غزالی اور کانٹ: مشرق و مغرب میں عقلیتِ محض کے یکساں قاتل۔۔۔ادریس آزاد
(یہ مضمون 31 مئی 2018 کو مضامین ڈاٹ کام پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ مضامین ڈاٹ کام کے شکریہ کے ساتھ یہا ں شائع کیا جا رہا ہے)
غزالیؒ اور کانٹ نے تقریباً ایک جیسا کام کیا۔ جیسا کہ علامہ اقبالؒ اپنے خطبات میں بجاطور پر لکھا کہ،
“بہرحال یہ کچھ اس بغاوت اور کچھ غزالیؒ کے ذاتی حالات کا تقاضا تھا کہ امام موصوف نے مذہب کی بنا فلسفیانہ تشکک پر رکھی حالانکہ یہ مذہب کی کوئی محکم اساس ہے نہ تعلیماتِ قرانی کے مطابق۔
کچھ یہی حیثیت اَٹھارویں صدی میں کانٹ کو جرمنی میں حاصل ہوئی۔ جرمنی میں بھی اس وقت مذہب کو عقلیت کا حلیف تصور کیا جاتاتھا۔ لیکن پھر تھوڑے ہی دنوں میں جب یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ عقائد کا اثبات ازروئے عقل ناممکن ہے تو اہل ِ جرمنی کے لیے بجز اس کے چارہ نہ رہا کہ عقائد کے حصے کو مذہب سے خارج کردیں (تشکیل ِ جدید)”
غزالیؒ نے مشرق اور خصوصاً اسلامی دنیا میں اور کانٹ نے جرمنی یعنی مغربی دنیا میں تقریبا ایک جیسا کام کیا اور یہ دونوں انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کی پناہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان نہیں کچھ اور ہی مخلوق تھے۔ مجھے پوری تسلی ہے کہ کانٹ کا دماغ آئن سٹائن سے کہیں زیادہ تھا۔ کانٹ نے مغرب میں عقلیت پرستی کا بُت اس بری طرح سے گرایا کہ آئندہ کے لیے پورے مغرب کی زندگیوں، افکار اور اعمال کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔
اس معاملے میں بھی دونوں بالکل ایک جیسے ہیں۔ مسلم دنیا میں غزالی نے جب عقلیت پرستوں کو اُسی قوت سے شکست دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آئندہ کے لیے پورے مشرق کی مسلم دنیا کی زندگیوں، افکار اور اعمال کا دھارا ہی بدل کررکھ دیا۔
کتنی حیرت کی بات ہے۔ ایک جیسے جذبے کے ساتھ ایک جیسی کتابوں کا لکھنا اور ایسی کتابوں کا لکھنا جو زمین پر بسنے والے ہر ہر ذی رُوح کی زندگی پر براہِ راست اثرانداز ہوئی ہوں، ہورہی ہوں اور ہوتی رہیں؟ عجب!!!!!!
کانٹ کی مشہور کتاب “تنقیدِ عقلِ خالص” ہے۔ یعنی پیور ریزن پر تنقید کی گئی ہے۔ اور غزالیؒ کی کتاب “تہافۃ الفلاسفہ” ہے ۔۔۔۔۔۔ جس کا ترجمہ ہے فلسفیوں کے لیے تحفہ”۔
اچھا مزید مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت میں دونوں روئے زمین پر سب سے زیادہ فلسفہ جاننے والے لوگ تھے۔اس پرمستزاد ناقابل ِ یقین حد تک حسن ِ اتفاق یہ ہےکہ نتائج بھی دونوں کے بالکل ایک جیسے تھے۔
“دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اکیلی عقل حقیقت کا اصلی علم حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ عقل کے ذریعے حقیقتِ مطلقہ Ultimate Truth تک رسائی ممکن نہیں”۔
دونوں نے ایک جیسے دلائل دیے۔ وہ لوگ جو کائنات اور خدا کی بحثوں میں عقلی دلائل کی ایسی ایسی باریک مثالیں لاتے کہ سننے والے انگشت بدندان رہ جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم دنیا میں غزالی اور مغربی دنیا میں کانٹ کے آنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کنارے سے لگ گئے۔
لیکن ایک بات بہت عجیب ہوئی۔ عجیب تو خیر نہیں کہہ سکتے کہ اُس کے ہونے کی پوری منطق (لاجک) موجود ہے۔ لیکن وہ ہے بہرحال چونکا دینے والی،
ہوا یہ کہ غزالی نے جب یہ جان لیا کہ خدا کو عقل کے ذریعے نہیں ڈھونڈا جاسکتا تو اس نے کہا مذہب بے منت عقل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہی دنیاو آخرت کی فلاح کا ذریعہ ہے۔
جبکہ غزالی نے جب یہ جان لی ا کہ خدا کو عقل کے ذریعے بیان کرنا ممکن نہیں تو اس نے صبر سے کام لیتے ہوئے “سنتھیٹک اے پری آری” نامی عقل ِانسانی کی ایک کیٹاگری دریافت کرلی جس سے کم ازکم حاصل ہونے والا علم قابل ِ تصدیق تھا۔ کانٹ نے اتنے سے پر گزارا کرنا گوارا کرلیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں اجزائے کائنات میں خدا کو ڈھونڈنے لگ گیا۔
