اسراع، ایک عجوبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
اسراع، ایک عجوبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
اسراع (یعنی ایکسیلیریشن) کائنات کے عجب مظاہر میں سب سے بڑھ کر ہے۔ جہاں اِس مظہر نے آئن سٹائن کی جنرل ریلیٹِوٹی جیسی عظیم ترین تھیوری کی بنیاد رکھی، وہاں اس کے دیگر بے شمار اثرات بھی کچھ کم حیران کُن نہیں ہیں۔ مثلاً فرض کریں ایک چارجڈ پارٹیکل (مثلاً پروٹان) یونیفارم ولاسٹی سے سفر کررہاہے۔ ظاہر ہے اس کے آس پاس ایک الیکٹرومیگانیٹک فیلڈ بھی ہے جو اُسی یونیفارم ولاسٹی سے اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی ہے۔ اگر یہ چارجڈ پارٹیکل فقط ایک نینوسیکنڈ کے لیے ہی اچانک حالتِ اسراع میں آجائے یعنی ایکسیلیریٹ ہوجائےاورپھر فوراً دوبارہ یونیفارم ولاسٹی پر چلاجائے تو اُس فیلڈ کو جو اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی ہے ایسا دھچکا لگتاہے کہ وہ ٹوٹ کر پارٹیکل سے الگ ہوجاتی ہے۔ فیلڈ کا یہ ٹوٹا ہوا ٹکڑا الیکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن کہلاتاہے۔ یہ ریڈی ایشن ہی تو سب کچھ ہے۔ ہمارے موبائیلوں اور اینٹیناؤں تک آنے والی شعاعیں یہی ریڈی ایشن ہیں۔ آج ہم جتنے جدید آلات سے واقف ہیں وہ سب اِسی ریڈی ایشن کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ چارجڈ پارٹیکل کو جب اوسیلیٹ (Oscillate) کردیاجاتاہے تو ان میں بار بار مثبت اور منفی اسراع پیدا ہونے لگ جاتاہے جس سے الیکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن متواتر اور مسلسل پیدا ہونے لگتی ہے۔ جسے حسبِ ضرورت استعمال میں لایا جاتاہے۔
ادریس آزاد