا چہرہ دیکھ کر دن خراب ہو جانے کا ڈر ہو سکتا ہے۔ آپ کو نظر لگ سکتی ہے۔ آپ کو اپنے اندرونی نفسیاتی حوادث کی بدولت ہزارہا ایسی کیفیات کا سامنا ہو سکتا ہے جو کسی اور کو نہ ہوتی ہوں۔ ہم اپنے ساتھ تو بہت ذاتی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ہم سجدے کی حالت میں، ویران اور خاموش سڑک پر آوارگی سے چلتے ہوئے، بند کمرے میں یا واش روم میں اپنے ساتھ کتنے’’ قریبی‘‘ ہوتے ہیں؟ ہم آئینے کے سامنے اپنے ساتھ کتنے قریبی ہوتے ہیں۔ کتنی ہی تکراروں سے ہم واقف ہیں جو بچپن سے ہمارے ساتھ پیش آئیں۔ ہم کیوں نہ اپنے ہاتھ میں ہونے والی کھجلی کو کوئی میسج سمجھیں گے؟ اچھا! مان لیا کہ معروف قسم کے توھّمات سے آپ چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو کٹر قسم کا وہابی ہونا پڑے گا۔ لیکن کیا وہ توھّمات جو فقط آپ اپنے ساتھ کرتے ہیں، ان سے بھی چھٹکارا مل جائے گا؟
’’سلیم کا فون جب بھی صبح صبح آتا ہے، میرے ساتھ دن میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور پیش آتا ہے۔‘‘ کیا اِس قسم کے ذاتی توھّمات سے آپ ’’کٹر وہابی‘‘ ہو کر بھی بچ پائیں گے؟ ایسے تمام واقعات کو ہم فقط ایک خاص قسم کی ’’تکرار‘‘ کی وجہ سے ہی فطرت کی طرف سے اپنے لیے خاص پیغامات سمجھتے ہیں۔ ایسا ہر کوئی سمجھتا ہے۔ کیا یہ واقعی فطرت کی طرف سے پیغامات ہوتے ہیں؟ غالباً اقبال نے سچی وحی کی تین نشانیاں بتائی ہیں: ’’ 1۔ اُس کی صداقت پر خود کو فوری یقین آجائے۔ 2۔ وہ کسی کے سامنے بیان کی جائے تو اس کی صداقت پر سننے والے کو فوری یقین آجائے۔ 3۔ اس کے نازل ہوتے ہی سابقہ عقیدہ فوراً ختم ہوجائے چاہے کتنا ہی پرانا اور مقدس کیوں نہ ہو۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا فطرت کی طرف سے سچ مچ پیغامات نہیں آسکتے؟ اس بات کی تصدیق کا کوئی معلوم طریقہ نہیں۔ کیونکہ، ’’ یہ سائنس یعنی توھّمات، روحانی واردات، صوفیانہ تجربہ وغیرہ ‘‘، ’’اور دوسری سائنس یعنی فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی وغیرہ‘‘ فقط اِسی بنا پر جُدا ہیں۔ ایک میں ’’تکرار‘‘ گواہوں کی موجودگی میں اور دوسری میں ’’تکرار‘‘ ذاتی، نفسیاتی تجربہ کے طور پر ممکن ہے۔ کسی کی ذاتی واردات پر گواہ نہیں لائے جاسکتے۔ ہاں! کسی کی ذاتی واردات کے عملی اطلاق پر گواہ لائے جاسکتے ہیں۔ اس قضیہ کی رُو سے فزکس، کیمسٹری، بیالوجی بھی نصف روحانی اور نصف جسمانی سائنس ہے۔ کیونکہ آئن سٹائن کی ذاتی، نفسیاتی واردات کے عملی اطلاق پر گواہ لانا ممکن ہوگیا تھا سو وہ تسلیم شدہ سائنس بن گئی تھی۔ اگر ذاتی واردات کے عملی اطلاق پر گواہ لائے جا سکیں تو ذاتی واردات سائنس بن جاتی ہے۔ اس اصول کے تحت، جب کسی نبی کی ذاتی واردات کے عملی اطلاق پر گواہ جمع ہوجائیں گے تو ہم اسے بھی سائنس کہہ سکتےہیں۔ جیسے اسلام کو ہم ایک سائنس کہہ سکتے ہیں کیونکہ اسلام کا وجود رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی واردات کے عملی اطلاق پر بہت سے گواہوں کی شہادت کے بعد ممکن ہوا۔ اب چونکہ نیچرل سائنسز اور سوشل سائنسز میں ایک خاص قسم کا فرق ہے، سو وہی فرق اس معاملے کی پیچیدگی کا باعث بنتا اور دونوں سائنسز کو ایک دوسرے سے دُور رکھتا ہے۔
چونکہ توھّمات انسانی جبلّت کا حصہ ہیں اور ان کے بغیر انسانی وجود کا تصور ممکن نہیں، اس لیے انسانوں کو ہمیشہ مذہب کی ضرورت رہتی ہے، کیونکہ اعصاب کی کمزوری کے ساتھ ساتھ توھّمات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ زیادہ توھّم پرست ہوتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ اُن کے اعصاب زیادہ کمزور ہوتے ہیں اور اُن کے لیے واقعہ میں زیادہ تکرار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت زیادہ کمزور اعصاب کا مالک شخص ایک بار کی ’’ہونی‘‘ کو بھی فطرت کی طرف سے پیغام سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے مذہب کا وجود ضروری ہو جاتا ہے۔ مذہب کی مدد سے ہی ایسے لوگوں کو ان کے مفروضہ پیغامات کے معنی ملتے ہیں۔ کوئی مذہب لوگوں کی ذاتی وارداتوں پر کسی سائنسدان کی طرح جِرح کرے اور اُن سے بالکل کسی سائنسدان کی طرح زیادہ سے زیادہ ’’تکرار‘‘ کا مطالبہ کرے تو وہ مذہب توحید کی طرف مائل ہوتا ہے۔ کیونکہ تکرار کا اصرار، گویا وارداتِ ذاتی کے وجود سے انکار اور اُسے توھّم ِ محض سمجھنا ہے جیسا کہ ایک سائنسی ذہن سمجھتا ہے۔ کوئی مذہب جتنے کم لوگوں کی وارداتوں کو الوہی پیغام سمجھتا ہے، وہ اتنا ہی توحید پرست ہوتا ہے۔ توحید پرستی کا تعلق نفسیاتی طور پر ایک خدا کو ماننے سے نہیں ہے، توحید پرستی کا تعلق اپنے توھّمات کے تکرار پر اصرار کو بڑھا دینے اور بایں ہمہ اپنے توھّمات کو کم سے کم کر دینے کے ساتھ ہے۔ یہ البتہ الگ بات ہے کہ جن معاشروں میں توحید پرست مذاہب پہلے سے رائج ہیں، وہاں قدرے کم توھّمات پائے جاتے ہیں، لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے۔ تاہم، ہم اس بات کی تصدیق کے لیے ہندُو اور مسلمان عوام کو ہندوستان اور پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں۔
خیر! یہ ثابت ہوجانے سے کہ مذہب معاشروں کے لیے ضروری ہے، یہ ہرگز ثابت نہیں ہو جاتا کہ ’’خدا وجود رکھتا ہے‘‘۔ فقط یہ ثابت ہوتا ہےکہ مذہب، اور تشکیل ِجدید (اجتہاد) کے عمل سے گزرتا ہوا مذہب کسی بھی معاشرے کے تمام افرادی کی نفسیاتی، جذباتی اور بایں ہمہ روحانی زندگی کی رہنمائی کے لیے ایک ضروری عنصر ہے، جو اُصولاً کلچر کا ایک بڑا حصہ ہونے کے ناطے اپنے وجود کا نہ صرف خود ذمہ دار ہے بلکہ انسانوں کے توھّم پرست ہونے کی وجہ سے اپنی حفاظت پر بھی خود ہی مامور رہتا ہے۔ غرض ہم نے جو بات شروع کی تھی کہ جذباتی سطح پر انسان کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ خدا انسان کا جذباتی معاملہ ہے، وہ بات یہی ہے کہ انسان اپنی نفسیاتی زندگی میں مکمل طور پر توھّم پسند اور توھّم پرست ہے، بایں ہمہ اسے خدا کی ضرورت ہے اور رہےگی۔