دونوں کا بیک گراؤنڈ شدید مذہبی تھا۔ دونوں نے خدا کا پیچھا نہ چھوڑا۔ غزالی نے کُل کا کُل خدا ڈھونڈنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ کانٹ نے اجزائے کائنات کی تصدیق میں اس کی موجودگی کا لطف لینا شروع کردیا۔ دونوں کامیاب ہوئے کہ نہیں اِ س بات کی تصدیق اس لیے ناممکن ہے کہ ان میں سے ایک یعنی غزالی اس علم میں کھو گیا جسے شاید علم کہنا عقلاً درست بھی نہیں یعنی “روحانیات” ۔۔۔۔۔ جس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ جبکہ کانٹ نے قابل ِ تصدی علم یعنی اجزائے کائنات کے علم پر عقل کی مزید فیکلٹیز دریافت کرنا شروع کردیں اور تاعمر اُس نے یہی کیا۔
اب ذرا غور سے دیکھیے گا! وہ نقطہ جس کی وجہ سے میں ںے یہ سارا ماحول بنایا۔
کانٹ کے نتائج کے اثرات سے عقل پرستوں کی تو چھٹی ہوگئی لیکن مغرب کے لوگوں کو یک گونہ اطمینان بھی مل گیا کہ چلو تھوڑا تھوڑا سہی حقیقت کا کوئی روپ تو ہمارے سامنے ہے۔ یہ زمین، یہ پھل پھول، یہ چھوٹی چھوٹی دنیاوی خوشیاں، سچ کی خوبصورتی، فزکس کی باتیں، بیالوجی کی کہانیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھوڑا ہی بہت ہے۔
اجزائے کائنات کا مطالعہ ہی اچھاہے۔ کم ازکم قابل ِ تصدیق تو ہے۔ آج ایسا ہے کل بدل جائیگا تو کیا ہوا؟ بدل جائے! ہم بھی بدل جائینگے۔ ہم نہیں جانتے خدا کتنا بڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم انتا جانتے ہیں کہ وہ بہت ہی بڑا ہونا چاہیے کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے اس کے مظاہر، یہ کائنات کا کھلا ہوا پھول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ “غنچوں کی چٹخ، پھولوں کی مہک، ہواؤں کی دلاافرزی، سمندروں کا طلاتم لہروں کا تموج، شاخوں کا جھکاؤ، دریاؤں کا بہاؤ، تخلیق کا حسن، صنعت کی خوبی، تصویر کی دلکشی، جھرنوں کا ترنم، آبشاروں کی موسیقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بہاروں کی شمیم ِ جانفزا اُسی کے مظاہر ہیں تو حقیقت کے ہی اجزأ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب تو ہے نا ہمارے پاس؟ چلو! اسی کو دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔
اس کے برعکس مشرقی مسلمانوں کو جب غزالی کے بعد یقین حاصل ہوگیا کہ “عقل کا کام نہیں خدا کو ڈھونڈنا” تو انہوں نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ہو! عقل تو بہت ہی بری چیز ہے؟ زیادہ سوچنا ہی نہیں چاہیے! خدا کو ڈھونڈنا ہے تو عقل کو چھوڑو! دل میں ڈھونڈو! یہ زندگی عارضی ہے۔ مستقل زندگی کا سامان کرو! یہ مال متاع مُردار ہے۔ انسان خسارے میں ہے اور بہتر یہی ہے کہ روح کی گہرائی میں خدا کے ساتھ رابطہ کرکے اس سے اتصال حاصل کیا جائے۔ یہی دنیا کی زندگی کی کامیابی ہوگی۔ کیونکہ خدا سے ملاقات ضروری ہے۔
مذہبی تو دونوں ہی تھے۔ یوں نہیں کہا جاسکتا کہ اُس وقت کے جرمن کم مذہبی تھے اور ہمارے عرب زیادہ مذہبی تھے۔ معتزلہ نے تو ایسا ماحول بنا دیا ہوا تھا کہ مسلم ریاستوں کے باشندوں کی نسبت جرمن کہیں زیادہ مذہبی شمارشمار کیے جانا چاہییں۔
بات یہ نہیں کہ دونوں مذہبی نہیں تھے۔ دونوں طرف کے لوگ مذہبی تھے۔ وہ دور ہی مذہبی تھا۔ انسان ہوتاہی مذہبی تھا۔بات یہ ہے کہ غزالی نے جو زندگی بعد میں اختیار کرلی اور جو مؤقف بعد مین اختیار کرلیا اس نے مسلم دنیا کو روحانیت کی طرف مائل کیا اور قدیم زمانے کے یونانیوں کی طرح کائنات کے علم سے بے رغبتی کا درس دیا۔
جبکہ کانٹ نے جو زندگی بعد میں اختیار کی اس میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے اپنی دریافت “سنتھیٹک اے پری آری نالج” پر مزید کام کیا جس سے موجودی سائنس وجود میں آگئی۔
جو لوگ نظریہ اضافیت جانتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اضافیت کانٹ ہی کا حقیقی کارنامہ تھا جسے سائنس میں آئن سٹائن نے محض ثابت کیا۔