اچھا! یہ تو معلوم ہوگیا کہ ’’خدا انسان کی ضرورت ہے‘‘ لیکن کیا خدا فی الواقعہ وجود بھی رکھتا ہے؟ اگرچہ اس سوال کا جواب عقل سے طلب کرنا منطقی اعتبار سے درست نہیں لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ مکان کی بہت سی تہیں اور جہات (ڈائمینشنز) ہیں اور ہر تہہ میں زمانہ الگ الگ، صرف بطور ’’حال‘‘ موجود رہتا ہے، سو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ خدا دراصل’’ابدی حال‘‘ ہے جو طبق در طبق بصورتِ ’’زمانہ‘‘ موجود رہتا ہے، اور یوں موجود رہتا ہے جیسے میں اِس وقت اپنے ساتھ موجود ہوں، یا آپ میرے ساتھ۔ جو زمانہ ہونے کی وجہ سے فعّال بھی ہے اور خلّاق بھی، ذہین بھی اور محیط بھی۔ میں تھوڑا آگے چل کر اِس تصور کو مزید وضاحت سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ سردست تو میں یہ کہنے والا تھا کہ اگرچہ اس سوال کا، کہ خدا ہے یا نہیں ہے؟ جواب عقل سے طلب کرنا منطقی اعتبار سے درست نہیں، لیکن سوال ذرا تبدیل کر کے کیا جائے تو پھر عقل سے استفسار غیر درست نہ ہوگا۔ یعنی سوال یوں کیا جائے کہ ’’اگر سچ مُچ خدا ہو تو کیسا ہوگا؟‘‘ یہ سوال ضرور عقل سے پوچھا جاسکتا ہے کیونکہ عقل کا کام ہے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل ڈھونڈ کر لانا اور اپنی صداقت کا جواز پیش کرنا، سو اگر مؤقف ہی یہ ہو کہ ’’خدا ہے‘‘ تو ظاہر ہے دوسری بات فقط یہی ہوسکتی ہے کہ وہ کیسا ہے؟ اور یہ دیکھنے اور جاننے کی کوشش کہ ’’خدا کیسا ہے؟‘‘ خود بخود اُس سوال کو حل کر دیتی ہے کہ خدا ہے یا نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لیے تصورِ خدا کی تلخیص کرنا پڑتی ہے جو ہمیشہ نفی، انکار اور ’’لا‘‘ کے طریقہ سے ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ مسلسل انکار کرتے ہوئے خود بخود ’’خدا ہے یا نہیں ہے‘‘ کے مراحل بھی بالآخر آہی جاتے ہیں۔
چنانچہ خدا کے وجود پر فلسفیانہ نکتۂ نگاہ سے بات کرنا اسی لیے مفید ہے کہ اِس طرح انسان کے تصورِ خدا کی تلخیص (Purification) ہوتی رہتی ہے۔ عقل کے ذریعے تصورِ خدا کی تلخیص کرتے رہنا بےحد ضروری ہے کیونکہ ایسا وقت کوئی نہیں ہوتا جب ہم کسی بھی خدا کو نہ پُوج رہے ہوں۔ کرسی، عہدہ، دولت، بیٹے، گاڑیاں، بنگلے یہ سب بھی خدا ہی کی شکلیں ہیں جن کی، اگر ہم ایتھسٹ ہیں تو ضرور پوجا کرتے ہیں۔ دنیا سے بےپرواہ اور بےنیاز ایتھسٹ کا وجود زمین پر ممکن نہیں۔ ایسا کوئی بھی شخص جو خدا کے وجود سے انکار کرتا ہے اور دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز بھی رہتا ہے، صوفیا کے نزدیک ملحد نہیں ہوتا بلکہ تصوف میں اسے مقام ِفنا پر فائز سمجھا جاتا ہے۔ خیر! تو میں عرض کر رہا تھا کہ فلسفیانہ طرز ِفکر کے مسلسل استعمال سے تصور ِخدا کی تلخیص ہوتے رہنا ضروری ہے ورنہ معاشرے میں بُری رسمیں رواج پاجاتی ہیں۔ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ تصورِ خدا کی تلخیص کا کام یاتو صوفیاء اور فلسفی انجام دیتے ہیں اور یا یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ملحدین سرانجام دیتے ہیں۔ وہ خدا کے مختلف منفی ’’کرداروں‘‘ اور ’’عادات‘‘ پر انگلی اُٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کے سامنے مذہبی شرمندہ ہوتے ہیں اور اپنے تصورِ خدا کی فوری تلخیص کا سامان کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو’’خدا کا انکار‘‘ بھی نہایت ضروری ہے اور ہر عہد میں الحاد اور دہریت کا وجود بھی ’’وجود ِخدا میں رُوح‘‘ جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو خداؤں کا انکار کوئی نہ کرے۔ اور دنیا، لات و منات و عزیٰ و ہبل سے بھر جائے۔ ہرعہد میں ہمیشہ ایک وقت آتا ہے جب ’’انکار کے فرمان‘‘ کا اُترنا لازم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فیض نے کہا،
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ من و تُو، نیا پیماں کوئی اُترے
اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے
صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنا ضروری ہوتا ہے ورنہ معاشرے جمود کا شکار ہوکر مر جاتے ہیں۔ یہ وہ الحاد ہوتا ہے جو تصورِ خدا کی تلخیص کے لیے از بس ضروری ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو خدا، عادات میں انسان سے بھی چھوٹا اور حقیر ہو جاتا ہے۔ اور کم تر ہوتے ہوتے جانوروں اور پھر بےجان پتھروں کی سطح پر گر جاتا ہے۔ ایک زندہ و جاوید، حیّ و قیوم اور جیتا جاگتا خدا آہستہ آہستہ مرنے لگتا ہے اور پھر مر کر فقط اپنی ہی قبر کی لوحِ مزار بن کر رہ جاتا ہے جس پر سب آ کر پھول چڑھاتے اور اس کا عُرس مناتے ہیں۔ چنانچہ خدا کی زندگی کے لیے باخدا لوگوں سے زیادہ ہمیشہ ملحدین کی ضرورت رہتی ہے جو تصورِ خدا پر کاری ضربیں لگاتے اور ’’لا لا‘‘ کی تکرار کرتے ہوئے اپنے وقت میں موجود خدا کے تمام تصورات کو جھٹلاتے چلے جاتے ہیں۔ وہ چونکہ عقل سے جھٹلاتے ہیں، اس لیے تصور ِخدا کی تلخیص ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں ملحدین کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے تو اس معاشرے میں بُری رسموں کا رواج زیادہ سے زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے۔میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ، ’’اجتہاد کے دروازے جتنے زور سے بند کیے جائیں، افتراء کے دروازے اُتنے زور سے کھل جاتے ہیں۔‘‘ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگ انجام دیتے ہیں۔ افتراء ہرکوئی بلکہ پورا معاشرہ مل کر انجام دیتا ہے۔ اجتہاد کو نوجوان نسل سے زیادہ اور پرانی نسل سے کم تائید اور قبولیت ملتی ہے۔ افتراء کو پرانی اور نئی ہر دو طرح کی نسلوں کی تائید اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہاد کی نسبت افتراء کسی آکاس بیل کی طرح پھیلتا اور معاشرے کے، بوجہ اعلیٰ اقدار و روایات، پھلدار درخت کا خون چُوستا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ درخت سُوکھ جاتا ہے۔ افترأ کی شدت سے جب کسی معاشرے میں بُری رسمیں بڑھ جاتی ہیں تو اس معاشرے کی زندگی کے لیے لازمی ہو جاتا ہے کہ کوئی ریفارمر آئے۔ ریفارمیشن کا عمل ہی کسی معاشرے کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ ورنہ تو تہذیبوں کی تہذیبیں زمین بُرد ہوجاتی ہیں اور زمین ڈکار بھی نہیں مارتی۔
کوئی ریفارمر کب اور کیسے آتا ہے؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جب کسی معاشرے میں اجتہاد کا عمل رُک جائے تو افترأ کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔ افترأ کے بڑھ جانے سے بُری رسمیں بڑھ جاتی ہیں۔ بُری رسموں کے بڑھ جانے سے پست طبقات زیادہ مظلوم اور غالب طبقات زیادہ ظالم ہوجاتے ہیں۔ اگر اِسی حال میں تین نسلیں اوپر تلے گزر جائیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے جب تیسری نسل پہلی کی جگہ لے لیتی ہے۔ گویا اب وہ بُری عادات جو افترأ کی وجہ سے رائج ہوئی تھیں، بزرگوں کی اقدار کے طور پر نافذ ہو کر مذہبی تقدس حاصل کر لیتی ہیں۔ جیسا رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کا حال تھا۔ ابنِ خلدون کے نزدیک کسی بھی معاشرے میں تیسری نسل کے بچے (بڑے ہوکر) ہمیشہ پہلی نسل کے بزرگوں کی اقدار کے پاسدار بنتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نئی نسل ہمیشہ پرانی نسل کے مقابلے میں تھوڑی سی باغی ہوتی ہے، اور ہمیشہ نئی نسل کی بغاوت میں پائی جانے والی قوت اور بزرگوں کی نافذ کردہ اقدار میں پائی جانے والی قوت کا تناسب اُس تصادم کے نتائج مرتب کرتا ہے جو دونوں نسلوں کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ نئی نسل کے پاس صرف ’’جذبہ‘‘ جبکہ پرانی نسل کے پاس، عقل، علم اور تجربہ کی طاقت ہوتی ہے، اس لیے یہ تصادم زیادہ تر بزرگوں کی فتح کی صورت میں انجام پاتا ہے۔ پرانی نسل کے پاس جذبے کی شدید کمی ہوتی ہے، اس لیے وہ ویمپائرز کی طرح تازہ خُون کی تلاش میں رہتے اور اِس طرح اپنے خوفناک قدامت پسندانہ نظام اور اقدار کو زندہ رکھتے ہیں۔ جب بُری رسمیں تیسری نسل کے بزرگوں کو منتقل ہو جائیں تو ان میں شدت اور سختی بڑھ جاتی ہے، افترأ کی رفتار مزید تیز ہوجاتی ہے اور معاشرہ اپنی زندگی کے آخری دن گننے لگتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ریفارمر پیدا ہوجائے تو مرتا ہوا معاشرہ پھر سے انگڑائی لیتا ہے۔ کبھی دوبارہ زندہ ہوجاتاہے تو کبھی نہیں ہو پاتا۔ اس کا تعلق ریفارمر کی اپنی شخصیت اور کردار کی قوت، اور اس کے ساتھ شامل ہوجانے والی نئی نسل کے تازہ لہُو کی مقدار کے ساتھ ہے۔ کوئی ریفارمر جتنی پُراثر شخصیت اور اعلیٰ کردار کا مالک ہوتا ہے، نئی نسل اتنی زیادہ شدت کے ساتھ اس کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ نئی نسل کےدلوں میں اپنے لیے محبت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو نئی نسل اس کے لیے جانوں کے نذرانے بصد شوق پیش کرنے کو تیار ہو جاتی ہے، کیونکہ نئی نسل ہمیشہ، ہرحال میں اپنے بزرگوں کی متشدد اقدار سے دل ہی دل میں نفرت کرتی اور ان سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے۔
ریفامر کون ہوتا ہے؟ ریفارمر وہ شخص ہو سکتا ہے جس پر ’’انکار کا فرمان‘‘ نازل ہوتا ہے۔ اپنے وقت کے لات و منات و عزی و ہبل سے انکار کا فرمان۔ اپنے وقت کے بزرگوں کی اقدار سے انکار کا فرمان۔ مدتوں سے رُکے اجتہاد کی وجہ سے بڑھ جانے والے افترأ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہوجانے والی بُری رسموں سے انکار کا فرمان۔ ویسے تو ہر نئی نسل میں ’’انکار کی وحی‘‘ موجود ہوتی ہے لیکن ان میں سے کوئی ریفارمر، جلد اس لیے پیدا نہیں ہو پاتا کہ تنہا جذبات ریفارمیشن کا عمل انجام نہیں دے سکتے۔ جذبات کو کسی عقل کے اتباع کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہرکس و ناکس، عاقل کی عقل نوجوانوں کو تحریکوں کے لیے آمادہ نہیں کرسکتی۔ کسی بھی ریفارمر کے لیے پرکشش شخصیت، اعلیٰ کردار اور دلنواز سخن کا مالک ہونا ضروری ہے۔
کسی معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کی ’’قوتِ انکار‘‘، پرانی نسل کی ’’قوتِ اصرار‘‘ کے برابر ہو۔ تناسب یہ ہے کہ اگر کوئی معاشرہ زیادہ قدیم اقدار کا مارا ہوا ہوگا تو نئی نسل کو زیادہ قوتِ انکار کی ضرورت ہوگی۔ اگر کوئی معاشرہ زیادہ قدیم اور دقیانوسی نہ ہوگا تو نئی نسلوں کو کم ’’قوتِ انکار‘‘ کی ضرورت ہوگی۔ غرض یہ الحاد اور انکار کی روش ہی ہے جو کسی بھی معاشرے میں اجتہاد کے دروازے کھلے رکھ سکتی ہے۔ جب ہم کسی معاشرے میں بری رسموں کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم اس معاشرے کی ثقافت یعنی کلچر کی بات کرتے ہیں۔ اب چونکہ کسی بھی کلچر کا سب سے بڑا حصہ اُس کا مذہب ہوتا ہے سو بُری رسمیں سب سے زیادہ مذہب کے راستے سے داخل ہوتی ہیں۔ گزشتہ بارہ ربیع الاول پر پاکستان کے کئی شہروں میں لوگوں نے رسول ِاطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کے کیک کاٹے۔ ان میں سے بعض کیک کئی کئی من وزنی اور کئی فُٹ لمبے چوڑے تیار کیے گئے تھے۔ تب مجھے نہ جانے کیوں وہ یونانی بُت یاد آگیا جو سَتُو کا بنا ہوا تھا، اور جب اُس قوم پر قحط آیا تو وہ اپنے خدا کو ہی کھاگئے۔ مدنی چینل پر نت نئی ’’اضافہ ہوتی ہوئی‘‘ رسمیں ہم روز دیکھتے ہیں۔ دیگر ٹی وی چینلز پر باہر سے درآمد شدہ رسموں کا سُونامی ہمہ وقت ہمارے معاشرے کے ’’ بَند‘‘ ڈھاتا رہتا ہے۔
زندہ انسانوں کو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ارتقاء کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اجتہاد رکا رہے گا تو افتراء تو ہوگا۔ تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اجتہاد نہ سہی تو افترا سہی۔ کیونکہ معاشرہ سانس لیتے ہوئے، جیتے جاگتے، زندہ جسموں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اب چونکہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگوں کا کام ہے، اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں سمجھدار لوگ موجود ہوں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ تمام تر سمجھدار لوگ تیسری نسل سے پہلی نسل میں منتقل ہو چکے ہیں اور ان کے سامنے اقدار کے تحفظ کے سوا کوئی مقصد موجود نہیں، اس لیے وہ نئی نسل کی طرف سے سامنے آنے والی تبدیلیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔ وہ تبدیلیاں چونکہ کسی دانا اور سمجھدار کی طرف سے نہیں ہیں، اس لیے ان پر عقلی اعتراضات بھی جلد وارد ہوسکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کی ہر کھیپ جلد دوسری اور پھر پہلی نسل میں تبدیل ہو کر خود اسی کام پر مامور ہو جاتی ہے جس کے خلاف ہوا کرتی تھی۔اور اِس لیے نئی نسل کی طرف سے وارد ہونے والی تبدیلیوں کو کم قبولیت مل پاتی ہے بہ نسبت مذہب کے راستے سے داخل ہونے والی بُری رسموں کے۔ کیونکہ مذہب کے راستے سے داخل ہونے والی اکثر بری رسموں میں بزرگوں کا کردار ہوتا ہے، اس لیے ان کے خلاف صدائے احتجاج کم کم سنائی دیتی ہے۔
چنانچہ مذہب کے راستے سے کسی معاشرے میں داخل ہونے والی بُری رسموں کا مقابلہ صرف کوئی ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جو خود نئی نسل کا نمائندہ ہو۔ اس کے پاس اجتہاد کی طاقت ہو۔ وہ بری اور اچھی رسموں کا فرق پہچانتا ہو اور وہ پرانی نسل کی رسوم بالخصوص مذہبی رسوم (اور خداؤں) کا انکار کر سکے۔ ایسا کوئی شخص اگر کامیاب ہوجائے تو ایک بار پوری سوسائٹی بدل جاتی ہے۔ بہت سارے بُت ٹوٹ جاتے ہیں۔ فضول چیزوں میں سے تقدس کا عنصر ختم ہو جاتا ہے۔ غالباً جوش ملیح آبادی نے کہا تھا،
اوہام کا رباب، قدامت کا ارغنوں
فرسودگی کا سحر، روایات کا فسُوں
اقوال کا مراق، حکایات کا جنُوں
رسم و رواج و صحبت و میراث و نسل و خُوں
افسوس یہ وہ حلقۂ دام ِ خیال ہے
جس سے بڑے بڑوں کا نکلنا محال ہے
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ قوموں میں ریفارمرز دو طرح کے وارد ہوتے رہے ہیں، 1۔ وہ لوگ جو کسی معاشرے میں ریفارمیشن کے لیے اُٹھے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک بڑی عقل (وحی) ہے جو اُن کی رہنمائی کر رہی ہے۔ 2۔وہ لوگ، جو کسی معاشرے میں ریفارمیشن کے لیے خود اُٹھے اور انہوں نے کسی بھی قسم کی ’’خدائی نصیحت‘‘ یعنی ’’وحی‘‘ کا دعویٰ نہ کیا۔ پہلی قسم کے لوگ ماضی میں زیادہ پائے جاتے تھے جبکہ دوسری قسم کے لوگ ابھی بھی کبھی کبھار نظر آجاتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگوں میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا ریفارمر نظر نہیں آتا جس نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ بھی کیا ہو اور کسی معاشرے کو فی الواقعہ ریفارم بھی کیا ہو۔ ایران کی بعض تحریکیں مثلاً اسماعیلیہ یا بہائی تحریک یا ہندوستان میں گُرونانک وغیرہ کی تحریک کو ہم ریفارمیشنز کی تحریکیں تو کہہ سکتے ہیں لیکن ان تحریکوں کے بانیوں نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ نہیں کیا، بلکہ پہلے سے موجود ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ میں تبدیلی کو ترجیح دی۔ یعنی وہ کام کیا جو کسی مجتہد یا مجدد کو کرنا ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی مجتہد یا مجدد ریفارمیشن کا کام ہی اس طرح انجام دے کہ بجائے معاشرے کو زندہ کرنے کے اسے ایک نئے معاشرے میں بدل دے، جیسا گرُونانک نے کیا۔ البتہ مرزا غلام احمد نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ تو کیا لیکن اُن کے دعوے کے عملی اطلاق پر گواہ موجود نہیں تھے یعنی وہ جس کمیونٹی کی ریفارمیشن کے لیے ڈیوائن گائیڈینس کا دعویٰ کر رہےتھے، وہ کمیونٹی ہی دستیاب نہ تھی۔ اس لیے ان کا دعویٰ ’’وحی‘‘ کے تجربہ سے اُس طرح نہ گزر سکا جس طرح ایک سائنسی مواد کے لیے گزرنا لازمی امر ہے۔ ہم اِس اُصول کا اُوپر تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں، جسے میں ’’توھّم میں تکرار‘‘ کا اصول کہتا ہوں۔ غرض مرزا صاحب کچھ ریفارم نہ کرپائے۔ چونکہ کسی بھی ریفارمر کا اصل مقصد معاشرے سے بری رسوم کا خاتمہ ہوتا ہے چاہے وہ ریفارمر کوئی نبی ہو یا کارل مارکس، فلہذا اِس اصول کے تحت مرزا صاحب ایک ریفارمر کے کرائیٹیریا پر پورے اُترنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ اپنے معاشرے کی بُری رسموں کو ختم نہیں کر سکے۔ یہ تو تھا پہلی قسم کے ریفارمزز کا ذکر یعنی اُن لوگوں کا ذکر جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس ڈیوائن گائیڈینس ہے اور دوسری یہ شرط کہ وہ کسی معاشرے میں موجود بُری رسموں کو ختم کر کے نئی اور شفاف روایات کا آغاز کرتے ہیں۔
دوسری قسم کے ریفارمرز جو ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعویٰ نہیں کرتے، ان میں کئی نام ہیں لیکن سب سے بڑا نام بلاشبہ ’’کارل مارکس‘‘ کا ہے۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر ریفارمیشن کا عمل مارکس کی کوششوں کے بعد ہی ممکن ہوا جبکہ مارکس کسی قسم کی ’’وحی‘‘ کا دعوے دار نہیں تھا۔ مارکس کی اِسی خصوصیت کی وجہ سے اقبال نے یہ شعر کہا تھا،
وہ کلیم ِبےتجلّی، وہ مسیح ِبےصلیب
نیست پیغبر و لیکن در بغل دارد کتاب
یعنی اقبال کے بقول مارکس کی دعوت میں بھی پیغمبرانہ رمق پائی جاتی ہے۔ وہ پیغمبر نہیں ہے لیکن اس کے پاس کتاب ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ’’مارکس‘‘ ملحد تھا۔ مارکس خدا کو نہیں مانتا تھا۔ وہ مذہب کو ’’عوام کے لیے افیون‘‘ کہتا تھا۔ خیر! بات لمبی ہوگئی۔ اس ساری گفتگوسے میری مراد فقط اتنا ثابت کرنا ہے کہ انکار کی روایت یعنی ملحدانہ نظریات، تصورِ خدا کی تلخیص کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں جو سب سے پہلے کسی نہ کسی ریفارمر کی بدولت معاشرے میں داخل ہوتے ہیں اور ضرور معاشرے میں پہلے سے موجود خداؤں کے انکار پر منتج ہوتے ہیں۔ پھر چاہے وہ خدا لات و منات و عزی و ہبل ہوں یا بدترین مادیت پسندی۔ یہ ان خداؤں کے انکاری یعنی ملحدین ہی ہوتے ہیں جو بزرگوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کرتے اور بزرگوں کے خداؤں کا انکار کرتے ہیں۔
متحرک اور زندہ معاشروں میں، جُوں جُوں ملحدین تصور ِخدا پر اعتراض کرتے جاتے ہیں، ’’خدا کو ماننے والے‘‘ اُن اُن خامیوں کو اپنے تصورِ خدا سے نکالتے چلے جاتے ہیں۔ ہر دور کی ریفارمیشن سے یہی ہوتا ہے، کیونکہ مجموعی طور پر تمام انسان توھم پرست ہوتے ہیں، جو تصورِ خدا کی غیر موجودگی میں اور زیادہ توھّم پرست ہوجاتے ہیں، چنانچہ وہ خدا کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ایک ہی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے کہ اپنے تصورِخدا کو ڈیولپ کرلیں۔
اب تک کی ساری گفتگو سے خدا کا وجود بالکل بھی ثابت نہیں ہوتا۔ ثابت ہوتا تو فقط اتنا کہ، 1۔ ’’انسان کو خدا کی ضرورت ہے.‘‘ 2۔ ’’انسان، خود اپنے تصورِ خدا کو وقت کے ساتھ ساتھ ریفارم کرتا رہتا ہے.‘‘ 3۔ ’’ریفارمیشن کا عمل تصورِ خدا کے بغیر کیا جائے تو معاشرے میں بے یقینی (توھم پرستی) کا عنصر بڑھ جاتا ہے جس سے افترأ کے دروازے کھلتے ہیں اور معاشرے بےرحم ہو کر فنا ہوجاتے ہیں‘‘۔ سو یہ بات کہ آیا فی الواقعہ ’’خدا ہے یا نہیں ہے‘‘ ابھی تک وہیں کی وہیں موجود ہے۔ اسی طرح ایک اور سوال بھی پیدا ہوگیا ہے کہ فی زمانہ وہ معاشرے جہاں سے خدا کو نکال باہر کر دیا گیا ہے، ایسی کسی بھی ابتری کا شکار نہیں ہیں، جس کا ذکر اوپر مضمون موجود ہے۔ مثلاً ناروے اور ڈنمارک ایسی کسی بھی ابتری کا شکار نہیں ہیں جیسی خدا کے بغیر، کسی معاشرے میں (بوجہ توھّم پرستی) پیدا ہوجانا لازمی ہے۔
یہاں ایک نکتہ پیش ِ نظر رہے کہ، دورِ حاضر کے ایتھزم نے ’’خدا کو کبھی کچھ نہیں کہا‘‘۔ انہوں نے ہمیشہ خدا کے ایسے تصورات پر گرفت کی ہے جن میں جھول ہیں۔ جو خدا کسی بچے کی طرح جلد غصے میں آ جاتا ہے، جو خدا بلاوجہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا ہے، جو خدا فقط اپنی عبادت کروانے کے لیے ہزاروں انسانوں کے خون کی قربانی مانگتا ہے وغیرہ وغیرہ، جیسے اعتراضات نے عہدِ حاضر کے مذہبیوں کو اپنا تصورِخدا بدلنے اور مزید بڑا خدا تصور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چنانچہ ناروے اور ڈنمارک سے خدا نکل نہیں گیا بلکہ وہاں والوں کا خدا بڑا ہوگیا ہے، بہت بڑا۔ پہلے لوگ نہیں جانتے تھے لیکن اب جانتے ہیں کہ بھگوان، یہواہ، گاڈ، خدا، اللہ، یہ سب نام مختلف مذاہب میں خدا کے لیے بولے گئے ہیں۔ فی زمانہ جبکہ اپنے اپنے تصورِ خدا کی ہرکوئی خاصی تلخیص کر چکا ہے، اگر ہم بنظر غائر دیکھیں تو سب مذاہب کے لیے، ’’خدا اَب بہت بڑا ہے‘‘۔ حال ہی میں انڈیا میں بننے والی فلم ’’پی کے‘‘ اس بات کے حق میں ایک دلیل کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سیکولر ملکوں کے لوگ ایتھسٹ محسوس ہوتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آج بھی وہاں کی بڑی آبادیاں مذہبی ہیں۔ بس اُن کے تصورِ خدا کی تلخیص ہوگئی ہے۔ ڈنمارک، ناروے، جاپان یا ایسے تمام معاشرے جہاں سے بظاہر خدا کو رخصت کر دیا گیا ہے، دراصل اپنے تصورِ خدا کی بےپناہ تلخیص کر چکے ہیں۔ ڈنمارک کے عام لوگ بھی یا تو کسی بہت ہی بڑے اور رحیم کریم خدا کو مانتے ہیں اور اگر نہیں مانتے تو فقط عارضی طور پر، کیونکہ جونہی ان کی کسی ذاتی واردات میں تکرار کا عنصر آئے گا وہ اُسے فطرت کی طرف سے پیغام سمجھیں گے۔ یہ ضروری ہے۔ بہتر ہے کہ یہاں قارئین ایک بار رُک کر اُوپر ’’ذاتی واردات میں تکرار‘‘ کا اُصول دوبارہ پڑھ لیں۔ کیونکہ اس طرح آپ مبہم، اور غصُیلی کمنٹنگ سے بچ سکتے ہیں۔ میں نے ’’تکرار کے اُصول‘‘ پر خاصی سیر حاصل بات کی ہے جس کے منطقی قضایا سے کسی ذی عقل کو انکار ہوگا، میں ایسا نہیں سمجھتا۔
پس یہ سوال کہ ’’خدا سچ مچ میں ہے بھی کہ نہیں؟‘‘ صرف فلسفیوں، عقلیت پسندوں، تشکیک پسندوں اور ملحدوں کے درمیان زیرِبحث رہتاہے۔ عوام چاہے امریکہ کے ہوں یا ڈنمارک کے، ان کے لیے سوال الگ ہے اور وہ یہ ہے، ’’خدا کیسا ہو سکتا ہے؟‘‘۔ جہاں تک عقلی دلائل کا تعلق ہے تو خدا کے وجود پر فلسفیوں نے جتنے دلائل دیے، ان میں سے اکثر پر ایسے ایسے اعتراضات وارد ہوتے ہیں کہ سرے سے تصورِخدا ہی خطرے میں پڑجاتاہے۔ یہ کام کانٹ اور غزالی ہم سے بہتر کر چکے ہیں۔ فلسفہ میں خدا کے وجود پر بنیادی طور پر تین دلائل پڑھائے جاتے ہیں جن ’’ادلۂ ثلاثہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں سب سے پہلی دلیل، ’’دلیلِ کونی‘‘ (Cosmological Argument) پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر ہر ایفیکٹ کی ایک کاز ہوتی ہے اور یہ سلسلہ پیچھے سے پیچھے لے جایا جائے تو ایک ’’پرائم مُووَر‘‘ (فرسٹ کاز) پر جا کر رُکے گا۔ اُس پرائم مُووَر کی کوئی کاز نہیں ہے۔ وہ خود سے وجود میں آ گیا ہے۔ اس دلیل پر یہ اعتراض ہے کہ ’’کاز اینڈ ایفیکٹ‘‘ کے پرنسپل کو خود پیش کر کے خود توڑنے کی اجازت کیسے حاصل کی گئی۔ جب اُصول ہی کازیلٹی ہے تو پھر علتِ اولیٰ (پرائم مُووَر) یا علت العلل کا کیا تُک بنتا ہے۔ اس اُصول کو سچ ماننا ہے تو پھر ’’خدا کو کس نے بنایا‘‘ جیسا سوال بھی اپنی جگہ پوری طرح درست ہوگا۔ فی زمانہ بگ بینگ کیسے ہوا؟ بھی اسی قسم کا سوال ہے۔ دوسری دلیل کو ’’غائی دلیل‘‘ کہتے ہیں۔ اِسے آرگومنٹ آف پرپز یا آرگومنٹ آف ڈیزائن بھی کہا جاتا ہے۔اس دلیل کے مطابق یہ کائنات ایک ڈیزائنر نے ڈیزائن کی ہے، اور اس کے پیچھے ایک خاص مقصد کارفرما ہے، جو ہم انسانوں کو تلاش کرنا ہے اور وہ دراصل خدا تک پہنچنے کا مقصد ہے۔ اس دلیل پر اقبال نے یہ اعتراض کیا، ’’لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اِس طرح صرف ایک صانع کا ماننا لازم آتا ہے، خالق کا ماننا لازم نہیں آتا جس کے متعلق اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ ہیولیٰ کائنات کو کسی نے خلق کیا، جب بھی یہ اُس کی حکمت و دانائی کا کوئی اچھا ثبوت نہیں کہ اوّل تو ایک بےحس اور متزاحم ہیولیٰ کی تخلیق سے اپنے لیے طرح طرح کی مشکلات پیدا کرے اور پھر ان پر غالب آنے کے لیے اُن طریقوں سے کام لے جو اِس کی فطرتِ اصلیہ کے منافی ہیں۔ یوں بھی جس صانع کا وجود اپنے ہیولیٰ سے خارج ہے، وہ لامحالہ اس ہیولی سے محدود بھی ہے، لہٰذا اس طرح کا صانع ایک متناہی صانع ہوگا اور محدود ذرائع کے باعث وہی طرزِ عمل اختیار کرے گا جو ایک انسان بحیثیت صانع اختیار کر سکتا ہے‘‘۔
تیسری دلیل، ’’دلیل ِوجودی‘‘ ہے۔ جس کے مطابق ہمارے ذہن میں کوئی ایسا تصور نہیں ہوسکتا جس کا وجود بیرونی دنیا میں موجود نہ ہو۔ ہمارے ذہن میں چونکہ خدا کا تصور ہے فلہذا لازم ہے کہ خدا کا وجود بیرونی دنیا میں بھی موجود ہو‘‘۔ ایک تو دلیل ِوجودی کا شیدائی خدا کے وجود کو بیرونی کائنات میں تلاش کرتا ہے اور گاہے کائنات کو ہی خدا قرار دے کر وحدت الوجود کی طرف مُڑ جاتا ہے اور گاہے وجود کو مختلف حسین ناموں سے سجا کر گویا فقط ایک غیر شخصی خدا کے ہونے کا یقین حاصل کرتا ہے۔ البتہ اس دلیل پر کانٹ نے جو اعتراض کیا وہ میری دانست میں درست نہیں ہے کہ یہ دلیل محض خدا کے تصور کے انسانی ذہن میں موجود ہونے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ یہ دلیل ایک مغالطے پر مبنی ہے جسے مصادرہ علی المطلوب کہتے ہیں۔ جس میں کسی شے کو پہلے سے فرض کر لیا جاتا ہے اور پھر اسے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کانٹ کے بقول،
’’ایسا کہنے سے کہ، میری جیب میں تین سو ڈالر ہیں، میری جیب میں تین سو ڈالر آتو نہیں جائیں گے‘‘۔ لیکن میری دانست میں کانٹ نے تین سو ڈالر کی مثال ہی غلط دی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ ڈالرز خود مجرد تصور نہیں، دوسرے یہ کہ کانٹ کے مقدمہ کبریٰ میں، صرف کانٹ ہے۔ صرف کانٹ سے مراد یہ قضیہ اب ’’کلیہ موجبہ‘‘ نہیں رہا بلکہ ’’جزیہ موجبہ‘‘ بن گیا ہے۔ کانٹ تو چھ ارب انسانوں میں سے ایک آدمی ہے۔ خدا کا تصور تو ہر ’’مؤمن اور مُنکر‘‘ کے ذہن میں موجود ہے۔ چنانچہ کانٹ کے اعتراض میں مغالطہ موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ انسانی ذہن میں خدا کا تصور کہاں سے آیا؟ میری دانست میں دلیل ِوجودی آج بھی مضبوط ہے، وہ اس لیے کہ آپ کائنات کے ہر تصور سے چھٹکارا پاسکتے ہیں، اپنی ’’میں‘‘ سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ جیسا کہ ڈیکارٹ نے خاطرخواہ طریقے سے ثابت کر دیا تھا۔ سو یہ ’’میں‘‘ جو فقط موضوعی تجربہ ہے، ’’مطلق‘‘ ہے۔ اور سب انسانوں میں برابر ہے۔ انسان کی یہ انفرادیت وہ عنصر ہے جو انسانوں کو باقی حیات سے ممتاز کرتا ہے۔ میری یہی انفرادیت اِس بات کا ثبوت ہے کہ شخصی خدا وجود رکھتا ہے کیونکہ میں جس ارتقا کے نتیجے میں ایک شخصی اور بالکل انفرادی وجود کا حامل ہوا ہوں، وہ ایسےامکانات کے لامتناہی دروازے کھول رہا ہے جس میں مجھ سے بڑھ کرارتقا یافتہ، دیگر انفرادی وجودوں اور شخصیات کا ہونا لازم آتا ہے۔ خود رچرڈ ڈاکنز نے کہا کہ، ’’ہم انسان کسی زیادہ ذہین ہستی کا بنایا ہوا ڈیزائن ہوسکتے ہیں‘‘۔
سو ارتقأ کا وہ سلسلہ جو ہم سے بڑھ کر ذہین ہستیاں ثابت کرتا ہے، وہی سلسلہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اِس ذہانت کی کوئی انتہا اور خاتمہ نہیں۔ یہ طبق در طبق ہے اور ان منازل کا کہیں اور کبھی بھی خاتمہ نہیں ہوتا۔ بلاشبہ اس مقام پر پہنچ کر بہت سے ایسے ڈیزائنرز ثابت ہو رہے ہیں جنہوں نے ممکنہ طور پر ہماری کائنات بنائی ہوگی کیونکہ ہم اپنے اوپر ایک سے ایک ذہین ہستی کا وجود، سائنسی طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن جب ہم ذہانت کے اس نہ ختم ہونے والے ارتقائی سلسلہ پر نظر ڈالتے ہیں تو خود بخود ایک ایسی بڑی عقل اِن تمام ڈائمینشنز پر حاوی ہوجاتی ہے جو ’’علت و معلول‘‘ سے پاک ہے۔ کیونکہ ابدی حال سے مسلسل اور مستقبل بنیادوں پر ماضی اور مستقبل تو پھوٹ سکتے ہیں، لیکن ابدی حال سے دیگر حال کیسے پھوٹیں گے؟ حال تو حال ہی رہے گا اور ایک ہی رہے گا۔ چنانچہ ہم واحد شخصی خدا کو اِس طرح تصور میں لائین گے کہ وہ ’’اصلی اور خالص زمانہ ہے‘‘ جو بہت بڑی عقل کا مالک ہے۔ اب چونکہ زمانہ پہلی ڈائمینشن کے ساتھ بھی ایسے رہ سکتاہے کہ اس کے ساتھ فقط حال میں ہی موجود رہے اور دوسری کے ساتھ بھی اسی طرح رہ سکتا ہے اور تیسری کے ساتھ بھی اِسی طرح رہ سکتا ہے تو پھر چوتھی اور پانچویں اور چھٹی اور ساتویں علی ہذالقیاس ہرایک ڈائمینشن کے ساتھ ایسے کیوں نہ رہ سکتا ہوگا کہ وہ ان کے حال میں عین اسی وقت میں موجود ہو جب دوسری ڈائمینشنز کے حال میں بھی موجود ہو۔ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ ایک لائن ون ڈائمینشنل ہے۔ اس لائن پر حرکت کرتا ہوا ایک نطقہ تصور کریں۔ اب سوچیں۔ یہ ایک ڈائمینشن ہے فقط، یعنی ایک لائن اور اُس کے ہر نقطے پر ’’زمانہ‘‘ اُس کے حال میں موجود ہے، یعنی اس مثال میں صرف ایک ڈائمینشن اور ایک وقت ہے فقط۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف مکان کی ایک ڈائمینشن اور ٹائم کی ایک ڈائمینشن نے اس فیبرک کے تانے بانے بُن دیے ہیں۔
اب دوبارہ دیکھیں، اب لائن نہیں ہے بلکہ ایک ٹو ڈائمینشل آبجیکٹ ہے، یعنی مستطیل یا مربع یا دائرہ وغیرہ اور اس میں حرکت کرتا ہوا ایک نقطہ تصور کریں۔ آپ دیکھیں! اب دونوں ڈائمینشنز کے ’’حال‘‘ میں ’’زمانہ‘‘ موجود ہے۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ مکان کی دو ڈائمینشنز ہیں اور زمانے کی ایک ڈائمینشن نے ان کے ساتھ مل کر سپیس ٹائم کی فیبرک بُن دی ہے۔ اسی طرح تھری ڈی کے آبجیکٹس میں ہر ہر ڈائمینش کے ساتھ بیک وقت ’’حال‘‘ میں موجود ’’زمانے‘‘ کو دیکھا جا سکتا ہے، تو فورتھ، ففتھ، سکستھ، سیونتھ اور اسی طرح ہر ہر ڈائمینشن کے ساتھ وقت کو حال کے طور پر بیک وقت موجود کیوں نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مکان کی ایک ہو، یا دو ہوں یا تین ڈائمینشنز ہوں، زمانے کی ہمیشہ ایک ہی ڈائمینشن اس کے ساتھ جڑتی ہے اور ہمیشہ اپنا اظہار فقط ’’حال‘‘ کے طور پر کرتی ہے۔ خدا چونکہ ابدی حال ہے سو وہ ہر ڈائمینشن میں اسی طرح ’’حال‘‘ کے طور پر موجود رہتا ہے۔ حال کا کام ہے پیش آمدہ حادثے (ایونٹ) کا موجب بننا۔ اس کا خالق بننا، اس کا شاہد بننا، اس کا ناظر بننا۔ حال کے بغیر نہ چیزوں کی حرکت ممکن ہے نہ زمان و مکاں کا وجود۔ فلہذا اس سوال کا جواب کہ ہم سے زیادہ ذہین، لاکھوں سال ایڈوانس ہستیاں ہوئیں تو خدا کہاں ملے گا؟ وہ تو سب خدا کہلائیں گے؟ نہیں! وہ تو سب بے چارے ہماری طرح مختلف ڈائمینشز میں موجود مخلوقات ہوں گے۔ ان کے ساتھ ہمہ وقت جو موجود رہے گا وہ ’’ابدی حال‘‘ ہوگا۔ زمانِ خالص، یعنی خدا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی ڈائمینشن اپنے اوپر اپنی ہی تہہ سے نئی ڈائمینشن نہیں بنا سکتی۔ نقطے کے عین اوپر نقطہ لگانے سے نقطہ میں کسی ڈائمینشن کا اضافہ نہیں ہوگا۔ ایک سائے پر ایک سایہ یا کئی سائے ڈال دینے سے بھی اگلی ڈائمینشن کا ظہور نہ ہوگا کیونکہ ایک سائے پر دوسرے سائے کی صورت میں تو دونوں ٹو ڈائمینشنل ہیں۔ اسی طرح ایک تھری ڈی کے آبجیکٹ پر ایک تھری ڈی کا آبجیکٹ ایسی تہہ نہیں بنا سکتا کہ اگلی ڈائمینشن کا اظہار ہو۔ اگر کوئی ڈائمینشن اپنے اوپر آئے گی تو وہ، بعینہ وہی ڈائمینشن رہے گی نہ کہ کوئی اور ڈائمینشن بن جائے گی۔ اس اصول کی روشنی میں ہر ڈائمینشن پر دوسری کوئی اور ڈائمینشن تعمیر ہوتی ہے۔ اگر بہت ساری کائناتیں ہیں تو بہت ساری ڈائمینشنز بھی ہوں گی ۔ فزکس کہتی ہے کہ مکان کی دس ڈائمینشنز ہیں۔ ہمیں کیا پتہ آگے چل کر کیا پتہ لاکھوں ڈائمینشنز کا پتہ ملنے لگے۔ جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ
’’میں تھری ڈائمینشنل اینٹٹی، خدا کے بارے میں کیسے کچھ رائے دے سکتا ہوں جو ملٹی ڈائمینشل ہستی ہے‘‘۔ سو اگر ڈائمینشن پر ڈائمینش تعمیر کرتے ہوئے ہم کبھی نہ ختم ہونے والے طبق طے کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھ سکتے ہیں تب بھی ہمیں یہ پریشانی نہیں ہے کہ ’’خدا تو ابھی بہت دُور ہے، پتہ نہیں ابھی ہمیں کتنی کروڑ ڈائمینشنز سے گزرنا پڑے گا ، خدا تک جانے کے لیے؟‘‘۔ ایسا نہیں ہے۔ خدا تو پہلی ڈائمینشن میں بھی ایسے موجود ہے جیسے آخری میں ہوگا، ڈائمینشنز کے لامتناہی سلسلے میں ہوگا، کیونکہ وہ تو ’’ابدی حال‘‘، وہی تو زمانہ ہے، بایں ہمہ فعّال، خلّاق، ذہین اور مستقل بنیادوں پر حیّ و قیّوم ہے۔
خدا موجود ہے یا نہیں ہے؟ اس سوال نے عاقلین کو دوصدیوں سے دو گروہوں میں بانٹ رکھا ہے۔ لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ وہ لوگ جو خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، ہمیشہ ’’جواب دینے والے‘‘ اور وہ لوگ جو خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتے، ’’ہمیشہ سوال اُٹھانے والے‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ فرق بہت بڑا ہے۔ کیونکہ سوال اُٹھانا ایک نہایت آسان کام ہے جبکہ کسی سوال کا جواب دینا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن ان دونوں طبقات میں مباحث کے دوران بحث کا جو اصول طے کیا جاتا ہے، وہ یہ ہوتاہے کہ چونکہ وہ لوگ جو خدا کے وجود کے قائل ہیں، ایک دعویٰ پیش کر رہے ہیں کہ ’’خدا ہے‘‘۔ چنانچہ ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے کہ’’ خدا ہے‘‘ تو ثابت کرو کہ کیسے ہے۔ اس پر مستزاد ’’وجودِ خدا‘‘ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر سوال اُٹھانے کے لیے کچھ خاص عالم فاضل ہونا ضروری نہیں۔ خدا کے وجود پر جاہل سے جاہل شخص بھی سوال اُٹھا سکتا ہے، لیکن اس کے برعکس دوسرے طبقے کے لیے لازمی ہے کہ وہ عالم فاضل ہو، کیونکہ اُسے اُٹھائے گئے سوال میں موجود سقم کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اور ساتھ ہی غلط معلومات کو درست کر کے پیش کرنا بھی اُسی کے حصے میں آتا ہے۔ اس مشکل صورتحال کا صحیح نقشہ پیش کرنے کے لیے میں ایک مثال سے مدد لیتا ہوں۔
مثلاً سائنس کے دو قوانین ہیں جو بہت مشہور اور منکرینِ خدا میں بےحد مقبول ہیں۔ ایک ہے، ’’لا آف کنزرویشن آف میٹر‘‘ اور دوسرا ہے’’لا آف کنزرویشن آف انرجی‘‘۔ اب اِن دونوں قوانین کو پیش کرنے والا اگر اِن کے حقیقی اطلاق سے ناواقف ہے تو وہ بحث کو طول دیتا چلا جائے گا۔ تب دوسرے فریق کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ اس انفارمیشن کی اصلاح بھی کرے۔ ’’لا آف کنزوریشن آف میٹر‘‘ یہ ہے کہ مادے کو نہ فنا کیا جاسکتا ہے اور نہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کا اطلاق ہر کہیں نہیں ہوتا، مثلاً آئن سٹائن سے پہلے بھی یہ قانون موجود تھا اور پھر جب آئن سٹائن کے بعد نیوکلیئر انرجی کی طرف انسان متوجہ ہوا اور معلوم ہوا کہ ایٹم کو پھاڑا جا سکتا ہے تو اِس قانون کے اطلاق کا علاقہ مختصر کر دیا گیا۔ علاوہ بریں اِسے ’’لا آف کنزرویشن آف انرجی‘‘ کے ساتھ ملا کر دوبارہ سے مرتب کیا گیا۔ آئن سٹائن کے ’’ماس انرجی اِکولینس‘‘ کے نظریہ سے پہلے پہلے تک ’’قانون بقائے مادہ‘‘ تباہی کے دھانے پر کھڑا تھا۔ قانون بقائے مادہ یہ ہے کہ’’ مادے کو نہ فنا کیا جاسکتاہے نہ پیدا‘‘۔ لیکن جب ہم یورینیم کا ایک ایٹم پھاڑتے ہیں تو یورینیم، مزید یورینیم نہیں رہتا بلکہ دو عناصر کریپٹون اور بیریم میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران تین عدد نیوٹران ضائع ہوجاتے ہیں۔ جب تک آئن سٹائن نہ آیا، جب تک آئن سٹائن کا ’’ای ِکولزایم سی سکوئرڈ‘‘ نہ آیا، تب تک اس قانون کو بچانے کے لیے یہ دلیل بھی نہ آئی تھی کہ وہ تین نیوٹران دراصل اب توانائی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ چنانچہ قانون بقائے مادہ یہاں قائم نہیں رہتا بلکہ وہ قانون بقائے انرجی کے ساتھ مِکس کرنا پڑتا ہے۔اِسی طرح اس قانون کا دوسرا حصہ کہ مادہ پیدا نہیں کیا جاسکتا، کیزمیر(Casimir)ایفکٹ کے بعد غلط ثابت ہوگیا ہے۔ کیزمیر ایفکٹ میں ایسے مقام پر جہاں مادے یا انرجی کا کوئی ایک بھی پارٹیکل نہیں ہوتا، اِس ایفکٹ کی مدد سے پہلے ورچول پارٹیکل پیدا کیے جاتے ہیں جو بعد میں انرجی کے پارٹیکلز بن جاتے ہیں اور پھر انرجی کے ان پارٹیکلز کو بعد ازاں مادے کے پارٹیکلز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیدائش بالکل غیر موجود سے ہوئی ہے۔ کیزمیر ایفکٹ کی پہلی شرط ہی یہی ہے کہ اُس ویکیوم باکس میں جہاں یہ تجربہ کیا جائے گا ، وہاں مادے اور انرجی کا پارٹیکل پہلے سے موجود نہ ہو۔
کیزمیر ایفکٹ کے علاوہ کوانٹم فلیکچوئشن بھی اِسی تصور کا نام ہے کہ خالی خولی سپیس سے بھی پلانکیَن سطح پر مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سائنسدان مادے کو کثیف ترین سپیس بھی کہتے ہیں۔ اس پر مستزاد انرجی کی بقا کے قانون کا نقص ہے۔ انرجی تو ڈارک انرجی بھی ہے، اور سائنسدانوں کے مطابق اس کائنات کا تہتر فیصد ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔ ڈارک انرجی کو ڈارک انرجی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ابھی تک اس کے بارے میں سائنس کو کچھ پتہ نہیں۔ فقط ایک قیاس ہے جو کلّی طور پر غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ڈارک انرجی کے پارٹیکلز کو تلاش کرنے کا کام سالہاسال سے جاری ہے لیکن ابھی تک ایک پارٹیکل بھی دریافت نہیں ہو سکا۔ جب تک ڈارک انرجی کے پارٹیکلز دریافت نہیں ہو جاتے، ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی’’قانون بقائے انرجی‘‘ نامی قانون بھی وجود رکھتا ہے۔
اس ساری بات سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ قانون بقائے مادہ یا انرجی کُلّی طور پر غلط ہے۔ اس سے مراد فقط یہ ہے کہ یہ قوانین آفاقی پیمانے پر یا کوانٹم لیول پر درست نہیں ہیں۔ یہ قوانین فقط روز مرّہ زندگی میں درست ہیں، کیونکہ ان قوانین سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ دودھ کو آگ پر کڑھانے سے دودھ کم ہو جاتا ہے اور سمجھا جاتا تھا کہ مادہ فنا ہو جاتا ہے۔ اس غلط فہمی کا جواب دینے کے لیے یہ قوانین اس وقت بےحد مضبوط قوانین تھے۔ انھی کے ذریعے جواب دیا جاتا تھا کہ آگ پر دھرا دودھ ضائع نہیں ہوا بلکہ مادے کے مالیکیول ہوا میں شامل ہوگئے ہیں۔ اُن مالیکیولوں کو اگر واپس بلایا لیا جائے تو دودھ پھر پہلے جتنا ہوجائے گا، ثابت ہوا مادہ فنا نہیں ہوتا۔ چنانچہ جب تک ان تمام تفاصیل کا علم نہ ہو، بحث میں وجود ِخدا کا انکار کرنے والا مسلسل یہ کہتا رہے گا کہ مادہ نہ تو فنا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کائنات قدیم ہے اور اگر کائنات قدیم ہے تو پھر خدا کا وجود لازمی طور پر’’نہیں‘‘ ہے۔ یہی استدلال تھا نیٹشے کے پاس بھی جسے بابائے دہریت مانا جاتا ہے۔
بگ بینگ تھیوری کے مطابق کائنات شروع میں وائیٹ ہول تھی۔ وائیٹ ہول ہماری قابلِ مشاہدہ کائنات میں صرف ایک ہی پیدا ہوا ہے جس سے بگ بینگ ہوا۔ بلیک ہولز البتہ ہماری کائنات میں ہزاروں لاکھوں ہیں اور روز روز نئے نئے پیدا ہو رہے ہیں۔ بگ بینگ جس قدر چھوٹے ذرّے میں واقع ہوا اور بلیک ہول جس طرح چھوٹے سے ذرّات سے شروع ہو سکتے ہیں، دونوں قوانین، یعنی ’’قانون بقائے مادہ‘‘ اور ’’قانون بقائے توانائی‘‘ کا اطلاق ان مقامات پر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ چنانچہ لازم ہو جاتا ہے کہ وجود ِخدا کو ثابت کرنے والے فریق ِبحث کے پاس جدید سائنس کا تازہ ترین علم بھی ہو۔ میرا ذاتی طور پر خیال ہے کہ وجودِ خدا کے حق میں عقلی علوم اتنا کام نہیں آتے جتنا حسی علوم کام آتے ہیں۔ حسّی علوم سائنس کو کہا جاتا ہے۔ کانٹ سے پہلے تک خدا کو ثابت کرنے کے لیے فلاسفہ فقط عقل سے کام لیتے تھے اور خدا کو کائنات کے پست و بلند میں نہ ڈھونڈھتے تھے۔ سائنس کائنات کے پست و بلند کا علم ہے اور کم از کم اسلام نے کائنات پر غور کرنے اور حسّی علوم کو ترویج دینے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ قرآن کی آمد سے پہلے پہلے تک صرف استخراجی عقل سے کام لیا جاتاتھا۔ اور جیسا کہ اقبال نے بھی لکھا، ’’سقراط اور افلاطون کو حسّی علوم‘‘ سے نفرت تھی جبکہ قرآن نے ’’واختلافِ اللیل والنہار‘‘ پر غور کرنے سے لے کر کائنات میں سیر کرنے تک ہرقسم کے سائنسی اور استقرائی علوم کی حد سے زیادہ حوصلہ افزائی کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انسان جو مظاہرِ فطرت کو دیوتاؤں کا درجہ دے کر ان کے آگے سجدہ کیا کرتا تھا، اسلام کے تسخیر ِکائنات کے نظریہ کے بعد اُنھی دیوتاؤں کو اپنا غلام بنانے لگا، کیونکہ اسلام نے کہا، یہ پہاڑ، یہ دریا، یہ اشجار، یہ حیاتِ ارضی، یہ سب تمھارے دیوتا نہیں بلکہ تمھارے غلام ہیں۔
چنانچہ سائنسی استدلال، عقلی استدلال سے کہیں زیادہ وجودِ خدا کے حق میں آگے بڑھتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈبل سلٹ ایکسپری منٹ کی رُو سے جو کہ لیبارٹری کا تجربہ ہے نہ کہ تھیوری، اولّین پارٹیکل جس سے بگ بینگ ہوا، اس کے ویو فنکشن کو کولیپس کرنے کے لیے بھی ناظر درکار ہوگا۔ چاہے وہ مشینی ناظر ہی کیوں نہ ہو۔ جو لوگ ڈبل سلٹ ایکسپری منٹ، یا ویوفنکشن کے کولیپس ہونے کے بارے میں کوانٹم فزکس کے نظریات پڑھ چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ایک پارٹیکل اپنے ویوفنکشن کو کولیپس کرتا ہے تو کسی ناظر کی موجودگی میں۔ وہ ناظر ایک آلہ بھی ہو سکتا ہے، ایک چوہا بھی اور ایک انسان بھی۔ سو، بگ بینگ کے وقت جو پارٹیکل تھا، جسے ہم نے وائیٹ ہول کے نام سے جانا وہ بھی تو سپرپوزیشن پر ہوگا۔ کسی بھی پارٹیکل کا ویو فنکشن کولیپس کرنے کے لیے ناظر کا وجود لازمی ہے۔ فلہذا یہ سوال کہ اوّلین پارٹیکل کو کس ناظر نے کولیپس کیا ہوگا؟ پوری طرح جائز اور مکمل طور پر منطقی ہے۔ غرض سائنس کے پاس فلسفے سے کہیں زیادہ ثبوت موجود ہیں کہ خدا کا وجود ہو سکتا ہے۔ فلسفہ عقلی دلائل پر اکتفا کیا کرتا تھا۔ غزالی اور کانٹ نے فلسفے کی اس خرابی کا خوب نوٹس لیا اور اپنے اپنے دور میں ایسی بےرُوح عقلیت کا خوب زور توڑا۔
اسی طرح اگر ہم کوانٹم چیشائر ایفکٹ کو ہی لے لیں تو اس ایفکٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی پارٹیکل سے اس کی پراپرٹیز (صفات) کو الگ کیا جا سکتا ہے۔ (اس پر میرا تفصیلی مضمون، موجود ہے)۔ اس سائنسی حقیقت نے پہلی بار عالمِ انسانی پر یہ راز کھولا کہ ذات و صفات کی وہ بحث جو تصوف کی مرغوب ترین غذا رہی ہے، اب وجودِ خدا کے معاملے میں مزید جاری نہ رہ سکے گی۔ صفات الگ کر دی گئیں تو ذات ہی ذات رہ جائے گی۔ یہ سوال کہ کوئی بھی شے اپنی صفات کی وجہ سے شے ہے، اب باقی نہیں رہے گا۔ صرف کوانٹم چیشائر ایفکٹ ہی نہیں بلکہ ہِگز بازانز کی دریافت نے تو کلّی طور پر ثابت کردیا کہ کسی بھی شے کی پیدائش سے بھی پہلے اس کی صفات کا وجود ہو سکتا ہے۔
ہگز فیلڈ ایک سکیلر مقدار ہے جو کائنات میں ہر جگہ برابر پھیلی ہوئی ہے اور ہِگز پارٹیکلز پوری کائنات میں، ایک دوسرے سے بالکل برابر برابر فاصلوں پر موجود ہیں۔ ہگز بازانز کو سمجھنے کےلیے آپ فوجیوں کی ایک پریڈ تصور میں لائیں۔ سینکڑوں فوجی قطاریں بنا کر کھڑے ہیں۔ ہرقطار کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ ہے۔ ایک دبلا پتلا شخص اگر فوجیوں کی دو قطاروں کے بیچوں بیچ سےگزر کر پَر لے پار جانا چاہتا ہے تو وہ آسانی سے چلا جائے گا لیکن اگر کوئی موٹا سا شخص وہاں سے گزرے گا تو وہ اِدھر اُدھر کھڑے فوجیوں کے ساتھ ٹکراتاہوا جائے گا۔ یہ اگرچہ پرفیکٹ مثال نہیں لیکن وقتی طور پر ایسا ہی سمجھ لیں۔ خیر! تو مادہ ہو یا انرجی ہر پارٹیکل اپنی پیدائش سے پہلے ایک میتھیمیٹکل وجود (صفات) رکھتا ہے، اور اُسے لازمی طور پر روشنی کی رفتار سے گزرنا ہوتا ہے۔ اُسے لازمی طور پر ہِگز بازانز کی قطاروں میں سے روشنی کی رفتار سے گزرنا ہے، لیکن اگر وہ ایک طرف کھڑے ہِگز بازان سے ٹکرا گیا تو پھر دوسری طرف کھڑے ہِگز بازان کے ساتھ بھی ٹکراجائے گا۔ جیسے گیند باؤنس ہوتی ہے۔ اگر وہ نہ ٹکراتا اور درمیان میں سے سیدھا سیدھا گزر جاتا تو روشنی کا پارٹیکل ہوتا۔ چونکہ اس کے ساتھ حادثہ پیش آگیا اور وہ اِدھر اُدھر کھڑے ہِگز بازانز کے ساتھ ٹکرا گیا ہے اس لیے اب وہ آخر تک اُن کے ساتھ ٹکراتا رہے گا، جس سے اُس کی رفتار میں کمی واقع ہوجائے گی۔ ہر وہ پارٹیکل جو روشنی کی رفتا رسے کم رفتار پر حرکت کرے وہ مادے کا پارٹیکل ہوتا ہے۔ یوں ایک غیر موجود پارٹیکل فقط ہگز بازانز کی وجہ سے موجود پارٹیکل میں تبدیل ہو کر مادہ بن جاتا ہے۔ مادہ پہلے موجود نہیں ہوتا لیکن ہگز بازانز میں سےگزرتے وقت وہ موجود ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہِگز بازانز کو ’’گاڈ پارٹیکلز‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ مادے کو پیدا کر رہا ہے۔ اب جس میتھیمیٹکل پارٹیکل نے ہگز بازانز کو ٹکر ماری، وہ غیر موجود تھا لیکن اُس کی صفات موجود تھیں۔ مثلاً الیکٹران، مادے کا پارٹیکل اس لیے بن جاتا ہے کہ وہ ہگز بازانز کے ساتھ ٹکرا کر رائٹ ہینڈ اور لیفٹ ہینڈ ٹوِسٹ کرتا ہے اور الیکٹران بن جاتاہے، جس کی رفتار روشنی کی رفتار سے کم ہے اور اس لیے وہ مادہ ہے۔ ہر وہ چیز مادہ ہے جس کی رفتار روشنی کی رفتار سے کم ہے اور ہر وہ چیز انرجی ہے جس کی رفتار روشنی کی رفتا پر ہے۔ ثابت ہوا کہ مادہ تو صفات کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ ہگز فیلڈ اس کا موجب بنتی ہے لیکن صفت پہلے آتی ہے، ’’رائٹ ہینڈ ٹوسٹ اور لیفٹ ہینڈ ٹوسٹ ‘‘ کسی بھی انرجی کے پارٹیکل میں پیدا ہو جائے تو وہ ہگز بازانز کے ساتھ اَڑ اَڑ کر سفر کرنے لگتا ہے اور مادہ بنتا چلا جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں ’’وجودِ خدا‘‘ پر بحث کرنے کے لیے دونوں فریقین کو سائنس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے، کیونکہ سائنس کے ذریعے ہم جزواً جزواً وجودِ خدا کی طرف بڑھتے ہیں۔ ہم ریشنلزم اور امپرسزم کا موازنہ کریں تو ایک تاریخی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ریشنلزم کا جو زور کانٹ اور غزالی نے توڑا اور بقول اقبال جس کے بعد ’’عیسائیت نے اپنے مذہب سے عقائد کا حصہ الگ کر دیا‘‘، کیا وہ زور انیس سو سڑسٹھ کے بعد واپس نہیں لوٹ رہا؟ کیونکہ اب سائنس بالخصوص فزکس کے مزید قوانین نہیں آ رہے۔ تھیوریز آ رہی ہیں۔ تھیوریز قطعی ریشنل ایکٹوٹی ہے یعنی موجودہ سائنسی تھیوریز میں اور کانٹ سے پہلے والی عقلیت پرستی میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ موجود دور کی فزکس کو پوری طرح سائنس کہا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ خود اب میٹافزکس بن چکی ہے اور نہایت غیر محسوس طریقے سے خود ہی وجودِ خدا کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے۔
آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آبرزرویبل کائنات بذاتِ خود یعنی پوری کی پوری کائنات ایک ساتھ، بقول سائنس، فورتھ ڈائمینشل اینٹٹی (ہستی) ہے۔ یہ واحد فورتھ ڈائمینشنل اینٹٹی ہے جو موجود ہے۔ ہم انسان تھری ڈائمینشنل اینٹٹیز (ہستیاں) ہیں۔ ہم سوچ سکتے ہیں۔ ہم فیصلے کرسکتے ہیں۔ اب غور کریں! سایہ (Shadow) جو کہ ٹو ڈائمینشنل اینٹٹی ہے، کسی تھری ڈائمنشنل اینٹٹی کا ہی بن سکتا ہے، ایسے ہی بقول اوس پنسکی، تھری ڈی کی ہر شے کسی فورتھ ڈائمینشنل اینٹٹی کا سایہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ اگر کائنات واحد فورتھ ڈائمینشنل اینٹٹی ہے تو پھر وہ ہم سے زیادہ سوچ سکتی ہوگی؟ پین سپرمیا کی تھیوری کے مطابق کائنات ایک سوچنے والا جیتا جاگتا جاندار ہے جو ہم سے ایک ڈائمینش ایڈوانسڈ ہے۔